اقتدارکاکھیل دنیاکاسب سے سفاک کھیل ہے۔ اس میں کوئی اُصول اورکسی قسم کی کوئی مخصوص حکمتِ عملی شاملِ کارنہیں ہے۔ مقصدصرف ایک، کہ مسندِشاہی پر قبضہ کیاجائے۔ بادشاہ بناجائے، شہنشاہِ معظم کہلایا جائے۔ اب یہ استعارے ظاہری طورپربدل چکے ہیں۔ ان کی جگہ صدر، وزیراعظم یاوزیراعلیٰ کاصیغہ استعمال ہوتاہے جوکہ سراسربے محل ہے۔
نکتہ اوراصل عمل وہی صدیوں پراناہی ہے جودربارمیں ہواکرتاتھااورجس کا مقصد تخت حاصل کرنا تھا۔ صدیوں سے نہیں، ہزاروں سال سے مسلسل جاری و ساری کھیل ہے۔ ہمارے خطے میں چونکہ حکومت سازی اورحاکم بننے کا کوئی اُصول اورضابطہ سیکڑوں برس سے ترتیب ہی نہیں ہوپایا۔ لہٰذااس خطے میں بالائی سطح پرحکومت حاصل کرنے کے لیے ہرجائز اور ناجائز حربہ استعمال کر نامناسب سمجھاجاتاہے۔ برصغیرکامسئلہ دراصل اقتصادی ہے ہی نہیں۔ یہ ایک اخلاقی مہیب مسئلہ ہے جس میں حکومت میں آنا ایک چھوٹاساحصہ ہے۔ ہم اخلاقی یاسماجی بگاڑکی انتہا میں سانس لینے پرمجبورہیں۔ قیامت ہے کہ یہ ہرآنے والے دن بد سے بدترہو چکا ہے۔
دنیاکے شمالی ملکوں پر نظر ڈالیے۔ آج یہ سب سے مہذب اورترقی یافتہ سماج ہیں۔ ڈنمارک، سویڈن، ناروے اورآئس لینڈ پوری دنیاکے لیے ہرطریقے سے بہترمثال ہیں۔ مگرکیایہ بہترین صورتحال ہمیشہ سے ایسی ہے۔ قطعاً نہیں۔ ہرگزنہیں۔ وائی کنگزکانام توآپ نے سناہوگا۔ مقامی لوگوں کا وہ ظالم ترین جھتہ تھاجوبحری جہازوں پرسوارہوکرنکلتے تھے۔ یورپ میں کسی بھی شہرپرآناًفاناًحملہ کرتے تھے۔ مال ودولت لوٹتے تھے۔
گھروں کوآگ لگادیتے تھے اورزیادہ تر افرادکوقتل کردیتے تھے۔ ابتدائی دورمیں یہ غلام اورلونڈیاں بھی نہیں بناتے تھے۔ اس لیے کہ یہ کسی کوزندہ رہنے کاحق ہی نہیں دیتے تھے۔ ان کی طاقت کااندازہ لگائیے کہ یورپ میں پیرس تک پہنچ چکے تھے۔ پورایورپ ان کی ٹھوکروں میں تھا۔
تباہی اوربربادی کانشان تھے۔ مگراندرونی طورپرہمیشہ کسی نہ کسی طرح اقتدارکی جنگ میں ملوث رہتے تھے۔ اگر ان کا سردار، قتل وغارت کے مشن پرجاتاتھاتونوے فیصدامکان ہوتاتھاکہ کوئی نہ کوئی مردیاعورت اس کی غیرموجودگی کافائدہ اُٹھا کرمسندِشاہی پرقبضہ کرنے کی کوشش کریگی۔ اس زمانے میں فیصلہ تلواریانیزہ کرتاتھا۔ جوطاقتورہوتاتھا۔
