راہِ عشق کے مسافر ہرگز بے خبر نہیں ہوتے۔ ہر اَمر کو جانتے بوجھتے ہوئے بھولے بنے رہتے ہیں۔ خطرناک لوگ۔ حد درجہ قزاق۔ یہ تو لمحوں میں آپ کا سب کچھ چھین لیتے ہیں۔ آپ کے شعور اور لاشعور میں گھس کر عشقِ حقیقی کا الاؤ جلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ آپ ہی کو اپنے سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔
سلوک کے قافلے کے یہ لوگ بھیس بدل کر ہر طرف عام طریقے سے مصروف کار رہتے ہیں۔ صاحبِ نظر ایک دوسرے کو ضرور پہچانتے ہیں۔ مگر بھید نہیں بتاتے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی وجہ سے ان کی نگاہ کسی عامی پر پڑ جائے اور وہ بھی اس قافلے میں شریک ہو پائے۔ شائد سامان اُٹھانے والے قلی کی طرح یا ان لوگوں کے جوتے صاف کرنے کے لیے یا شائد کسی بھی وجہ کے بغیر۔ یہ صرف اور صرف عطا ہے۔ محنت سے کوئی بھی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں، شائد محنت سے دنیا کے چند ٹکڑے ضرور مل جائیں۔ مگر جاودانی صرف اور صرف عشق کی راہ کے مسافر کے پاس ہے۔
مگر یہ سب کچھ ہے کیا۔ اسے بیان کرناناممکن ہے۔ مگر محسوس کرنا قدرے آسان۔ یا شائد بہت زیادہ مشکل۔ بہرحال درویش، صوفیاء، قطب، ولی، اور ابدال ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ کبھی ملامتی بہروپ میں اور کبھی دنیا کے سامنے عام سے انداز میں۔ مگر یہ لوگ کبھی بھی عام نہیں ہوتے۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔
جو خالق کائنات کے قرب کی تلاش میں گزرتی ہے۔ یہ بادشاہ ہو کر بھی فقیر ہوتے ہیں اور اگر وقت کے فقیر ہوں تو بھی دراصل حاکم ہوتے ہیں۔ ابلیس ان سے حد درجہ دور رہتا ہے۔ شائد عشق کے دائرے کے اندر آنے کی جسارت ہی نہیں کر سکتا۔ حد درجہ مختلف دنیا ہے۔ عشق کی دنیا میں پانی کا رنگ اور ہے۔ دریاؤں کا رنگ اور۔ پیڑوں پر بہار اور ہے۔ وہاں کے پھول اور۔ کیا بات کی جائے۔ بلکہ کیوں کی جائے۔
امیر خسرو دل کھول کر جذب میں کمال لکھتے ہیں۔ لازوال درج کرتے ہیں۔
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
تُو تو صاحب! میرا محبوب الٰہی
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
ہماری چونریا۔۔۔ پیا کی پگڑیا
وہ تو دونوں بسنتی! رنگ دے
جو کچھ مانگے رنگ کی رنگائی
مورا جوبن گروی رکھ لے
آن پڑی دربار تمہارے
موری لاج شرم سب رکھ لے
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
جذب کے یہ مسافر ہر دور میں بھرپور انداز میں موجود رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے آپ سے دور رکھنے کے لیے منفرد سا بھیس رچا لیتے ہیں۔ کوئی پہچان نہ لے۔ شہرت سے حد درجہ دور رہتے ہیں۔ یہ خدا کے وہ خاص لوگ ہیں جو زندگی کی ہر سانس اس کی اطاعت میں گزار دیتے ہیں۔ عشقِ رسول ﷺ میں گندھے، یہ عاشق ہر سانس صرف اور صرف جذب میں لیتے ہیں۔ ہر بے معنی چیز کو معنی دے سکتے ہیں اور ہر بامعنی کے بے معنی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس کیفیت میں بابا بلھے شاہ ؒفرماتے ہیں۔
اِک نقطے وچ گل مکدی ہے
پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں
کر دور کفر دیاں باتاں نوں
چھڈ دوزخ گور عذاباں نوں
کر صاف دلے دیاں خواباں نوں
گل ایسے گھر وچ ڈھکدی ہے
اِک نقطے وچ گل مکدی ہے
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ کیوں ہے۔ کیا یہ واقعی حقیقت ہے۔ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ شائد سوال ہی غلط ہے۔ شعور کی چوکھٹ سے لاشعور کی طرف مسافت ہی اصل منزل ہے۔ یا اس قافلے کی کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ اسے منزل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر ذہن میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ اور نظر بے اختیار ہو کر امیر خسرو کی طرف اُٹھ جاتی ہے۔
