ہردوار، دہلی سے صرف ڈیڑھ سو میل دور ہے۔ سترہ دسمبر2021 سے لے کر انیس دسمبرتک ہردوار میں ایک ہندو کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اسٹیج پر موجود تمام مقررین نے ہندو مت میں مقدس رنگ یعنی گہرے ہلدی والے رنگ کے کپڑ ے پہن رکھے تھے۔ جو ایک کھلے تہبند اور اس کے اوپر ایک چادر پر مشتمل تھے۔
دراصل یہ ہندو جوگیوں اور مذہبی شدت پسندوں کا لباس ہے۔ زعفرانی رنگ کوئی مسئلہ ہے نہ ہی یہ لباس۔ اصل مسئلہ تقاریر اور وہ سوچ تھی جس کا اظہار وہاں کیا گیا۔ اگر یہ صرف ہندو مذہبی لوگوں کا اجتماع ہوتا تو کچھ مختلف طرز پر سوچا جا سکتا تھا۔ مگر اس میں بی جے پی کے سرکردہ قائدین کثیر تعداد میں موجود تھے۔
احتیاط سے کام لے کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ کانفرنس، بی جے پی کی چھتر چھایہ میں ہو رہی تھی اور اسے وزیراعظم نریندر مودی کی بھرپور حمایت اور معاونت حاصل تھی۔ غور فرمائیے کہ وہاں کیا اعلانات ہوئے اور کس طرح کی باتیں کی گئیں۔
کانفرنس کا انعقاد کرنے والے شخص، یاتی نرسنگھا نند نے ہاتھ میں تلوار لہرا کر کہا۔"مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کافی نہیں ہے۔ ہندو گروہوں کو اپنے آپ کو بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تلواریں صرف اور صرف اسٹیج پر ہی اچھی لگتی ہیں۔ مگر مسلمانوں کے خلاف جنگ ہم صرف اس وقت جیت پائیں گے جب ہم بہترین ہتھیاروں کے مالک ہوں گے"۔ یہ اس شخص کی تقریرکا زیر زبر تبدیل کیے بغیر جوہری ترجمہ ہے۔ ہندو مہاسبا کے جنرل سیکریٹری، سدوی انا پرنا نے تقریر کرتے ہوئے کہا، "ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ مسلمانوں کو قتل کیے بغیر اس فتنہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
حکم دیتا ہوں کہ قتل کرنے کے لیے اور اس کے بعد جیل جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اگر صرف ایک سو ہندو فیصلہ کر لیں تو وہ بیس لاکھ مسلمانوں کو مار سکتے ہیں "۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ سوامی پربھا ترگری، جو ہندو رکشا سینا کا مرکزی قائد ہے، نے تقریر میں کہا "میا میر (برما) کی طرح، پولیس، فوج اور ہر ہندو کو مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانے پڑیں گے۔
یہ صفائی (صفائی ابھی پان) بہت ضروری ہے۔ ہندوستان صرف اور صرف ہندوؤں کا ہے۔ مسلمانوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں "۔ یہ کسی معمولی انسان کے الفاظ نہیں۔ یہ شخص حد درجہ متعصب وزیراعلیٰ بوگی ادتیا ناتھ کا بہترین دوست بلکہ اس کی آنکھ کا تارہ ہے۔ اسے بی جے پی کی مکمل سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ آپ اس بدبخت کے خیالات تو سنیئے۔"ہر ہندو خاندان کو کم از کم آٹھ بچے پیدا کرنے چاہیں۔ صرف اس طرح ہم ہندووتا اور اپنے معاشرے میں برتری قائم رکھ سکتے ہیں "۔
اس کانفرنس میں، ایک ٹی وی چینل کے مالک، سریش چونیکے نے کہا، " اپنی آخری سانس تک ایک وعدہ کرنا چاہیے۔ ہم ہندوستان کو صرف اور صرف ہندو ریاست بنا کر دم لیں گے۔ اس عظیم مقصد کے لیے ہمیں مرنا پڑے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں، اس کے لیے مسلمانوں کو قتل کرنا از حد لازمی ہے"۔ سوامی ساگر سندہواگر نے کہا "ہمیں اپنے دیہات، قصبوں اور شہروں میں مسلمانوں کی تمام جائیداد خرید لینی چاہیے تاکہ ہماری رہنے کی جگہیں پاک ہو جائیں "۔ پھر سوامی نے دعویٰ کیا کہ میں نے دس مسلمانوں کو جھوٹے مقامات میں پھنسوایا ہے۔ آپ تمام لوگو ں کو بھی یہی کرنا چاہیے۔