جسکے گروہ میں زیادہ جنگجوہوتے تھے۔ غالب آجاتاتھا۔ یعنی سیکڑوں برس پہلے بھی اقتدارکاکھیل بالکل ایسے ہی تھاجیسے آج ہے۔ صرف اصطلاحات اورطریقہ کارکوہمارے جیسے ملکوں میں معمولی سابہترکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاملات بالکل وہیں کے وہیں ہیں۔ کم ازکم ہمارے خطے میں توبالکل تبدیل نہیں ہوئے۔ اورہاں ایک عجیب سی بات۔ وائی کنگز دنیا کے لیے توسراپاظلم تھے۔ مگروہ اندرونی طورپرحددرجہ مذہبی لوگ تھے۔ اپنے دین کے حساب سے وہ لوگوں کی گردنیں کاٹتے ہوئے اپنے خداسے دعاضرورمانگتے تھے۔ انکادین کون سا تھا۔ اس پرکثیرتعدادمیں لٹریچرموجودہے۔
چلیے، وائی کنگزکے معمولات کوچھوڑیے۔ وسطیٰ یورپ کی حکومتوں کی تشکیل اورترتیب کاجائزہ لیجیے۔ آپ حیران ہوجائینگے کہ آج مہذب نظرآنے والے لوگ، حکومت اوردولت حاصل کرنے کے لیے کس منفی حدتک چلے جاتے تھے۔ ملکہ، دوسرے ملک کے بادشاہ کے ساتھ ملکر اپنے ہی بادشاہ خاوندکے خلاف سازش کررہی ہوتی تھی۔ دربارمیں شہنشاہ کے قریبی ترین ساتھی، اکثر اوقات حاکم کو ختم کرنے کے متعلق کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔
لندن کے قریب ایک ریاست نے توایک ادنیٰ نظارہ یہاں تک دیکھاکہ ایک مشیرِخاص نے شاہی محل کے نیچے خاص طرزکی سرنگیں بنوارکھی تھیں۔ ان میں جاکروہ شاہی خاندان کے ہرکمرے میں ایک سوراخ کے ذریعے ہرچیز پر نظر رکھتا تھا۔ بادشاہ اورملکہ کی ذاتی زندگی کے متعلق بھی جانتاتھا۔ کون ساشہزادہ کیاکررہاہے۔ کون سی شہزادی کیاسوچ رہی ہے۔ شاہی خاندان اندرونِ خانہ اپنے سرداروں اوردرباریوں کے متعلق کیابات کررہے ہیں۔
یہ مشیرِ خاص ہرذاتی اور حکومتی معاملے پر نظررکھتاتھا۔ شاہی خاندان کوہرگزپتہ نہیں تھاکہ جس شخص پر اتنااعتمادکرتے ہیں، وہ ان پرکڑی نظر رکھے ہواہے اوران کی جان اورتخت کے درپے ہے۔ اس چھوٹی سی مغربی ریاست میں بھی یہی کچھ ہوا۔ بادشاہ کو دربار میں اس وزیرکی موجودگی میں ایک باغی نے قتل کر دیا۔
وزیردربارکے باہرسے قفل لگاکربیٹھ گیاکہ جوبھی جیتے گا، اس کے ساتھ مل جائے گا۔ جیسے ہی باغی نے بادشاہ کوقتل کیا اور باہرآیا۔ پراناوزیر، نئے بادشاہ کامعتمدخاص بن گیا۔ پرانا شاہی خاندان بڑی سفاکی سے زندہ جلادیا گیا۔ مگر وزیر باتدبیراپنی جگہ پر موجود رہا اور پھرکھیل وہیں سے شروع ہوگیا، جہاں سے ہوناچاہیے تھا۔
اقتدارحاصل کرنے کے کھیل میں اسلامی دنیااور غیراسلامی دنیاکے بنیادی اُصولوں میں رَتی برابربھی فرق نہیں۔ یہ تلخ بات ہم میں سے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتاکہ مسندِشاہی کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہاں، اس پربیٹھنے والے کاکوئی نہ کوئی دین ہوسکتاہے۔ کرسچن دنیاکی قدیم حکومتوں پرنظرڈالیے۔ اس میں ایک خاص عنصر موجود تھا۔ وہ تھامذہبی پیشوا۔ یعنی پوپ یااسکامقامی نمایندہ۔ اس مذہبی طبقہ کی اکثریت انھی علتوں اورسازشوں میں مصروف رہتی تھی۔
