عیدکی نمازکے بعد، امام صاحب نے بڑی رقت کے ساتھ فلسطین، کشمیراوردنیامیں ہرجگہ مظلوم مسلمانوں کے لیے دعاکرائی۔ مسجدمیں ہرشخص نے آمین کہا۔ دعاکے بعد، تمام لوگ جیسے آئے تھے، ویسے ہی گھرچلے گئے۔ واپسی پرسوچ رہاتھاکہ پہلی بارکشمیر، فلسطین کی آزادی کے متعلق دعائیں کہاں اورکب سنی تھیں۔ گمان تھاشائد چالیس سال یاشائدپچاس برس پہلے۔ قطعی جواب حاصل نہ کرنے کے بعد اپنی خاموشی میں ڈوب گیا۔ رات کویاد آیا کہ جناح کالونی کی بغدادی مسجدمیں نمازپڑھنے گیا تھا۔ شائدپہلی بار وہاں شام کی نمازکے بعد، مولاناصاحب نے کافی لمبی دعا کرائی۔ اس میں کشمیراورفلسطین کے مسلمانوں کے حالات بہترکرنے کے متعلق بڑے جذباتی الفاظ موجود تھے۔ یہ شائد1969ء کی بات ہے یا1970ء کی، وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ویسے اب تویہ لگتاہے کہ کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی۔ کیونکہ لاعلمی کا احساس حددرجہ بڑھ چکاہے۔
بہرحال کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پانچ برس، کالج کی مسجدکے خطیب صاحب، ہرنمازکے بعدبڑی دکھ بھری آوازمیں دنیاکے مسلمانوں کے حالات بہترہونے کی دعامانگتے تھے۔ میری عمراس وقت بارہ برس تھی۔ آٹھویں کاطالبعلم تھا۔ پورے پانچ سال، یعنی ایف ایس سی کے اختتام تک میں ہرنمازکے بعد، بالکل ایک جیسے الفاظ سنتارہا۔ اب ساٹھ سال کی عمرمیں بعینہ وہی دعائیں سن رہاہوں۔ پہلے ذہن میں کبھی یہ سوال نہیں آیاکہ کسی سے پوچھ سکوں کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ مگراب یہ سوال بہرحال ذہن میں بجلی کی طرح کوندتا ہے۔ مکمل طورپربے بس کرڈالتاہے۔ میرے پاس کسی قسم کاکوئی جواب نہیں ہوتا۔ عرض کرتاچلوں کہ رائے ونڈمیں تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اجتماع کے آخری دن بڑاایمان پرورلمحہ ہوتا ہے۔
مذہبی قائدین روروکرمسلمانوں کی فلاح کے لیے دعاگو ہوتے ہیں۔ طویل دعا میں لاکھوں لوگ زاروقطار آنسو بہارہے ہوتے ہیں۔ مگرتھوڑے عرصے کے بعد حالات اور کاروبارزندگی مکمل طورپرایسے ہی رواں رہتاہے، جیسے پہلے چل رہاتھا۔ کشمیربھی ہندوستان کے تسلط سے آزادنہیں ہوتا۔ اسرائیل بھی پوری طاقت کے ساتھ، فلسطینی مسلمانوں پر مظالم جاری رکھتاہے۔ ہاں ایک اوربات۔ آج سے دوتین دہائیاں پہلے، بوسنیاکے مسلمانوں کی بھلائی کے الفاظ بھی سنے جاتے تھے۔ ویسے جوکچھ مظالم بوسنیااور اس کے اردگردکے علاقوں میں برپاہوئے، اس میں عالمی برادری نے باقاعدہ جنگ کرکے مظلوم لوگوں کی مددکی۔ یہ جنگ ان مغربی ممالک نے کی، جنھیںہم کافرکہتے ہیں اورجن کے معاشرے لادین ہیں۔ بہرحال مغربی دنیاکی مددسے اس خطے میں نئے ممالک وجودمیں آئے اور پھر مظالم ختم ہوگئے۔ ان کو روکنے کے لیے کسی مسلمان ملک نے اپنی فوج یافضائیہ کو مسلمانوں کی مددکے لیے بھیجنے سے گریزکیا، البتہ لفاظی بہت ہوئی۔
