Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kya Ye Hamare Pani Ki Taseer Hai?

Kya Ye Hamare Pani Ki Taseer Hai?

ڈبلن شہرکے ریلوے اسٹیشن پرایک بوڑھاآدمی آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں تین چاراخبارتھے جو پلاسٹک میں لپیٹے ہوئے تھے۔ دوسراہاتھ، سیڑھیوں کے جنگلے پر تھا۔ معمولی کپڑوں میں ملبوس بوڑھے کی طرف کوئی دوسری بار نہیں دیکھ رہا تھا۔ اکاسی سالہ بوڑھے میں کوئی بات نہیں تھی کہ کوئی اسے دوبارہ دیکھنے کی آرزوکرے۔

بابا، ڈبلن کے نزدیک یونیورسٹی University of Limeroct سے آرہا تھا۔ نیوجرسی سے آئے ہوئے بزرگ کوڈبلن شہرمیں کوئی نہیں جانتا تھا لیکن ایک بالکل عام ساآدمی قطعاً عام نہیں تھا۔ 2012ء میں اسٹیشن پرنظرآنے والاآدمی، اس یونیورسٹی کوایک سوسترملین ڈالرکاعطیہ دے کرواپس آرہاتھا۔ چک فینی(Chuck Fenny)نام کے اس شخص کا آئرلینڈ، ڈبلن اوران بارہ ہزارطلباء سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا جویونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اس"بہت بڑے آدمی" کا صرف ایک فلسفہ تھاکہ مستحق لوگوں اوراداروں کی مددکرتے جائواورکسی کوبھی پتہ نہ چلے۔

پوری زندگی اس مردِ عجیب نے آٹھ بلین ڈالرتقسیم کیے تھے۔ آٹھ بلین ڈالرکی بات کر رہا ہوں۔ یہ تقریباً اتنے پیسے ہیں جوپاکستان کواس بار ورلڈ بینک نے اقتصادی تباہی سے نکلنے کے لیے دیے ہیں۔ فینی نے اپنی پوری عمرکی کمائی، بغیرکسی اشتہارکے، بغیرکسی صلے کے، مختلف اداروں میں تقسیم کردی۔ اس نے یہ امداد، کسی مذہبی، لسانی اور سماجی تعصب کے بغیرفراہم کی۔ اس نے یہ نہیں دیکھاکہ اس کے دیے گئے ڈالروں سے صرف کرسچن ہی مستفید ہورہے ہیں یاہندویا مسلمان یایہودی۔ بلکہ کبھی بھی فائدہ اُٹھانے والوں کی فہرست کی طرف نظراُٹھاکرنہیں دیکھا۔

ایئرپورٹس پرڈیوٹی فری دکانوں کاکامیاب ترین نیٹ ورک دینے والاشخص حیرت انگیزکام کرتارہا۔ 1982میں اس نےAtlantic Philanthropiesنام کی ایک کمپنی بنائی۔ دوسال بعدیعنی1984 میں فینی نے اپنی دولت کا تقریباًچالیس فیصداس فائونڈیشن کومنتقل کردیا۔ ا س کے کاروباری ادارے میں کسی کوبھی معلوم نہیں تھاکہ فینی اپنی دولت کابیشترحصہ ایک فائونڈیشن کودے چکاہے۔

جب اس شخص کے ظرف اورکشادگی کے بارے میں معلوم ہوتاہے توانسان حیرت زدہ رہ جاتاہے۔ اس نے کورنیل یونیورسٹی کوایک بلین ڈالرعطیہ کیے۔ ایک بلین ڈالر آئرلینڈمیں موجود دوتعلیمی اداروں کو دیے۔ ویت نام، جس سے اس کاکوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے صحت کانظام ٹھیک کرنے کے لیے تین سوملین ڈالرکی امدادفراہم کی۔ اس مردِعجیب نے آئرلینڈمیں جنگ بندکرانے کے لیے بھی دونوں فریقین کومالی وسائل فراہم کیے۔ وہ سیاستدان تھا نہ ہی اس نے کسی سے ووٹ مانگنے تھے۔ نہ کسی عہدہ کاخواہش مندتھا نہ ہی اس میں کسی قسم کامذہبی تعصب تھا۔ مگراس نے اپنی پوری جائیداد لوگوں کی فلاح کے لیے وقف کرڈالی۔ یہ غیرمعمولی کام، اس امیرآدمی کو غیرمعمولی بنادیتاہے۔ آج فینی کے پاس صرف 1.4ملین ڈالرہیں، جسے وہ روزمرہ کے اخراجات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ باقی تمام پیسے یونیورسٹیوں، کالجوں، صحت کے اداروں اوردیگرفلاحی کاموں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔

