لائل پور کے ایک پرانے دوست کا دو ہفتے پہلے امریکا سے فون آیا۔ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے۔ ہر دم مصروف کار رہتا ہے۔
اسپتال میں ایمرجنسی سروسز میں کام کرنا حد درجہ صبر آزما اور کٹھن ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب ساٹھ برس سے اوپر کے ہو کر بھی ہر وقت کام میں جتے رہتے ہیں۔ حیرت انگیز سیرت کا حامل باریش انسان جو انسانیت کی خدمت کو سب سے افضل سمجھتا ہے۔
جب بھی بات ہوئی، تو اس کا دل پاکستان آنے کے لیے تڑپتا دکھائی دیا۔ لائل پور میں کافی بڑا گھر موجود ہے جو عرصہ دراز سے خالی پڑا ہوا ہے۔
ہمیشہ کہتا تھا کہ اس کے آبائی شہر میں اچھی طبی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ یہاں آ کر عام لوگوں کے لیے بہترین میڈیکل سہولتیں مہیا کرے گا۔ ہاں ایک اور بات۔ ایک گاڑی بھی خرید کرخالی گھر میں کھڑی کی ہوئی ہے کہ جب پاکستان واپس آیا تو فوراً کام شروع کروں گا۔ ساتھ ہی ساتھ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر بھی قابو پانے کے تمام وسائل یک جا کیئے ہوئے ہیں۔
بات بھی درست ہے۔ بہر حال کم از کم د و برس سے اپنے آبائی وطن آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پر آج سے ٹھیک دو ہفتے پہلے فون آیا کہ ایک انفارمیشن چاہیے۔ پاکستان سے قانونی طریقے کے مطابق ڈالر امریکا کیسے منتقل کیے جا سکتے ہیں۔
خود ہی کہنے لگا کہ معلوم ہوا ہے کہ سال میں بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان سے صرف ایک لاکھ ڈالر باہر منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ میری معلومات اس معاملہ میں صفر تھی۔ لہٰذا مکمل لا علمی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر کو کہاکہ کسی بینکر سے بات کروں گا، تاکہ پتہ چل سکے کہ کتنے ڈالر، پاکستان سے امریکا بھجوائے جا سکتے ہیں۔
میری دانست میں اس کا قانونی جواب ایک دو دنوں میں کسی معاشی ماہر سے دریافت کرکے ہی دیا جا سکتا ہے۔ مجھے ڈاکٹر کی ایک بات پلے نہیں پڑی۔ سوال کیا، کہ ڈاکٹر صاحب، آپ تو امریکا میں اپنی جائیداد فروخت کرکے، لائل پور میں مسکن بنانا چاہتے تھے۔
یہ الٹی گنگا کیسے بہنے لگی۔ آپ تو پاکستان میں اپنی جائیداد فروخت کرکے ملک سے باہر پیسہ لے جانے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ تو پہلے سے بالکل متضاد بات ہے۔ ڈاکٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے کہا کہ جس ملک میں انصاف صرف اور صرف امیر اور طاقتور انسانوں کے گھر کی باندی بن جائے۔ غریب بھر پور طریقے سے انصاف کے لیے دربدر ذلیل ہو رہا ہو۔
ہر طرف غنڈہ گردی، بدمعاشی اور ڈاکووں کا راج ہو۔ اس ملک میں، امریکا چھوڑ کر منتقل ہونا بے وقوفی ہی نہیں بلکہ اول درجہ کی حماقت ہے۔ ڈاکٹر کا واضح اشارہ ملک میں ڈیڑھ دو برس کے حددرجہ خطرناک حالات کی جانب تھا۔ خیر میں نے اپنی تئیں بارہا کہا کہ پاکستان کو اس طرح مت چھوڑیے۔ ملک کو اچھے ڈاکٹروں اور لائق پروفیشنلز کی ضرورت ہے۔ مگر جواب تھا کہ اس ملک کو کسی قسم کے لائق، دیانت دار اور راست انسان کی ضرورت نہیں۔ اس کے مطابق امریکا، ہمارے ملک کو امداد دے دے کر تنگ آ چکا ہے۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ، پاکستان کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتی۔ امریکی پینٹا گون کے حالیہ فیصلوں کے مطابق، اب اس ملک کو اپنے دو چار مقامی ایجنٹوں کے ذریعے چلایا جائے گا۔ وہی سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔
اور باقی پاکستانی بھاڑ میں جائیں، اب امریکا کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ بقول ڈاکٹر، ابھی ملک کے حالات مزید خراب ہونگے اور ملک مزید تنگی اور ترشی کا شکار ہوگا۔ ڈاکٹر، ایک حد درجہ باخبر انسان ہے اور امریکا میں اس کا اہم ترین لوگوں سے قریبی تعلق ہے۔
یہ بھی بتانے لگا کہ ریاستی بزرجمہروں نے پینٹاگون کو یقین دلایا ہے کہ آپ الیکشن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے متعلق بالکل فکر نہ کریں۔ یہ تمام معاملات اپنے طریقہ سے بخوبی سنبھال لیں گے۔ امریکا کو ہندوستان نے مکمل یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے پرکھے ہوئے مہرے اگر پاکستان میں صاحب اختیار ہونگے تو وہ کبھی ہندوستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔
یہ صورتحال امریکا ا ور بھارت دونوں کے لیے آئیڈیل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی معاملات ہندوستان کے لیے موافق بنائے جائیں گے۔
چنانچہ ہندوستانی قیادت، بارڈر کے متعلق بے فکر ہو کر، صرف اور صرف، معاشی ترقی کی طرف مزید مرکوز ہو جائے گی۔ بہر حال میں ذاتی حیثیت میں، اپنے ڈاکٹر دوست کو منانے میں ناکام رہا کہ پاکستان میں اپنے آبادئی اثاثے نہ فروخت کرے، اور نہ ہی اپنے وطن سے ہر طرح کا تعلق ختم کرے۔
فون بند کرنے سے پہلے ڈاکٹر نے یہ بھی کہا، کہ اس کے بچے، امریکا میں پاکستان کی نسبت بہتر طور پر زندگی گزار سکتے ہیں اور ہر طریقے سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
ایک حد درجہ محبِ وطن انسان کی اس طرح کی گفتگو نے کم از کم مجھے تو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دو ہفتوں سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر سے کیا بات کروں۔ کیسے کہوں کہ وہ غلط ہو سکتا ہے۔ نادم بھی ہوں کہ سچ کا سامنا کیسے کروں اور کیونکر لکھوں۔ ہاں، ایک اور بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کراچی میں ایک پرانے دوست کی کپڑے کی مل ہے۔
خوشحال انسان ہے۔ لاہور آیا تو کھانے پر ملاقات ہوئی۔ عجیب بات بتائی کہنے لگا کراچی کے حالات اس حد تک خراب ہیں کہ وہ مہنگی گاڑی پر سفر نہیں کرتا۔ پرانی اور چھوٹی سی کار استعمال کرتا ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اور غیر سرکاری ڈاکوؤں کی نظر سے محفوظ رہے۔ اپنا تمام سرمایہ بھی دوبئی بھجوا دیا ہے۔
اب اس کی مل، بینک کے قرض پر چل رہی ہے۔ یعنی اس کا اپنا سرمایہ، ملک میں موجود ہی نہیں ہے۔ اگر آج وہ پاکستان چھوڑ کر چلا جائے۔ تو اسے کسی قسم کا کوئی مالی نقصان نہیں ہوگا۔ صرف بینک کے پیسے ڈوب جائیں گے۔
بینک ڈوبے یا بچے، اس شخص کا کسی قسم کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا کہ اس کے تمام دوست، اپنی دولت محفوظ ٹھکانوں پر بھجوا چکے ہیں۔ اپنے عالیشان گھر بیچ کر کرایے کے مکانات میں رہ رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ پاکستان میں کسی بدنصیبی اور ذاتی نقصان سے محفوظ رہ سکے۔
جناب، یہ دومختلف بلکہ متضاد انسانوں کا عملی رویہ ہے۔ جو حیرت انگیز حد تک یکساں ہے۔ دونوں اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ انسان کی سرشت ہے کہ وہ اپنی ذات، خاندان اور دولت کو ہمیشہ محفوظ رکھنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کون سی ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ جو شخص بھی پاکستان سے ہجرت کی استطاعت رکھتا ہے وہ یہاں ایک لمحہ گزارنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ کسی بھی مغربی ملک میں چلے جائیں۔
ایئرپورٹ پر اترتے ہی، آپ کو فضا میں آسودگی محسوس ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی آنکھوں سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ عدالتیں بروقت اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرتی ہیں۔ سنگا پور کی مثال لیجیے۔ وہاں کئی سال گزر جاتے ہیں۔
مگر کوئی قتل نہیں ہوتا۔ ڈاکا نہیں پڑتا۔ سنگا پور کے پولیس اسٹیشن ویران پڑے ہیں۔ پولیس کے پاس لمبے عرصے تک کسی قسم کا کوئی شخص، شکایت لے کر آتا ہی نہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو گوگل سے تصدیق فرما لیجیے۔ بات صرف جرائم کے حد درجہ کم ہونے کی نہیں۔ آپ کا سرمایہ اور جان ہر طریقے سے محفوظ ہے۔ طبی سہولتیں، امریکی اسپتالوں کی سطح کے برابر کی ہیں۔
چور بازاری، زخیرہ اندازوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں اپنے دفاتر سنگا پور میں کھولتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے بھی فکر نہیں کرتیں۔ پوری دنیا میں ان کے شہریوں اور پاسپورٹ کی حد درجہ قدر و قیمت ہے۔ مگر اس کے برعکس جس وقت اپنے ملک کے مخدوش حالات کی طرف دیکھتا ہوں تو کلیجہ مونہہ کو آتا ہے۔
ریاستی جبر اور ناانصافی ہمارے سماج میں ہرجانب اتنی نظر آتی ہے کہ اس سے صرف پناہ مانگی جاسکتی ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ اب اس ظلم، جبر اور ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ شاید اسی لیے ہمارے ملک کا نام از حد روشن ہے؟