تقریب میں شریک ایک مقرر، دھرماداس مہاراج نے کہا، "جب وزیراعظم منموہن سنگھ پارلیمنٹ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اقلیتوں کا ہندوستان کے وسائل پر اولین حق ہے تو مجھے نتھو رام گوڈسے کی طرح پستول لے کر وزیراعظم کے سینے میں چھ گولیاں اتار دینی چاہیں تھیں "۔ یاد رہے کہ نتھو رام گوڈسے وہ شخص تھا جس نے گاندھی کو قتل کیا تھا۔ بہت کچھ مزید بھی لکھ سکتا ہوں۔ مگر دل نہیں چاہتا۔ اتنی نفرت انگیز تقاریر کو ضبط تحریر کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ یقین فرمائیے کہ اتنا تعصب دیکھ کر افسوس نہیں بلکہ دکھ ہوتا ہے۔
جس طرح کی کانفرنس ہردوار میں منعقد ہوئی۔ اب تمام ہندوستان میں مہاسبا اور بی جے پی کے زیر سایہ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت، سرکاری سرپرستی میں پھیلائی جا رہی ہے اور اس پر کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ملک میں مسلمان اس قدر کمزور ہیں کہ کھل کر احتجاج تک نہیں کر سکتے۔
بھارت میں بیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ یہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ مگر ان پر ترقی کے تمام دروازے سرکاری طور پر بند ہیں۔ آپ کو کوئی مسلمان کسی بہتر سرکاری پوزیشن پر نہیں ملے گا۔ اگر ہے بھی کوئی اکا دکا تو وہ شدید دباؤ میں رہ رہا ہے۔ اکثر مسلمان اب اپنا اسلامی نام نہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ ہندو طرز کے نام رکھنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ شدید خوف کے مرہون منت ہے۔ ذرا دیکھیے کہ بابری مسجد سے لے کر گجرات تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ بابری مسجد میں یہ تعداد تقریباً تین ہزار تھی۔ اورگجرات میں مسلم کش واقعات میں دو سے ڈھائی ہزار بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 2013میں مظفر نگر میں پینتالیس مسلمان مار دیے گئے۔ پچاس ہزار خاندانوں کو نقل مکانی کر کے کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں سے اکثریت اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکی۔ دو ہزار بیس میں نریندر مودی نے حد درجہ متعصبانہ قانون پاس کیا جس سے لاکھوں مسلمان کو شہریت سے ہی محروم کر دیا گیا۔
انھیں وسیع کیمپوں میں بھیجا گیا۔ جہاں وہ جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ جب یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور دہلی میں مظاہرے شروع ہوئے تو دہلی پولیس نے کم از کم پچاس مسلمان گولیوں سے بھون ڈالے۔ حد تو یہ ہے کہ انڈین سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ مسلمان پورے ہندوستان میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان پر ہر جگہ حملے ہو سکتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے اب یہ سب کچھ نارمل سمجھا جاتا ہے۔
