جب سے انسان، مختلف ادوار میں زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا ایک حد درجہ اہم مسئلہ، یہ رہا ہے۔ کہ حق حکومت کس کوحاصل ہوگا؟ یہ سوال، عامیانہ بات نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی انسانی گروہ یا ملک یا خطے کے لوگوں کی ترقی کی بنیادی وجہ بن جاتا ہے۔ یعنی اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو عام لوگ خوشحالی کے سفر پر دوڑنے لگتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے حق حکمرانی غلط ہاتھوں میں چلا جائے تو ملک شام، لیبیا، عراق اور اس جیسے پسماندہ ترین ممالک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہوموسپین یعنی انسان، تو تقریباً دو تین لاکھ برس سے کرہ ارض پر موجود تھا۔ مگر حکومت کے زیر اثر رہنے کی تاریخ محض چار ہزار سال قدیم ہے۔ شروع شروع میں ہمیں سومر اور مصر کی حکومتیں نظر آتی ہیں۔ مگر سوال وہیں کا وہیں ہے کہ اگر ایک ریاست بن بھی جائے۔ تو اس میں حکمرانی کرنے کااختیار کس کے پاس ہوگا؟ ابتدا میں تو طاقت سے تخت حاصل کرنے کا اصول روا رہا اور یہ دائمی اصول آج بھی کس نہ کسی طرح مستحکم ہے۔ مگر جوہری بات یہ ہے طاقت کی" اصل تعریف" کیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کیا طاقت کی کوئی تعریف ہے بھی کہ نہیں؟ یہ نکتہ سمجھنا اور جاننا حد درجہ اہم ہے۔ اگر گزشتہ دو ہزار برس کی سلطنتوں کا مطالعہ کریں، تو "طاقت" کا مطلب وہ شخص تھا جو کسی بھی گروہ یا خطے کو زورِ بازو یا تلوار کے زور پر قبضہ میں کر لیتا تھا۔ یہ بدترین شخصی حکمرانی کا دور تھا۔
اس کا ناپاک سایہ کسی نہ کسی طرح آج بھی دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ فراعین مصر کو پرکھیے۔ ایک فرعون کے بعد، اسی کا منتخب، دوسرا فرعون، تخت نشین ہوتا تھا۔ یعنی موروثیت ایک اصو ل بن چکا تھا۔ غور سے دیکھیے تو پورے مسلمان ممالک میں حکمران ہونے کا اختیار صرف اور صرف اولاد یا خاندان کو حاصل تھا اور ہے۔ برصغیر میں یہ اصول، مکمل طور پر حاوی رہا۔ مغل بادشاہ ہوں یا سکھوں کی حکومت، مرہٹوں کی سلطنت ہو یا وسطی ایشیا سے آئے ہوئے قزاقوں کی۔ تمام اختیارات ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہوتے تھے جو کبھی ظل الٰہی کہلاتا تھا اور کبھی اوتار گردانا جاتا تھا۔ ہاں اس میں ایک معاملہ ضرور تھا۔
عسکری قیادت جس کسی کے ہاتھ میں ہوتی تھی، وہ کسی وقت بھی مقتدرہ کی بازی پلٹ سکتا تھا۔ حیدر علی، علی وردی خان، نانا فرنویس، اس کی چند مثالیں ہیں، جب فوج کے سربراہ نے، بادشاہ کو تلوار کے زور پر بادشاہت سے سبک دوش کر ڈالا اور خود حکمران بن گئے۔ برصغیر میں انگریزوں کے آنے سے ایک بہت انقلابی تبدیلی آئی۔ انھوں نے پورے ہندوستان میں حکومت کرنے کا اختیار مختلف طریقوں سے حاصل کرلیا۔ کہیں جنگ کا سہارا لیا اور کہیں لالچ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ کہیں سازش سے ریاست کی قوت پر قبضہ کر لیا اور کہیں معاہدے کرکے اشرافیہ کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ مگر یہ سب کچھ، صرف برصغیر میں ہی نہیں ہو رہا تھا۔ آج سے تین سے چار صدیاں قبل، پوری دنیا، اسی طرح چل رہی تھی۔ سلطنت عثمانیہ اور سلطنت برطانیہ بھی ایک ہی ریاستی ڈگر کے مسافر تھے۔
مگر مغرب میں ایک حد درجہ اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ وہاں صنعتی انقلاب تو آ ہی رہا تھا۔ مگر وہاں مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے اصول، مقامی فلسفی اور لکھاری بہت ریاضت سے تبدیل کر رہے تھے۔ روسو Rousseau اور Hobbes انسانوں کے باہمی ریاستی معاملات کو انقلابی سطح پر بیان کر رہے تھے۔
رومن سلطنت میں سینیٹ اور اس کے اثرات پر اس وقت عرض نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ بذات خود ایک کتاب کا موضوع ہے۔ مگر جمہوریت کی بنیاد ہمیں رومن سینیٹ کے نظام ہی سے فروغ پاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں آئیے۔ تو 1707میں آپ کو برطانیہ میں پہلی پارلیمنٹ قائم ہوتی نظر آتی ہے۔ Robert Walpole، 1712میں برطانوی وزیراعظم بن چکا تھا۔ جو حق حکمرانی، کیبنٹ اور وزراء کو دیتا نظر آتا ہے۔ یعنی انسانوں پر انسانوں کی حکومت کے اصول نے نمو پائی اور یہی جمہوریت کی بنیاد بن گئی۔ ہاں ایک اہم بات۔ English bill of rights کے ذریعے، روایتی پاور بروکرز کی طاقت کو ختم کر دیا گیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ بل 1689میں پاس ہو کر عملدرآمد ہو چکا تھا۔ بالکل اسی طرح 1776 میں امریکا میں Virginia Declaration of rights کا قانون بن چکا تھا اور حکومت کرنے کا اختیار "اشرافیہ" سے چھین لیا گیا تھا۔ اس میں تخت پر براجمان ہونے کا مکمل اختیار، عام لوگوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
