گریگری ایچ سٹینٹن(Gregory H. Stanton) بنیادی طورپرقانون دان ہے۔ پوری عمرامریکا کی بہترین یونیورسٹیوں میں قانون کی تعلیم دیتارہا۔ 1981میں اس کے ذہن میں انسانی حقوق اوران کی پامالی کے متعلق نایاب خیالات پیدا ہوئے۔ محسوس کیاکہ طاقتورقومیں کمزوراورمحکوم لوگوں پربے پناہ ظلم کرتی ہیں۔ مگرظلم کوماپنے کے لیے کوئی موثرپیمانہ موجودنہیں ہے۔
باہرکی دنیااور غیرمتعصب فریقین کومعلوم ہی نہیں ہونے دیتاکہ کمزور لوگوں پر کیاقیامت برپاکردی گئی ہے۔ گریگری نے ییل (Yale)یونیورسٹی میں کمبوڈیامیں انسانوں کے قتلِ عام کودنیاکے سامنے لانے کے لیے ایک پراجیکٹ شروع کیا۔ بنیادی طور پر یہ کھیمروج کے مظالم کوموثر طریقے سے دنیاکے سامنے لانے کاباعث بنا۔ گریگری، انسانی حقوق کی بحالی کے لیے دنیا کی سب سے مضبوط آوازبن گیا۔ وسیع عملی تجربات نے گریگری کوانسانیت کے بنیادی اُصولوں کے اَزحد نزدیک کردیا۔ 1999 میں اس نے Genocide Watchنام کی ایک تنظیم بنائی۔ جسکاکام دنیابھرمیں لوگوں کے ساتھ زیادتی اورظلم کو دلیل کی بنیاد پر سامنے لاناتھا۔ یہ تنظیم چوبیس ملکوں میں کام کررہی ہے۔ یہ بین الاقوامی حیثیت کی این جی اوہے۔
Genocide Watchنے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے مقبوضہ کشمیرکی موجودہ صورتحال کاتفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس کی ایما پرانسانی حقوق کاایک گروپ کشمیر گیا۔ سات اگست سے لے کرتیرہ اگست تک کشمیر کے تمام پُرآشوب علاقوں کادورہ کیا۔ ہر قسم کے لوگوں سے ملاقات کی۔ اسی گروپ میں کویتاکرشنن، جین ڈیرز نام کاماہراقتصادیات اور میمونا مولا شامل تھیں۔ ان لوگوں نے انتہائی غیرمتعصب طریقے سے کشمیرمیں ہندوستانی فوج کے ظلم وستم کاتفصیلی مطالعہ کیا۔ دہلی پریس کلب میں اس گروپ کی لیڈر کو یتاکرشنن کومقامی انتظامیہ نے مظالم کی ڈاکومنٹری دکھانے سے روک دیا۔ مگران کی پریس کانفرنس کو نہیں روک پائے۔
اس کے بقول پورے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کُشی کی سرکاری کوشش کی جارہی ہے۔ وادی کے مسلمانوں میں ہندوستانی حکومت کے خلاف اَزحدغصہ اورنفرت موجودہے۔ گروپ کی تحقیق نے ثابت کیاکہ مقامی مسلمانوں کواقتصادی طور پر ہندوتاجرکاغلام بنانے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے۔ پوری وادی میں حالیہ آئینی تبدیلی کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میمونہ نے کشمیرکے لیے "جیل"کے لفظ استعمال کیے جولمحوں میں پوری دنیامیں پھیل گیا۔ کویتاکرشنن نے پریس کانفرنس میں مودی حکومت کے اس بیان کوجھوٹ قراردیاکہ کشمیرمیں صورتحال نارمل کی طرف لوٹ رہی ہے۔
دھان پان کی اس بہادر ہندو خاتون نے ڈنکے کی چوٹ پردنیاکوبتایاکہ پوری وادی میں ذرایع ابلاغ، ٹیلیفون، موبائل فون اورہرطریقے کے رابطے کے طریقوں پرسرکاری پابندی ہے۔ چار ہزارنوجوان کشمیروں کوجیل کا سامنا ہے۔ ان پر تھرڈ ڈگری تشددکیا جاتا ہے۔ پوری جدوجہدمیں ستر ہزار کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ روزمرہ کی اقتصادی سرگرمیاں بھی تقریباًختم ہوچکی ہیں۔ چودہ اگست کوشایع ہونے والی اس رپورٹ اورپریس کانفرنس نے دنیاکوہلاکررکھ ڈالاہے۔ اس گروپ کے پیچھے Genocide Watch پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔ گروپ کی رپورٹ آنے کے بعد Genocide Watchنے اعلان کردیاہے کہ کشمیرمیں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ یہ ایک چارج شیٹ ہے جوکہ مودی سرکارکے خلاف شایع کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت کے پاس اسکاآج کی تاریخ تک کوئی جواب نہیں ہے۔
