ناہیدکاتعلق سرگودھاسے تھا۔ انتہائی لائق لڑکی۔ 1978 میں سرگودھا بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ بھلے زمانے کاسرگودھا بورڈ پاکستان کا بڑا، وسیع اور معیاری سرکاری ادارہ تھا۔ اندازہ لگائیے کہ آج کافیصل آباد بورڈ، گجرانوالہ بورڈاورراولپنڈی بورڈتمام اس کاحصہ تھے۔ ناہیدنے پری میڈیکل ایف ایس سی کی تھی۔
اس دورکے سب سے معتبرمیڈیکل کالج یعنی کنگ ایڈورڈکالج لاہور میں باآسانی داخلہ ہوگیا۔ گرلزہوسٹل میں کمرہ بھی اَلاٹ ہوگیا۔ ناہید میری کلاس فیلوتھی۔ مگراس سے کبھی بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ ہروقت پڑھائی میں مشغول نظرآتی۔ گرلز ہوسٹل، پٹیالہ بلاک جانے والی سڑک کے درمیان میں تھا۔ کونے پر ڈاکٹربھیک کابہت بڑاگھرتھا۔ ڈاکٹربھیک کے نام کی پلیٹ گھرکے باہرلگی ہوئی تھی۔ اداکارشاہد بھی وہیں رہتا تھا۔ ڈاکٹرصاحب، شائداس کے تایاتھے۔ بہرحال یہ ان کاآبائی گھرتھا۔ جب بھی سڑک سے گزرہوتاتھاتوسارے اسٹوڈنٹ غورسے "بھیک ہاؤس"کے مین گیٹ کودیکھتے تھے کہ شائد اداکارشاہدنظرآجائے۔ میڈیکل کالج میں پورے پانچ برس گزرگئے مگراداکارشاہدکبھی نظرنہیں آیا۔ جیسے جیسے انسان بڑاہوتاہے۔
اس کی ترجیحات بھی یکسربدل جاتی ہیں۔ آج کوئی یہ کہے کہ فلاں معروف آدمی یاخاتون سے ملناچاہتے ہوتو یقین فرمائیے، کسی قسم کی کوئی خواہش دل میں موجودنہیں ہے۔ بہرحال گرلزہوسٹل تھوڑی سی چڑھائی چڑھ کربہت بڑی عمارت تھی۔ شروع میںوارڈن کاگھرتھا۔ وارڈن، ہمیشہ کالج کی دبنگ ترین خاتون پروفیسر کولگایا جاتا تھا۔ ویسے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے تقریباًتمام مرداو ر خواتین پروفیسر نسبتاً سخت طبیعت کے تھے۔ مگرمریضوں کے ساتھ انکارویہ بہت نرم ہوتا تھا۔ ہمارے لیے کافی سختی ہوتی تھی۔
1979 میں ہمیں کالج میں آئے چارماہ گزرے تھے۔ اَناٹومی مضمون کاایک امتحان تھا۔ اسے اسٹیج کہا جاتا ہے۔ انسانی جسم کومختلف حصوں میں تقسیم کرکے طلباء اور طالبات میں پڑھنے کے لیے مختص کیاجاتاتھا۔ دوسال میں اس طرح کے چارامتحان ہوتے تھے۔ اسٹیج سے پہلے، سب اسٹیج کا مرحلہ ہوتا تھا۔ جو تقریباًہرماہ منعقدکی جاتی تھی۔ اسٹیج اورسب اسٹیج کاباقاعدہ رزلٹ آتاتھااور نوٹس بورڈپر لگادیا جاتا تھا۔ پہلی اسٹیج کاامتحان ہوا۔ اکثریت اس میں کامیاب ہوگئی۔ ناہیدنے بھی امتحان دیا۔ وہ بھی آرام سے کامیاب ہوگئی۔ مگراسٹیج میں اس کے نمبرپہلے دس بارہ لوگوں میں نہیں تھے۔ یعنی اگریہ دیکھاجائے کہ اس نے سب سے زیادہ نمبرلیے ہیں تو بات بالکل غلط ہوگی۔ ہاں، ایک اوربات۔ دوسال بعدکے امتحان جسے"فرسٹ پروفیشنل" کہاجاتاہے۔
اس سے اسٹیج کے نتائج کاکوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یعنی یہ تمام نظام طلباء کو ہر وقت محنت کی عادت ڈالنے کے لیے ہوتاہے۔ یہ روٹین سی ہے۔ آج کیاحالات ہیں ہرگزنہیں جانتا۔ کیونکہ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوئے پنتیس برس ہوچکے ہیں۔ ایک دن شام کو چاربجے کے قریب ہم پانچ چھ طالبعلم کنٹین میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ اچانک ہوسٹل کا چوکیدار ہانپتا کانپتاہماری طرف آیا۔ اس کی سانس بہت پھولی ہوئی تھی۔ کہنے لگاکہ فرسٹ ایئرکی ایک لڑکی نے گرلزہوسٹل میں خودکشی کرلی ہے۔ فرسٹ ایئرکالفظ سنکرہم سارے چونک گئے۔ کیونکہ ہم سارے اسی کلاس میں تھے۔