جس میں انکاذاتی فائدہ ہو۔ شایدآپکے علم میں نہ ہو کہ مال و دولت کی کثرت کے لحاظ سے پوپ یااسکانمایندہ حددرجہ امیرہوتے تھے۔ کئی بارتوبادشاہ سے بھی کئی گنا زیادہ۔ تخت کے کھیل میں یہ اہم ترین فریق ہواکرتے تھے۔ پوپ تو باقاعدہ تاج پہنتاتھااوراس کے پاس ایک بہت بڑی فوج بھی ہواکرتی تھی۔
اس کی ایک آواز پر ہزاروں لوگ لڑنے مرنے کے لیے تیارہوجاتے تھے۔ مگرتکلیف دہ بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ صرف ایک دکھاوا تھا۔ نہ لوگوں کی زندگی بہترکرنے کا کوئی سنجیدہ مقصد تھا اور نہ ہی رعایاکی خدمت کرنے کاکوئی خواب تھا۔ اصل نکتہ اقتداراوردولت کوحاصل کرکے اسے ہمیشہ کے لیے اپنی گرفت میں رکھناتھا۔ جوشخص بھی بادشاہ کے خلاف تھا، وہ واجب القتل تھا۔ اس کے خاندان تک کو ذبح کردیا جاتا تھا۔ یعنی حاکم اپنے خلاف کسی قسم کی ہلکی سی بغاوت بھی تسلیم نہیں کرتاتھا۔
مسلم دنیاکے بھی بعینہ یہی حالات رہے۔ سلجوق بادشاہوں کے عہدپرنظرڈالیے۔ درباری سازشیں بالکل عام تھیں۔ شاہی خاندان کے اندربادشاہ کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش پیہم جاری رہتی تھی۔ ایک سلجوق بادشاہ کوتودوباراس کی اہلیہ نے زہردیکرمارنے کی کوشش کی۔ خلیفہ یابادشاہ کانام شایدناصرالدین تھا۔ ایک مرتبہ تویہ واقعہ دوران سفر ہوا۔ جہاں اتفاق سے ابن العربی موجودتھے۔
انھوں نے بروقت علاج کرکے بادشاہ کی جان بچائی۔ مگردوسری بار، خلیفہ اپنے محل میں، اہلیہ کے دیے ہوئے زہرسے نہ بچ پایا۔ کھانا کھاتے ہی جان کنی کے عالم میں چلاگیا۔ التغزل جیسا بہادرسپہ سالاربھی موجودتھا۔ بادشاہ اس کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ ملکہ، دراصل بادشاہ کی دوسری بیوی تھی اوراپنی اولاد کو مسندپربٹھاناچاہتی تھی۔ التغزل جوکہ بنیادی طورپرترک تھا اورجس نے انتہائی بہادری سے منگولوں اورلادین لوگوں کا مقابلہ کیا۔ وہ بذاتِ خود، اقتدارکی جنگ میں کئی بارزہرسے بال بال بچا۔ ایک بارتوزہراس درجہ سرایت کرگیاکہ اس کے کائی قبیلے کی اکثریت یہ سمجھ بیٹھی کہ وہ مرچکاہے۔ اسی کا چھوٹا بیٹاعثمان، سلطنت عثمانیہ کی بنیادرکھنے میں کامیاب ہوا۔