ڈاکٹرگریگری نے نسل کشی کے دس مرحلے ترتیب دیے ہیں۔ ہرمرحلے پرتحقیق کی روشنی میں ثبوت پیش کیے جاتے ہیں اوراس کے بعدفیصلہ کیاجاتاہے کہ انسانی حقوق کی صورتحال کیا ہے۔ پہلا مرحلہ Classification کا ہے۔ اس میں لوگ ہم اوروہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یعنی دو متحارب فریقین۔ اس کے مطابق ہندواورسکھ بھارتی فوج، مقامی مسلمانوں کے خلاف برسرِبیکار ہیں۔ پورا کشمیر دو طبقوں یا کلاسزمیں بٹ چکا ہے۔ دوسرا مرحلہ Symbolisation کاہے۔ اس کے مطابق کشمیری مقامی لوگ، اپنے مذہب، لباس اورعبادت گاہوں کی بدولت باقی تمام فریقین سے مختلف ہیں۔ یعنی ان کی زندگی کے تمام Symbolsبقیہ فریقین سے اَزحدمختلف ہیں۔ تیسرا مرحلہ Discrimination کاہے۔ اس میں اقتصادی طبقاتی جنگ حددرجہ اہم ہے۔
1999تک ہندواقلیت اقتصادی طورپرحددرجہ مضبوط تھی۔ مودی نے اس اقتصادی تفریق کو اب حددرجہ زیادہ تواناکرنے کی عملی کوشش کی ہے۔ Dehuminisation اگلی سیڑھی ہے۔ کشمیرمیں مسلمان کو بنیادی طورپرانسانی دائرہ سے نکال کرد ہشتگرد، علیحدگی پسند، مجرم اورباغی قرار دیدیا گیا ہے۔ یعنی اگرآپ مسلمان ہیں تولازم ہے کہ آپ دہشتگردہیں اور بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف ہیں۔ یعنی بغیرکسی ثبوت کے مسلمانوں کو دہشتگرد تسلیم کرلیا گیا ہے۔ Organisationاس کی اگلی اسٹیج ہے۔ اس میں کہاگیاہے کہ سرکاری فوج، پولیس اور پیراملٹری فورسز وہ سرکاری قوتیں ہیں جواجتماعی طور پر پوری وادی کوکنٹرول کرتی ہیں۔ Polarisationاس تنظیم کے مطابق اگلا مرحلہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مودی اوربی جے پی نے براہِ راست مسلمانوں کے خلاف نفرت پیداکی ہے۔ انڈیا میں سوشل میڈیاکی اکثریت بی جے پی کی حکومت کے زیرِ اثر ہے اوروہ جھوٹی معلومات قصداً فراہم کرتاہے۔ ساتواں قدم Preparation کا ہے۔ اس کے مطابق مودی نے سرکاری قوت کے لحاظ سے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ کشمیرپرفوجی کنٹرول بالکل درست ہے۔ "حتمی فیصلے"کی تیاری ہوچکی ہے۔ اگلا مرحلہPersecutionکاہے۔ اس کے مطابق کشمیرمیں مسلمانوں کوپابندسلاسل کیا جاتا ہے۔ انھیں بدترین تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلمان عورتوں کی عصمیت دری بالکل عام ہے۔ بلکہ ایک منظم پالیسی کے مطابق کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان مرد، عورتوں اوربچوں کوسرکاری پشت پناہی پرقتل کیا جارہا ہے۔