حج ہمارے ایمان کابنیادی جزوہے۔ یہاں بھی مسلمانوں کے اتحادکے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ لاکھوں آدمی پوری دنیاکے مظلوم مسلمانوں کے لیے آنسوؤں کے ساتھ دعائیں مانگتے ہیں۔ لگتاہے کہ تھوڑے دن کے بعد، تمام مسلمان ممالک فولادکی طرح مظلوم بھائیوں کی مددکے لیے، متحدہوجائیںگے۔ ہمارے لشکر، ظلم کرنے والوں کی گردنیں مروڑدینگے۔ مگر مسلم ممالک کی قیادت پھر بھی مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں۔ پھرکیامسلم اتحاد اور کون سی یکجہتی۔ تمام مسلم معاشروں اور ممالک پرتنقیدی نظر ڈالیں۔ بے ایمانی، متنازعہ شخصیات، فریب، جھوٹ، ریاکاری اور منافقت موجود ہیں، یہ اوصاف انفراد ی اور ریاستی اعتبارسے بھی موجود ہیں۔ یہ ہمارے جیسی ریاستوںکے خمیرمیں شامل ہیں بلکہ لازم جزوبن چکی ہیں۔
عام لوگوں کوعلم، تجسس اورترقی سے انتہائی سفاک طریقے سے دور رکھاگیاہے۔ ویسے اگرکینویس کوبڑاکرلیں، توتیسری دنیا کے حالات بالکل یکساں ہیں۔ ان کے بربادرہنے میں حکمران طبقے کا اہم کردار ہے۔ مسلم ممالک، اپنی پیہم ناکامی کوکسی بھی صورت میں معقولیت سے جواب تلاش کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اکثریت ایک انتہائی معصومانہ، پہلے سے تخلیق کردہ جواب کواصل سمجھتے ہیں کہ ہماری اصل ناکامی، اس لیے ہے کہ ہم اپنے دین سے دور ہیں۔ یہ کسی حدتک درست بھی ہے۔ مگرپھران ممالک کے نظام کوپرکھنا پڑتاہے، جہاں مذہب سیاست سے دور ہے۔ جیسے چین، روس، ویت نام وغیرہ۔ وہاں معاملات بالکل درست ہیں۔
دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی صورت میں، لازم ہے کہ ہمیں تقابلی جائزہ لیناپڑتاہے۔ ترقی یافتہ ملک کیسے اتناآگے نکل گئے۔ ہم اتنے پیچھے کیسے رہ گئے۔ وہ کیا عوامل تھے اورہیں۔ جنھوں نے ہمیں جنگ، بے ترتیبی اورغفلت کی کیلوں سے زمین میں گاڑکررکھ دیاہے۔ مگریہ تقابلی جائزہ کرنااَزحدخطرناک ہے۔ اسلیے کہ اس میں کئی ایسے عوامل بھی سامنے آتے ہیں جن پرہمارے جیسے معاشروں میں کوئی بحث نہیں ہوسکتی۔ ہاں، ملفوف باتیں ضرورکی جاسکتی ہیں۔ جوسمجھنے والے سمجھ لیں اورنہ سمجھنے والوںکے اوپرسے گزرجائیں۔ اگرہم دانائی سے سوچیں، جوکہ اَزحدمشکل ہے۔ توہم اپنی مشکلات کے ذمے دارِ خودہیں۔ کوئی بھی عالمی طاقت ہمیں موروثی بادشاہت یاخاندانی جمہوریت پرمجبورنہیں کرتی۔ دنیا کا کوئی بھی مضبوط ملک، ہمیں مالیاتی، اخلاقی اورسماجی کرپشن کاسبق نہیں دیتا۔ اس کام کے لیے ہم خودہی کافی ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک کولے لیجیے۔
آپکوان معاشروں میں پسماندگی کے اسباب تقریباً یکساں محسوس ہوں گے۔ سب کچھ چھوڑدیجیے۔ اپنے ملک کے نظام کوسامنے رکھ کر معاملات کی گتھی سلجھانے کی کوشش کریں۔ چودہ طبق روشن ہوجائیںگے۔ جس وقت برصغیرکوتقسیم کیاگیا تھا۔ تو ہمارے بزرگوںکے ذہن میں تھاکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا، جہاں مسلمانوں کومذہبی، اقتصادی اورسماجی آزادی ہوگی۔ اپنے دین کے مطابق عملی زندگی گزارنا ممکن ہوگا۔ کوئی دوسرا طاقت کے بل پر ہم پرحکومت نہیں کریگا۔ معاشی انصاف ہوگا۔ بلکہ ہرشعبہ میں انصاف ہوگا۔