تمام اُٹھے اورگرلزہوسٹل چلے گئے۔ وہاں کہرام مچاہواتھا۔ وارڈن اوربہت سی لڑکیاں ہوسٹل کی چھت پرکھڑی ہوئی تھیں۔ کچھ لڑکیاں زارو قطار رورہی تھیں۔ چھت سے تھوڑاسانیچے ایک پرچھتی سی تھی۔ آٹھ دس فٹ کی کالے سیمنٹ کی سلیب۔ اس طرح کی پرچھتیاں چھت کے ہرطرف موجودتھیں۔ آج بھی پرانی عمارتوں میں نظرآتی ہیں۔ چھت سے جب سلیب کی طرف دیکھا تو ایک لاش نظرآئی۔ پورے جسم پرسفیدرنگ کے لاکھوں کیڑے رینگ رہے تھے۔ بال، چہرہ، بازو، پاؤں پرصرف زندہ کیڑے موجودتھے۔ خیربڑی مشکل سے چوکیدارنے ساتھ ملکرلاش کوچھت پرلے کرآئے۔ یہ نعش ناہیدکی تھی۔ ڈیڈباڈی کو ایمبولنس میں منتقل کیا۔ گاڑی پوسٹ مارٹم کے لیے چلی گئی۔ بقیہ کلاس فیلوزکوپتہ چلاتوکافی لوگ پوسٹ مارٹم روم کے باہرکھڑے ہوگئے۔ یہ بھی کالج کاشعبہ تھا۔ بہرحال دوتین گھنٹے بعد، ناہیدکے لواحقین آئے اوراپنی سترہ اٹھارہ سال کی بچی کی لاش سرگودھاواپس لے گئے۔
ہرایک کے ذہن میں سوال تھا کہ بالاخرناہیدنے ایساکیوں کیا۔ چنددنوں بعد، اس کی روم میٹس نے بتایاکہ ناہید، اپنے مقامی کالج میں ہمیشہ فرسٹ آتی رہی تھی۔ جب پہلی اسٹیج میں اول نمبرپرنہ آپائی تو ڈپریس ہوگئی۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تعلیمی میدان میں کوئی اس سے آگے نکل سکتاہے۔ خاموشی سے ہوسٹل کی چھت پر جاکر نیندکی گولیاں کھائیں اوراپنی زندگی کوختم کرلیا۔ کسی کوبھی پتہ نہ چلاکہ کیاہواہے۔ سہیلیاں سمجھیں کہ وہ اپنے گھرگئی ہوئی ہے۔ جب چھت سے بدبوآنے لگی توچوکیدارنے جاکر دیکھا تو وہاں ناہیدکی لاش پڑی تھی۔ اس نے تعلیمی میدان میں پہلے نمبر پرنہ آنے کواپنی شکست سمجھااورسانس کی ڈورہی توڑ دی۔ خودساختہ ذہنی دباؤکے سامنے مکمل ہتھیارڈال دیے۔ آج کسی کوبھی یہ واقعہ یادنہیں ہے۔
گہرائی سے تجزیہ کریں توہمارے معاشرے میں خودکشی بالکل عام سی چیزہے۔ مگرکوئی اس پربات نہیں کرتا۔ کوئی اس پر تحقیق کرکے لکھتانھیں۔ لواحقین بھی گمنام خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایساکیوں ہے۔ صرف اسلیے کہ ہم اپنے سسٹم کے مشکل حصوں پرپردہ ڈال دیتے ہیں۔ اس کی موجودگی ہی کی نفی کردیتے ہیں۔ مگرسچ موجودرہتاہے اورہمیشہ قائم رہیگا۔ کیا آپکواندازہ ہے کہ پاکستان میں ہرروزکتنے لوگ اپنی جان خود ختم کرلیتے ہیں۔ جواب توقع سے بہت زیادہ تلخ ہے۔ اس ملک میں روزانہ یعنی چوبیس گھنٹوں میں پندرہ سے پنتیس لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ حساب کیاجائے توہرگھنٹے، یاساٹھ منٹ یاتین سوساٹھ سیکنڈوں میں ایک انسان اپنی جان خودلے لیتاہے۔ ہمارے ہاں، خودکشی کو اکثر چھپالیا جاتاہے۔
لواحقین شرم محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں کوبتائیں کہ ان کے کسی عزیزنے خودکشی کی ہے۔ لہٰذایہ تعداددگنی بلکہ تگنی بھی ہوسکتی ہے۔ ڈبلیوایچ اونے2012 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد سالانہ تیرہ ہزارتھی۔ یعنی ایک لاکھ کے حساب سے 7.5اعشاریہ۔ 2016میں یہ تعدادپانچ ہزارپانچ سو بتائی گئی ہے۔ یعنی تقریباًتین فیصد۔ مگرماہرین کاخیال ہے کہ اصل تعدادکاکسی کوبھی علم نہیں ہے۔ حتمی اعدادوشمار موجود ہی نہیں ہیں۔ ویسے ہمارے جیسے معاشروں میں کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہے۔ ہم منافقت اورمبالغہ آرائی کے ملغوبہ میں شرابورلوگ ہیں۔