لواحقین کوکسی قسم کاکوئی انصاف مہیا نہیں کیاجاتا۔ یہ تمام اقدام حکومت کی ایماپرہورہے ہیں۔ Extermination اس رپورٹ کی وہ اسٹیج ہے جس میں پچیس لوگوں سے زیادہ کے مرنے کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ 1990سے اس طرح کے درجنوں واقعات ہوئے ہیں جن میں سرکاری اداروں نے بے دریغ لوگوں کوختم کیا ہے۔ یہ مرحلہ آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان کی فوج اور پولیس کشمیرمیں مسلمانوں کوگروہ کی صورت میں ماررہی ہے۔ آخری مرحلہ Denial کا ہے۔ Genocide Watch نے ثابت کیاہے کہ آج تک ہندوستانی فوج یاپیراملٹری فورس کے کسی فردکے خلاف، ظلم وستم برپاکرنے پرکوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بلکہ مودی حکومت ہرالزام کی نفی کرنے میں مصروف ہے۔ ان کے نزدیک وہ توکشمیرکی ترقی میں مصروف ہیں۔ انکاکوئی سرکاری فردبھی قتل، عصمت دری، تشددکے کسی واقعہ میں ملوث نہیں۔
ان دس مراحل میں ٹھوس ثبوت مہیاکرنے کے بعد Genocide Watchنے اقوام متحدہ کو لکھا ہے کہ ہندوستان کووارننگ دی جائے کیونکہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے۔ رپورٹ میں لکھا گیاہے کہ اقوام متحدہ کے زیرِاثرتمام ممالک ہندوستان کواس نسل کشی سے باز رکھیں۔ کشمیری مسلمانوں پرمظالم پرپاکستانی حکومت کے بعد، یہ سب سے موثرآوازہے۔ ویسے اس رپورٹ میں آسام کابھی ذکرہے۔ جہاں بتیس لاکھ مسلمانوں کو ہندوستان شہریت سے محروم کیاجارہاہے۔ ایک نیاقانون بنایا جارہا ہے۔ جسکے مکمل ہونے کے بعد، یہ لاکھوں مسلمان، عقوبت خانوں میں بندکردیے جائینگے۔ مودی سرکارکے کہنے پر آسام کی حکومت، اپنے شہریوں کی فہرست اَزسرِنوترتیب دے رہی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آسام میں ایک خوفناک سانحہ برپاہوگااواَن گنت مسلمان کیڑے مکوڑوں کی حیثیت اختیارکرجائینگے۔
انتہائی تکلیف دہ سچ یہ بھی سامنے آیاہے کہ کشمیری مسلمانوں کے حق میں آوازاُٹھانے کے لیے کوئی بھی اسلامک ملک سامنے نہیں آیا۔ تمام دنیامیں مسلمان ممالک نے حقیقی طورپراپناعملی وزن ہندوستان کے حق میں ڈال دیاہے۔ ترکی نے چند بیانات ضروردیے ہیں۔ مگرمشرقِ وسطیٰ کے ممالک، بھرپورطریقے سے ہندوستان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کے حکام کوصرف بتایاجاتاہے کہ انھیں اس مسئلہ پر اَزحد تشویش ہے۔ مزید، دونوں ممالک کو باہمی مسائل بات چیت سے حل کرنے چاہیے۔ کشمیری مسلمانوں پرظلم وستم کے متعلق کسی مسلمان ملک کوتوفیق نہیں ہوئی کہ برملااس کی مخالفت کرے اوراسے روکنے کے لیے سفارتی اقدامات میں پاکستان کاساتھ دے۔ بلکہ یواے ای نے توانتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیاہے۔ مودی کواس نازک موقعہ پر، سول ایوارڈ سے نوازنابراہِ راست پاکستان کے بیانیے کی توہین ہے۔
اس میں پاکستان سے نفرت اورحسدکاجذبہ بھی نظرآتا ہے۔ سعودی عرب اس موقعہ پرانڈیاکے ساتھ بھرپور نئے تجارتی معاہدے کررہا ہے۔ یعنی پوری دنیامیں واحد ہمارا ملک ہے جومظلوم کشمیریوں کی آوازبنکراُبھراہے۔ یہ آوازکتنی طاقتور ہے، اس پرکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ مگرکیایہ لمحہ فکریہ نہیں کہ کشمیری مسلمانوں کے حق میں مضبوط ترین آوازیں مغربی ممالک سے اُٹھی ہیں۔ وہ ممالک جنھیں ہم کافر قراردیتے ہیں۔ جوہمارے بقول جہنمی ہیں۔ بہرحال Genocide Watchنے نحیف اور کمزور کشمیریوں کے حق میں آواز اُٹھانے کاحق ادا کردیا ہے۔ ہماری نہیں، توشایدان کی بات کہیں سنی جائے؟