مگرآج تعصب کے بغیرسوچیے تو کیاجواب ملتا ہے۔ ان میں ایک بھی اُصول پرپابندِکارنہیں ہوپائے۔ مذہبی تفریق بڑھ کرایک دوسرے کی گردن کاٹنے تک جاچکی ہے۔ کوئی ایک فرقہ، دوسرے کومکمل مسلمان تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ ہرفرقے کی مساجد اور عبادت گاہیں، الگ توہیں ہی۔ مگروہ دوسرے فرقے کے مسلمانوں کے لیے کشادہ نہیں۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دیناعام سی بات ہے۔ وہ مذہبی رواداری اورانسانیت کے اُصول، جن کے لیے ہم نے نیاملک بنایا تھا۔ کیاواقعی ہم ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں۔ کیاایک دوسرے کے غم میں شریک ہونے والے بھرپورانسان ہیں۔ آپکے پاس ہوسکتا ہے کہ اس سوال کاجواب ہو۔ مگرکم ازکم میرے جیسے طالبعلم کے پاس توکسی طرح کامعقول جواب نہیں۔
مالیاتی کرپشن کی طرف آئیے۔ پاکستان میں ایک بھی امیرآدمی یامتمول خاندان، اپنی دولت کامنبع نہیں بتا سکتا۔ کوئی بھی جواب نہیں دے سکتاکہ گزشتہ بہتربرسوں میں اتناامیرکیسے ہوا۔ بے ایمانی کوکاروبارکی منطق بنادیا گیاہے۔ پرانی حکومتیں سیانی تھیں۔ انھوں نے ہرطرح سے آنکھیں بندکررکھی تھیں۔ مگرموجودہ حالات ہماری معیشت کوکس طرف لیجاتے ہیں، ان کے متعلق کچھ بھی وثوق سے کہناتقریباًناممکن ہے۔ سیکڑوں لوگوں کوجانتا ہوں۔ متمول ہیں۔ کامیاب زندگی گزاررہے ہیں۔ مگر کاروباری اُصولوں میں بے ضابطگی کوبالکل برا نہیں سمجھتے۔ دونمبرمال کمانے کوشیرمادرسمجھتے ہیں۔
جعلی کام، جعلی اکاؤنٹ، ٹیکس سے ہرطریقے سے مفر، اپنے اپنے کاروبارکے بنیادی اُصول گردانتے ہیں۔ میرے ایک واقف کاروباری صاحب نے ایک دن عجیب سی بات کی۔ ان کالاہورکی پوش مارکیٹ میں بہت بڑاکاروبار ہے۔ چین سے کاسمیٹکس منگواکرپورے پاکستان میں فروخت کرتے ہیں۔ ایک دن ملنے آئے توکہنے لگے کہ الحمداﷲ ساری نمازیں پڑھتاہوں۔ زکوۃ بھی دیتا ہوں۔ غریبوں کی مددبھی کرتاہوں۔ مگرایک بات ضرورکہوں گا، کہ کاروبارالگ چیزہے اوردین مکمل الگ۔ انھوں نے باضابطہ طریقے سے کاروبارکے ٹھپ ہونے کی باتیں کیں۔ جب انھیں گھرسے باہرچھوڑنے گیا، تووہ نئی ماڈل کی مرسیڈیز پر تشریف لائے تھے۔ اگرکاروبارکم ہونے پر ڈیڑھ کروڑکی گاڑی رکھی ہوئی ہے توکامیاب کاروبار پر کیا حالات ہوںگے۔ یہ سوال بارہاذہن میں آتا رہا۔ مگر مجبوری ہے کہ پوچھ نہیں سکتا۔
یہ درست ہے کہ مسلمان ہرطرح کی ناانصافی اور استحصال کاشکارہیں۔ داخلی انتشارسے لے کربیرونی طاقتوں کے فریب میں غرق ہیں۔ مگرپھربھی اپنے آپ کوٹھیک کرنے کے لیے تیارنہیں۔ شائداس لیے کہ ان تمام ممالک میں نظام کوبہتربنانے کے لیے سنجیدہ کوشش کی اجازت ہی نہیں۔ انھوں نے اپنے اپنے ملک میں ہرطرح کے ظالم اورمظلوم پال رکھے ہیں۔ یہ آزاد تحقیق کوگناہ کادرجہ دے چکے ہیں۔ انھیں مظلوم رہنے کاحددرجہ شوق ہے۔ مگران میں سے کوئی بھی دوسرے سے یہ نہیں پوچھتاکہ ہماری دعائیں، قبول کیوں نہیں ہوتیں؟