یہاں نہ کوئی سچ بولتاہے اورنہ کوئی سچ سننے کاحوصلہ رکھتاہے۔ بنیادی طورپرہم زندگی کے ہرشعبے میں جھوٹ کے سہارے زندہ ہیں۔ یہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم زندہ ہی جھوٹ پرہیں۔ لہذایہاں خودکشی کرنے والوں کی اصل تعدادتلاش کرناناممکن ہے۔ ویسے یہ بھی عرض کرونگا کہ نظرآنے والے اورسانس لینے والوں کی تعداد کااندازہ کرنابھی ناممکن ہے۔
2018 کی ایک تحقیق کے مطابق38فیصدلوگوں نے کہاکہ وہ کسی نہ کسی ایسے انسان کوجانتے ہیں جس نے اپنی زندگی خودختم کی ہے۔ یہ تحقیق پانچ ہزارلوگوں کے گروہ پر مشتمل تھی۔ 45فیصدلوگوں نے برملااعتراف کیاکہ انھوں نے خودکشی کرنے کاسوچامگرحتمی عمل نہیں کیا۔ نوفیصدنے کہا کہ انھوں نے زندگی میں خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے۔
اٹھارہ برس سے لے کرچالیس سال کے افراد، خودکشی کرنے والوں کابہترفیصدنکلے۔ پنتالیس فیصدلوگوں نے اعتراف کیاکہ ان سے کئی بار، کسی نہ کسی دوست نے ضرورکہاکہ وہ مرناچاہتاہے۔ اس تحقیق کے مطابق پاکستان میں خودکشی کرنے کی سات بڑی وجوہات ہیں۔ ذہنی دباؤ، مالیاتی مسائل، لوگوں کی طرف سے ذلت آمیزسلوک، ناانصافی، کسی عزیزکاجداہوجانا، باہمی تعلقات میں تناؤاورخانگی زندگی میں کھچاؤ۔ اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں یہ سات مشکلات خودکشی کرنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ مرنے والوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کی کوئی مددنہیں کرسکے گا۔ ان کاکوئی مددگارنہیں ہے۔ پھرایک بہت بڑی سماجی وجہ کہ میری ناکامی پرلوگ کیا کہیں گے۔
انھی اعدادوشمارسے یہ بھی ظاہرہواکہ ذہنی تناؤ کی کیفیت میں اکثریت نفسیاتی معالج کے پاس جانے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن سولہ فیصد لوگوں نے بالکل مختلف بات کی کہ خود کشی کرنے کے لیے بہت ہمت چاہیے اوریہ صرف بہادرلوگوں کاکام ہے۔
اس معاشرے میں اس موضوع پرکبھی کھل کربات ہی نہیںہوتی۔ ہم گھنٹوں، ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں، سیاستدانوں پرمکالمہ کرتے رہتے ہیں۔ کرپشن پرلامحدود بحث کرتے ہیں۔ کشمیربنے گاپاکستان پراپناتن، من، دھن لگانے کے لیے لفاظی کی حدتک بے قراردکھائی دیتے ہیں۔ ہرحکومت پر بے رحم تنقیدکرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جوہردم مباحثوں میں مصروف رہتی ہے۔ پڑھے لکھے اوراَن پڑھ، دونوں کے رویوں میں ناکارہ مکالموں کے حوالوں سے کوئی فرق نہیں۔ اپنے معاشرے کے کمزور پہلوؤں پرکوئی بات ہی نہیں کرتے۔ یہ بھی نہیں سوچتے، کہ ہمارے ہمدردی کے چندبول، مناسب وقت پرایک انسانی جان کوبچاسکتے ہیں۔ ہم اپنے کسی جاننے والے یادوست کا حوصلہ بڑھاکر اسے واپس زندگی کے دھارے میں لاسکتے ہیں۔ مگرنہیں، ہم یہ قطعاًنہیں کرینگے۔ ہم میں سے کوئی بھی تسلیم کرنے کی جرات نہیں رکھتا کہ اس ملک میں ساٹھ منٹ یا ہرتین سوساٹھ سیکنڈمیں ایک انسان خودکشی کرلیتاہے!