اسکاٹ پیری (Scott Perry) امریکا کی کانگریس کا سینیٹر ممبر ہے۔ آج سے تین دن قبل اس نے امریکی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا ہے جو کمیٹی برائے امور خارجہ کو غور وخوض کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔ اس بل کے مندرجات ہمارے ملک کے ازحد خلاف ہیں۔ اگر یہ بل پارلیمنٹ سے پاس ہو جاتا ہے تو پاکستان پر ہمہ جہت پابندیاں لگائی جا سکیں گی۔
جس میں بیرونی امداد، دفاعی سامان اور امریکا سے خرید وفروخت کی متعدد اشیاء پر کڑی پابندی لگ جائے گی۔ چار ممالک پہلے ہی اس طرح کی قانون سازی کی زد میں آچکے ہیں۔ کیوبا، ایران، شمالی کوریا اور شام۔ اس فہرست سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کے طاقت ور ترین سیاست دان ہمارے ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف پچھلے ایک ہفتہ کے معاملات ہیں۔
فروری 2022ہی میں نیویارک میں ایک پاکستانی مالیاتی ادارے کی مقامی شاخ کو جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس واقعے کی معمولی سی بازگشت سنائی دی مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہو پائی۔ کچھ عرصہ پہلے بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہو چکا ہے۔ یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کے دورانیہ کی بدولت ہوا ہے۔ امریکا میں سرکاری بیانیہ قائم کر دیا گیا ہے کہ ہمارا ملک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے گھمبیر معاملات میں ایک فریق ہے۔ یہ تاثر اب مغرب بلکہ دشمنوں میں بھی پنپ رہا ہے۔
مارچ 2022 ہی میں ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو اگلے آٹھ ماہ کے لیے گرے لسٹ میں شامل رکھا گیا ہے۔ جن دو نکات پر ملک کو اس فہرست میں رکھا گیا ہے، ان میں دہشت گردوں کے لیے امداد فراہم کرنا اور انھیں سزائیں نہ دلوانا شامل ہے۔
آسان الفاظ میں دہشت گردی میں ملوث افراد اور تنظیموں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ ان ناموں کی فہرست اقوام متحدہ نے جاری کی ہوئی ہے اور یہ حکومت کو بھی معلوم ہے۔ بھارت اور امریکا کی مشترکہ کوشش ہے کہ کسی بھی طریقہ سے پاکستان کو گرے لسٹ سے آگے بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے تاکہ ملک کی معیشت مکمل طور پر دم توڑ جائے اور پاکستان کے دفاعی ادارے مفلوج ہو جائیں۔ یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔
ٹھیک تین دن قبل ہندوستان سے ایک میزائل داغا جاتا ہے جو سو کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر کے وہاڑی میں گرتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ میزائل "وارہیڈ" کے بغیر تھا اور اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا مگر یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں ممکن ہی نہیں ہے کوئی I۔ C۔ B۔ M اتفاق سے چل جائے۔ طالب علم کی نظر میں یہ ہرگز ہرگز اتفاقیہ نہیں ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر یہ میزائل کسی گنجان آبادی میں گر جاتا یا کسی مسافر ہوائی جہاز کو نشانہ بنا لیتا تو کتنی بڑی قیامت برپا ہو سکتی تھی۔
اس صورت میں دونوں ملکوں میں بھرپور جنگ کو نظرانداز ہرگز ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ گزارشات کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہمارا ملک اس وقت حددرجہ بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ملک پر طاقت ور ترین ممالک سے ناقابل برداشت دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے دشمنوں کے لیے سب سے بڑا کیا تحفہ ہو سکتا ہے۔ خود جواب دیجیے۔ وہ نایاب گفٹ، اندرونی عدم استحکام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی اور غیرسیاسی فریق باہم دست و گریباں ہیں۔ کسی کی نیت پر شک نہیں ہے۔
سب سیاست دان محب وطن ہیں مگر حالات و واقعات اور دلیل کی روشنی پر پرکھا جائے تو کہانی سب کو سمجھ آ جانی چاہیے۔ عمران خان بطور وزیراعظم رہتے ہیں یا نہیں، یہ اس وقت قطعاً اہم نہیں ہے بلکہ طالب علم کی نظر میں یہ اب کسی قسم کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اصل اثاثہ ہمارا ملک ہے، ملکی سالمیت اور ہماری معیشت ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس برس ترقی کی شرح نمو پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے اداروں کے مطابق یہ شرح پانچ فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ ملک آہستہ آہستہ صنعتی اور زرعی ترقی میں ٹھوس طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ملک کی برآمدات حیرت انگیز طور پر ترقی کے سفر پر ہیں۔ یہ مثبت صورت حال ہمارے دشمن فریق کو بالکل قابل قبول نہیں۔ ان کے مقاصد کھل کر سامنے آ چکے ہیں کہ ہمارے طاقتور ترین ریاستی اداروں اور معیشت کو کمزور کیا جائے۔ ہرگز یہ عرض نہیں کر رہا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ماضی کا رول چند معاملات میں قابل فخر ہے۔
بالکل نہیں۔ مگر کیا اس سچ کو بھی نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو مضبوط فوج کی قربانیوں کی بدولت ہر صورت میں کامیاب ہوا ہے۔ چن چن کر ہزاروں دہشت گرد مارے جا رہے ہیں۔ اس نکتہ پر خدارا غور فرمایئے۔ تھوڑی سی بہتر معیشت اور دہشت گردی کو کم کرنا ہمارے دشمنوں کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہو گا۔ کیا وہ قبول کریں گے کہ پاکستان مضبوط سے مضبوط ترہوتا جائے، بالکل نہیں۔
اسی تناظر میں موجودہ سیاسی صورت حال کو دیکھیے۔ حکومت سے شروع کرتا ہوں۔ ان کی بچکانہ پالیسیوں کی بدولت مہنگائی ایک جن بن کر ملک پر سوار ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہی اس دیو کو قابو میں نہ کرنا ہے۔ جناب وزیراعظم کے غیر سیاسی طرز عمل نے تلخیوں کو مزید بڑھایا ہے، ادھر اپوزیشن بھی محاذ آرائی پر تلی بیٹھی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارے سیاسی قائدین غیر ملکی دشمنوں کا کام آسان بنا رہے ہیں۔ ملک میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے یا اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بے چینی کو تشدد کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔
انصار الاسلام کے لوگوں کی پارلیمنٹ لاجز میں آمد اور کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کو کیا کہا جائے گا۔ ہندوستان کے میڈیا نے اس معاملے کو انتہائی سنسنی خیز طریقے سے دکھایا ہے۔ واقعہ کی بازگشت بین الاقوامی چینلز پر بھی سنائی گئی ہے۔ جناب وزیراعظم بھی اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہزاروں لوگوں کو لانے کی بات کر چکے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کے قائدین ملک کو درپیش خطرات سے بے پرواہ ہو کر آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ کامیاب ہو یا ناکام، یہ معمولی بات ہے۔ اصل چیز ہمارا ملک ہے۔ مگر کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعات کی یہ کڑی محض اتفاق ہے؟