ایک حیرت انگیز بات یہ بھی تھی کہ امداددیتے وقت، وہ اداروں کے سربراہان سے حلف لیتاتھاکہ کسی کوبھی نہیں بتائینگے کہ یہ سب کچھ کونساشخص کررہاہے۔ ہاں، وہ بھی ایک حلف دیتاتھاکہ یہ خطیرپیسے کسی ناجائزذریعے سے نہیں کمائے گئے اوریہ منشیات سے بھی تعلق نہیں رکھتے۔ فینی کے متعلق کسی کوپتہ نہ چلتا۔ مگر پچیس برس پہلے ایک اخباری نمائندے نے دنیاکوبتایاکہ فینی کتنابڑاکام کررہاہے۔ میڈیا دیوانہ ہوگیا۔ مگرفینی نے کسی سے بھی بات کرنے سے انکارکردیا۔ اس نے پوری زندگی میں صر ف پانچ انٹرویودیے ہیں۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والاانسان ہے۔ شائد سب سے بڑاآدمی۔

ان تمام باتوں کوآپ ملکی تناظرمیں دیکھیں توبہت عجیب سالگتاہے۔ پاکستانی زاویہ کی عرض کررہاہوں۔ ویسے ہمارے ملک کے پانی میں کوئی مسئلہ ہے کہ اسے پی کرہرکوئی بڑاآدمی بننے کی استطاعت کھوبیٹھتاہے۔ ناراض مت ہویئے گا۔ پاکستان کے بیس امیرترین لوگوں کی فہرست بنالیجیے۔ قلم اورکاغذلے کرجس طرح بھی آپ یہ فہرست بناناچاہیں، شوق پوراکرلیں۔ جب ترتیب مکمل ہوجائے توپہلاذہنی جھٹکااس وقت لگتاہے جب یہ امیرترین لوگ بتاہی نہیں سکتے کہ انھوںنے یہ دولت کہاں سے حاصل کی ہے۔ اس کا ماخذ کیا ہے۔ اتنے پیسے کون سے کاروبارسے کمائے گئے ہیں۔ نوے فیصدیاشائدننانوے فیصدذرائع مشکوک دکھائی دینگے۔

اس فہرست میں قومی سطح کے سیاستدان، اقتصادی گرو اور کاروباری حضرات نظرآئیںگے۔ اگرتجزیے کی بے رحم آنکھ سے دیکھیں، توان امیرآدمیوں میں آپ کو حددرجہ چھوٹے لوگ نظرآئیںگے۔ بعض، مفاد پرستی، تعصب، حسد اور نفرت سے بھرے ہوئے کردار۔ جواپنی جیب سے ایک روپیہ خرچنے کے بھی روادارنہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہم لوگ معززہیں اورہمیں معززتسلیم بھی کیاجائے۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ لوگ ان کی عزت نہیں کرتے، ان کے شرسے گھبراکربلکہ ڈرکر، انھیں برداشت کرتے ہیں۔ زندہ مثالیں سامنے رکھیے۔ یہ لوگ کرپشن، جھوٹ اورفراڈکی سزائوں کے بعدبھی بے شرمی سے دانت نکالتے پھرتے ہیں۔ عدالت جاتے وقت وکٹری کانشان بناتے ہیں۔

ہاں، ایک اورحیرت انگیزرویہ۔ یہ لوگ پیسے دیکر اپنی گاڑیوں پرپھول پھینکواتے ہیں۔ بندوں کوکرایہ دیکر اپنے حق میں نعرے لگواتے ہیں۔ دراصل یہ عزت خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شائدکبھی کبھی لگتاہے کہ یہ کامیاب بھی ہیں۔ کیونکہ اب معاشرے میں تکریم کی بنیادپیسہ ہے۔ دولت ہے۔ شائد میرے جیسے لوگ غلط کہہ رہے ہیں۔ غلط سوچ رہے ہیں۔ شائدہم میں سے کوئی بھی کچھ بھی نہیں سوچ رہا۔