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل و چشم جادو بصد مریہم ببر دتسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیا رے! پی سے ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں، چوں ذرہ حیران ہمیشہ گریاں بہ عشق آں مہ
نہ نیند نیناں، نہ اَنگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھجیں پتیاں
کمال ہے صاحب کمال ہے۔ نظام الدین اولیاء کی درگاہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک لمبی قطار موجود تھی۔ فاتحہ خوانی کے لیے وقت ملنا مشکل تھا۔ ساتھ والے کمرے میں امیر خسرو مٹی کی چادر تانے سو رہے تھے۔ جب خدا کے حکم سے نظام الدین اولیاء کی سانس کی ڈوری بند ہونے لگی تو کہا کہ امیر خسرو کو مت بتانا کہ میں دنیا سے چلا گیا ہوں۔
خسرو، دہلی سے باہر گئے ہوئے تھے۔ چند روز بعد واپس آئے تو مرشد کی طرف تشریف لے گئے۔ جیسے ہی درگاہ میں داخل ہوئے تو آواز آئی کہ نظام الدین تو چل بسے۔ حکایت ہے کہ یہ جملہ سنکر امیر خسرو زمین پر گر گئے۔ حالت جذب میں چلے گئے اور وہیں دم توڑ دیا۔ مرشد کی جدائی کیا ہوتی ہے، اس کا جواب شائد امیر خسرو ہی دے سکتے ہیں۔ مگر یہ تمام منزلیں ہر گز ہرگز آسان نہیں ہیں۔ یہ معمولی سے کام، ہر گز ہرگز معمولی نہیں ہیں۔
ان کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ یا شائد ادراک کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جذب، خود بخود ادراک کو مبہم کر دیتا ہے۔ عشق کا دروازہ روح کی چابی سے کھلتا ہے۔ اکثر لوگ تو دروازے کے باہر ہی بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دیتے ہیں۔ اندر کیا رعنائی ہے۔ انکو معلوم ہی نہیں پڑتا۔
کیہ آکڑ آکڑ چلنا
کھائے خوراکاں تے پہن پوشاکاں، کیہ جم دا بکرا پلنا
ساڈھے تن ہتھ، ملک تساڈا، کیوں جوہ پرائی ملنا
کہے حسین فقیر سائیں دا نت خاک وچ رُلنا
(شاہ حسین)
سلوک کی منزلوں کے یہ راہی بہت عجیب سے ہوتے ہیں۔ مخفی سے۔ نظر ملا کر بھی معلوم نہ ہونے والے۔ یہ رزق خاک تو ہو جاتے ہیں۔ مگر خاک بھی انکاکچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ان کی سوچ اور محبت، خاک کے پیمانہ سے بھی برابر باہر کی طرف دوام رہتی ہے۔ بھگت کبیر بھی اس راہ کا مسافرتھا۔ عشق کی بارش میں لبریر! کہتا ہے۔
مری تھم تھم جاوے سانس پیا
مری آنکھ کو ساون راس پیا
تجھے سن سن دل میں ہوک اُٹھے
ترا لہجہ بہت اُداس پیا
ترے پیرکی خاک بنا ڈالوں
میرے تن پر جتنا ماس پیا
تو ظاہر بھی، تو باطن بھی
تیرا ہر جانب احساس پیا
تیری نگری کتنی دور سجن
میری جندڑی بہت اُداس پیا
میں چاکر تیری ازلوں سے
تو افضل، خاص الخاص پیا
مجھے سارے درد قبول سجن
مجھے تیری ہستی راس پیا
(بھگت کبیر)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھی سمجھ نہ آئے تو بہتر ہے۔ سمجھنے کی ضرورت تو اس وقت درکار ہوتی ہے جب کوئی اُلجھن ہو، یقین نہ ہو۔ پر نکتہ تو یہ ہے کہ عشق اپنی اُلجھن خود پیدا کرتا ہے۔ اپنے آپکو یقین کے سانچہ میں خود ڈھالتا ہے۔ کوئی عشقِ حقیقی کی آنکھ کے اشارے سے لبریز ہو جاتا ہے اور کوئی اسی رمز سے مکمل طور پر خالی۔ یہ برتن کی قسمت ہے کہ اسے خالی چھوڑ دیا جاتا ہے یا اسے بھر دیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں اصل رمز کیا ہے۔ امیر خسرو توکہتے ہیں۔
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈالے کھیس
چل خسرو گھر اپنے، سانجھ بھئی چودیس
خسرو! دریا پریم کا اُلٹی وا کی دھار
جو اُترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا اس پار
راہِ عشق کیا ہے۔ قافلہ کون سا ہے۔ منزل کیا ہے۔ فاصلہ کتنا ہے۔ کتنا راستہ کٹ گیا۔ میرے خدا، یہ سب کیا ہے۔ یہ سب کیا ہے!