جو مسلمانوں کی اس دنیامیں سب سے بڑی اوربے مثال حکومت تھی۔ سلطنت عثمانیہ میں بھی درباراوراقتدارکے وہی لچھن رہے جوپرانے تھے۔ وہی درباری سازشیں، وہی اولاد کے اندرتخت حاصل کرنے کی خون ریزہوس، وہی قتل وغارت اوروہی بے اُصولی۔ سلطنت عثمانیہ کابنیادی زوال انھیں اندرونی ریشہ دوانیوں کی بدولت ہوا۔
ہندوستان میں مسلمان اورہندوسلطنتوں اور راجاؤں کا بھی یہی حال تھا۔ بہادرشاہ ظفرانگریزکے وظیفہ خوار تھا۔ کسی قسم کے کوئی انتظامی اختیارات بھی حاصل نہیں تھے۔ صرف لال قلعہ تک محدودتھا۔ مگراس بے آسرانام کے بادشاہ کی جان نشینی کابھی حددرجہ مسئلہ تھا۔ قیامت تویہ تھی کہ مختلف بیگمات اپنی اپنی اولادکوتخت پربٹھانے کے لیے ہرسازش کر رہی تھیں۔
انگریزوں تک سے خفیہ میل ملاپ جاری تھا۔ بہادر شاہ ظفرکی عزیزترین بیوی، ہرصورت میں اپنے بیٹے کواس کی جگہ لاناچاہتی تھی اور اس کے لیے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران سے رابطے میں تھی۔ برصغیرکی ہرمقامی ریاست، ایک ہی طرح کے عذاب میں مبتلاتھی کہ مستقبل کاحاکم کون ہوگا۔ اس عذاب نے سلطنتیں اُجاڑدیں۔ غیرملکی برصغیر پر قابض ہوگئے۔ مگریہاں کی سرشت میں ایک فیصدبھی تبدیلی نہیں آئی اورنہ آسکے گی۔ بنیادی وجہ صرف ایک ہے۔ صرف ایک۔ مغرب کے جوہری حالات کوصنعتی انقلاب نے یکسرتبدیل کیاہے۔ سائنس کی بے مثال ترقی نے ان کے مقامی رویے مکمل تبدیل کرڈالے ہیں۔ تحقیق نے ان پر زندگی کی نئی منزلیں آشکارہ کی ہیں۔
سوال کرنے کی اجازت نے ان کے معاشروں کوٹھوس بنیادوں پرکھڑاکردیاہے۔ وہی سے قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، رائے عامہ کا ووٹ کے ذریعے اظہار اورانسان دوستی نے جنم لیا ہے۔ یہ اقدار عملی طور پر صرف اس لیے وجودمیں آئیں کہ یورپ نے خوفناک قربانیاں دیکراُصولوں کی بنیاد پراپنے معاشروں کو نئے ڈھنگ سے ترتیب دیا ہے۔ ان کے ہاں بھی کئی مسائل ہیں۔ مگران کے نظام میں اتنی قوت ہے کہ وہ بڑے سے بڑے مسئلہ کوحل کرسکتے ہیں۔ جو ممالک جنگ کے نظریہ کوترک کرچکے ہیں، وہ کیاکچھ نہیں کرسکتے۔
اس کے برعکس، ہمارے جیسے ملکوں میں اقتدارکاہزاروں سال پراناسفاک کھیل نئے ناموں کے ساتھ جاری وساری ہے۔ کیونکہ ہم لوگ، یورپ کی طرح Renassaince صنعتی انقلاب اورسائنس کی دنیامیں داخل ہی نہیں ہوپائے۔ لہٰذاہمارے معاملات جوں کے توں رہیں گے۔ تلخ بات تو یہ ہے کہ معاملات مزیدبگڑیں گے۔ معاشرے میں طاقت کے حصول کے لیے بے اُصولی اورشدیدکشمکش ہرسطح پرپیہم برقرار رہیگی۔ حقیقت تویہ ہے کہ نہ پہلے ہماری کوئی سمت تھی اورنہ آج کوئی منزل ہے۔ یہاں ہراَمرقدیم ترین منفی روایات کے مطابق چلتارہے گا!