ان امیرترین یاشائدغریب ترین لوگوں کے متعلق سوچناچھوڑیے۔ ان کاذکراوران کے متعلق بات کرنی حددرجہ ادنیٰ کام ہے۔ آپ، سماجی شعبہ میں نمایاں کام کرنے والوں کوپرکھیے۔ کسی نے اتفاق سے کوئی نیک کام کرہی دیاہے، تو اپناڈھول لے کرہروقت خودبجانااپنافرض منصبی سمجھتاہے۔ بے جا فخر، اَن دیکھے تکبراورستائش سے ان کاسینہ پھولاہوا نظر آتا ہے۔ مثال لے لیجیے۔ ابھی رمضان گزراہے۔ یہ لوگ اپنے سماجی کاموں کے بھرپور اشتہاردیتے ہیں۔ اخبارات اورٹی وی چینلزپرپیسے دیکراپنی شہرت میں چارچاندلگاتے ہیں۔ مگران کی شہرت اوربڑے نام کے پیچھے بھی ایک شدید عدم تحفظ پایاجاتاہے۔

عمومی بات کررہاہوں۔ لازم ہے کہ کچھ لوگ صلے کی پرواہ کیے بغیرکام کررہے ہیں۔ ویسے، کم ازکم مجھے اپنے معاشرتی رویے دیکھ کریقین ہے کہ یہاں تعریف اورشہرت کے بغیرکوئی بھی اچھاکام کرنے کاظرف نہیں رکھتا۔ اگرانھوں نے کوئی تعلیمی ادارہ بنانے کاکام کرنے کاارادہ کیاہے۔ تویہ اوران کے ملازمین، ہردم، ہروقت لوگوں سے پیسے مانگتے نظرآئینگے۔ حکومتی امدادکے لیے سردھڑاورعزت کی بازی لگا دیتے ہیں۔ مگران میں سے ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی۔ جس میں ان سماجی جادوگروں نے اپنی ذاتی جائیدادکاایک آنہ بھی اپنے قائم شدہ اداروں کے لیے خرچ کیاہو۔

جائیداد کا بیشترحصہ ان سماجی اداروں کے لیے وقف کردیاہو۔ یہ دوسروں سے امداد، خیرات، صدقات اورتحفوں کے منتظرنظر آئینگے۔ مگر اپنی گرہ سے کچھ نہیں خرچتے۔ قصدًا"دھیلہ"کے لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ یہ لفظ ہمارے سیاسی اکابرین استعمال کر کرکے ہلکان ہوچکے ہیں۔ ہم نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ مگرجیسے ہی پوچھاجاتاہے کہ آپ کی بے پناہ دولت کہاں سے آئی، تویہ عالم استغراق میں چلے جاتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ بکثرت موجودہیں جواپنی دولت کا حساب دینے میں ناکام نظرآتے ہیں۔ سیاسی قذاقوں کے ساتھ ساتھ اب سماجی قذاق بھی موجودہیں۔ یہ اسپتال بنانے کااراداہ کریںگے توسب سے پہلے آپ کی جیب خالی کروائیں گے۔

یہ تعلیمی درسگاہ بنانے کااعلان کریںگے توان کی نظر پھرآپ کے پیسوں پرہی ہوگی۔ یہ کوئی یتیم خانہ کھولینگے تو معصوم بچوں کے درمیان بیٹھ کرٹی وی پردھڑلے سے انٹرویودیتے نظرآئینگے۔ یہ لوگ، آقاؐکافرمان بھول چکے ہیں "کہ جب کسی کی مددکرو، تواس طرح کروکہ دوسرے ہاتھ تک کوپتہ نہ چلے"۔ مگریہ سماجی ڈاکوہماری مددسے اپنے لیے شہرت کے قلعے خریدنے کاعمل کرتے ہیں۔ ڈھونڈراپیٹتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا، ہم نے یوں کیا۔ مگرعجیب بات ہے کہ انھوں نے کبھی لوگوں کویہ ہوانھیں لگنے دی کہ انھوں نے اپنی ذاتی جیب سے اپنے ہی ادارے کے لیے کتناعطافرمایا۔

ویسے ایک شخص دیکھاتھا۔ جس کوستائش کی تمنانھیں تھی۔ کوئی خواہش بھی نہیں تھی۔ وہ صرف اورصرف عبدالستار ایدھی تھا۔ جس نے نئے لٹھے کے کفن پربھی پیسے نہیں خرچنے دیے۔ اپنے پرانے کپڑوں میں ہی دفن ہونے کی وصیت کردی۔ شائدایک دواوربھی مثالیں ہوں جوطالبعلم کے علم میں نہ ہوں۔ مگریقینا چک فینی جیسے بڑے آدمی ہمارے پاس موجودنہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تو معاملہ ہی اُلٹا ہے۔ ہر شخص اپنی بزرگی اوربڑائی کاڈھول خودہی پیٹ رہا ہے۔ شائد ہمارے پانی کی تاثیرہے کہ بڑے آدمی پیدانھیں ہورہے؟