وہ واقعات عرض کر رہا ہوں جن میں مسلمان کثیر تعداد میں شہید کیے گئے۔ ورنہ اب ہمسایہ ملک میں مسلمانوں کو روزانہ کی بنیاد پر قتل کرنا اور زدو کوب کرنا عام سی بات ہو گئی ہے۔ یوپی کا وزیراعلیٰ سوامی ادتھیا ناتھ نے تو قانون پاس کر دیا ہے کہ مسلمان کسی ہندو لڑکی کو مسلمان کر کے شادی نہیں کر سکتا۔ مسلمان اگر ایسا کرے گا تو اسے "لو جہاد" سمجھا جائے گا۔ جو قانون کے مطابق جرم ہے۔
آپ خود بتایے کہ کیا ہندوستان میں مسلمان ہونے کو جرم نہیں بنا دیا گیا۔ مذہبی، نسلی اور علاقائی تعصب سے از حد دور ہوں بلکہ اس طرح کے تعصب کو زہر قاتل سمجھتا ہوں۔ مگر رہنمائی فرمائیے کہ کیا ہر دوار میں مسلمان کش کانفرنس کی کسی مہذب معاشرے میں اجازت دی جا سکتی ہے۔ کیا کسی بھی حکومت کو زیب دیتا ہے کہ وہ بیس کروڑ مسلمانوں کو قتل کرنے کے اعلانات کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہے۔ متعصب تقاریر کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی ایکشن نہ ہو۔ کوئی مقرر گرفتار نہ ہو۔ مگر اب ایک نکتہ یاد رکھیے۔ ہندوستان پر ایک حد درجہ متعصب اور ادنیٰ انسان کی حکومت ہے۔ جو مسلمان کے مرنے کو سڑک پر مرے ہوئے جانور سے تشبیہہ دیتا ہے۔
نریندر مودی کی گورنمنٹ صرف اور صرف نفرت پر کھڑی ہے۔ اوریہ نفرت صرف اور صرف مسلمانوں پر مرکوز ہے۔ جو بھی گزارشات کر رہا ہوں اس کے حوالے موجود ہیں۔ نیویارک ٹائمز سے شروع ہو کر کوئی بھی معتبر جریدہ اٹھا لیجیے آپ کو نریندر مودی کا برہنہ جانور نما چہرہ صاف نظر آئے گا۔ جس کے دانتوں اور ہونٹوں سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے۔ اس چہرے کو پہچانیے۔ کیا کوئی بھی پاکستانی اب یہ نہیں سمجھ سکتا ہے کہ نریندر مودی کے اصل عزائم کیا ہیں۔ وہ چاہتا کیا ہے۔ بی جے پی نے آج تک تقسیم ہند کو تسلیم نہیں کیا۔ خیر ایک ایٹمی ملک کو ختم کرنے والا احمقوں کی جنت میں رہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا ملک قائم و دائم رہے گا۔
ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بی جے پی، پاکستان کے کس ادارے کے خلاف پاگل پن اور جنون میں مبتلا ہے۔ کون سا ادارہ اس کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ وہ صرف اور صرف ہمارا عسکری طاقتور ادارہ یعنی فوج ہے اور یہی زبان پاکستان کے کچھ سیاسی رہنما اور بڑے دانشور بول رہے ہیں۔ قومی سطح کے ایک سیاست دان تو یہاں تک فرما چکے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بارڈر، صرف اور صرف ایک لکیر ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ذاتی طور پر فوج کے کسی بھی سیاسی رول کے خلاف ہوں۔
مگر کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر ہماری عسکری طاقت ذرا سی بھی کمزور ہوئی۔ تو یہ ہمسایہ بھیڑیا ہمارے ساتھ کیا سلوک کر سکتا ہے۔ پھر ہمارے لبرل دانشور بھی عسکری اداروں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ تھوڑا سا موقعہ ملے تو ریاستی اداروں کو دبے لفظوں میں طعنہ زنی کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک طاقتور ملک چاہیے یا برما، نیپال کی طرح کا ایک کمزور حلیف۔ نہیں صاحب۔ ایک توانا اور ترقی کرتا ہوا پاکستان ہی ہمارا سب کچھ ہے۔ مگر اب بھارت کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد ملک قرار دے دینا چاہیے۔