یہ بات اتنی سادہ نہیں، جتنی کہ لکھنے میں نظر آتی ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں اشرافیہ اور ان سے منسلک گروہوں نے، عام آدمی تک اختیارات کی منتقلی کے کلیہ کی ہر طرح مخالفت کی۔ متعدد جگہ پر کشت و خون بھی ہوا۔ ان گنت لوگوں نے اشرافیہ کے خلاف جدوجہد میں جانیں قربان کیں۔ تب قانون، جمہوریت اور اصولوں کی فتح ہوئی۔ American Declaration of indepedenceمیں 1776میں لکھ کر تسلیم کروا لیا گیا تھا۔ کہ "تمام انسان برابر ہیں اور ان کے حقوق برابر ہیں اور عام انسانوں کی زندگی، آزادی اور خوش رہنے کا حق آفاقی ہے"۔ صرف برطانیہ اور امریکا کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ فرانس میں بھی 1789 میں انقلاب آ چکا تھا۔ جس کے نتیجہ میں عام انسان کی آزادی، برابری اور اظہار رائے کے اصول کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ مگر ان معاملات سے بالکل متضاد مسلمان دنیا، کسی قسم کی ذہنی اور فکری آزادی کی قائل نہیں تھی۔ بادشاہت اور اسی طرح کے فرسودہ طور طریقوں سے مزین قواعد سے ریاست کے معاملات طے کیے جاتے تھے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد، جو جغرافیہ تبدیلی آئی۔ اس سے کئی نئی مملکتیں تو پیدا ہوگئیں۔ مگر وہاں جمہوریت کی بیل نہ چڑھ پائی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، Nation states کا کلیہ پوری طاقت سے دنیا پر لاگو ہوگیا اور ہمارے جیسے خطے جہاں انسانی حقوق یا برابر ی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ایک جمہوری مسلک سے وابستہ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ آپ برصغیر کی قیادت کو غور سے پڑھیے۔ قائداعظم، گاندھی، نہرو، لیاقت علی خان اور دیگر سیاست دان، مغرب کی بہترین درس گاہوں کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ تمام مغرب کے" فلسفہ جمہوریت"سے متاثر تھے۔
یہ تمام قائدین، انگریزوں سے آزادی، ووٹ کی بنیاد پر لینا چاہتے تھے اور یہی ہوا۔ برطانیہ، سپر پاور کی حیثیت سے کمزور ہوگیا اور اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ الیکشن، آزادی اظہار اور ووٹ کے ذریعے برصغیر میں وہ تبدیلی لائی جائے جس کی بنیاد یہاں کے معاشرے میں موجود نہیں تھی۔ ہندوستان اور پاکستان جیسے تیسے معرض وجود میں تو آ گئے۔ مگر ان ملکوں کے خمیر میں مساوات کا تصور قدرے کم تھا۔ نہرو اور گاندھی اس مرض کو بروقت پہچان چکے تھے۔ خصوصاً جواہر لال نہرو نے ایک نئے انڈیا کی بنیاد رکھی جس میں Institution Building پر حد درجہ زور دیا تھا۔ نہرو کو معلوم تھا کہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس پر حکومت کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے آئین کی بنیاد میں Secularism شامل نہ ہو۔ بہر حال، یہ ہندوستان کی خوش قسمتی تھی کہ نہرو کو ادارے بنانے کے لیے سترہ سال مل گئے۔
انڈیا میں صنعت کی ترویج اور معیاری تعلیمی ادارے، اسی دور سے شروع ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نہرو نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے ریاستی اداروں کو حد درجہ محدود کر ڈالا۔ اس طرح حق حکمرانی، صرف اور صرف سیاست دانوں اور عوام تک چلا گیا۔ مگر 1947 کے بعد، ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کی صحت نے اجازت نہیں دی کہ زیادہ عرصہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ یہ بھی ایک تلخ سچ ہے کہ ان کی 13اگست کی تقریر کو پاکستان کے مذہبی اور مقتدر حلقوں میں قطعاً پذیرائی نہیں مل سکی۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ ریڈیو پاکستان نے قائد کی اس تقریر کو بھی سنسر کر ڈالا اور اس کا اصل مسودہ، دہلی ریڈیو سے منگوانا پڑا۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ہندوستان سے آئے ہوئے چند قومی سیاست دانوں نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو نئے ملک میں کمزور پایا اور وہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کی بدولت، اس وقت کے عسکری سربراہان کے مرہون منت ہو گئے۔ یعنی، بنیادی طور پر، ہم نے عوام کے حکومت کرنے کے حق کو کبھی عملی اصول کا درجہ دیا ہی نہیں۔ ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ جنھوں نے حق حکمرانی کو محدود تر کر دیا۔
پھر یہی روش، ہمارے قومی سیاست دانوں میں بھی عود کر آئی۔ ہماری سیاسی نرسری میں قد کاٹھ والے سیاست دان پیدا ہی نہیں ہو سکے۔ سب نے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کو ترجیح دی۔ یہ سلسلہ آج بھی پوری تابناکی سے جاری ہے۔ تخت نشین لوگ، دراصل عوام کی رائے کے متضاد، اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں لوگوں میں آگاہی اور شعور کی بلند سطح بھی اس روش کو ختم نہیں کر سکی۔ یہ کھیل، ہمارے ملک میں آج کی تاریخ میں بھی پوری عیاری سے جاری و ساری ہے اور اس میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ عوام کو کبھی بھی اقتدار منتقل نہیں ہوگا!