ڈاؤجینز (Dio genes) انسانی تاریخ کا حیرت انگیز کردار ہے۔ 404قبل از مسیح عیسویٰ میں اناطولیا میں پیدا ہونے والا شخص انسانی تضادات کی کھل کر مخالفت کرتا تھا۔ اس کے بقول وہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ ہر ملک کا شہری ہے۔ زندگی کا طویل عرصہ ایتھنز میں گزارا۔ حکومت، معاشرت اور معاشی منافقت کو غور سے دیکھا اور پھر پوری زندگی ان کے خلاف لڑتا رہا۔ اس کی لڑائی دراصل افکار کی جنگ تھی۔ وہ بتدریج ایک ایسے فلسفی میں ڈھل گیا، جس نے ان گنت لوگوں کو متاثر کیا۔ ڈاؤجینز کہتا تھا کہ "نیکی اگر عمل کی صورت میں سامنے نہ آئے تو وہ صرف اور صرف بے معنی الفاظ ہیں "۔
اس کے رہنے کی جگہ بھی حد درجہ عجیب تھی۔ بازار کے کونے میں مٹی کا بنا ہوا ایک بہت بڑا گھڑا تھا۔ ایک شراب خانے کے مالک نے ٹوٹنے کی وجہ سے باہر پھنکوا دیا تھا۔ گھڑے کا پیندا اور مونہہ ٹوٹ چکے تھے۔ فلسفی اس مٹی کے گھڑے میں رہتا تھا۔ اس کے پاس بہت ہی کم اشیاء تھیں۔ ایک پیالہ تھا جو پانی پینے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ بازار میں گزرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ ایک غریب بچہ دونوں ہاتھ جوڑ کر پانی پی رہا ہے۔ ڈاؤ جینز اپنی ٹوٹی آماج گاہ آیا۔ اپنے مٹی کے پیالے کو دونوں ہاتھوں سے اٹھایا اور زمین پر دے مارا۔ پیالہ ٹوٹ گیا۔
ڈاؤ جینز نے کہا کہ بچے نے اسے سبق دیا ہے کہ پیالہ بھی ایک اضافی شے ہے۔ اس کے بغیر بھی پانی پیا جا سکتا ہے۔ ایک دن ڈاؤجینز نے کہیں سے لالٹین حاصل کی اور مکمل دھوپ میں لالٹین جلا کر شہر میں پھرنے لگا۔ لوگ حیران ہو گئے کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ بے وقوف، پاگل کے نعرے لگنے شروع ہو گئے۔ کسی نے ڈاؤجینز سے پوچھا کہ یہ تم کتنی طفلانہ حرکت کر رہے ہو۔
بھلا سورج کی روشنی کی موجودگی میں اس معمولی لالٹین سے کیا تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ڈاؤ جینز کا جواب دل ہلا دینے والا تھا بلکہ آفاقی تھا۔ "میں پورے شہر میں ایک بھی ایماندار شخص کا وجود تلاش کر رہا ہوں۔ ویسے تو مجھے پوری آبادی میں کوئی بھی باکردار انسان نہیں مل پایا۔ شاید لالٹین کی روشنی سے میں کسی اچھے انسان کو تلاش کر پاؤں"۔ یہ غیر معمولی جواب آج سے دو ہزار سال پہلے کا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ذہن سے پوچھیے۔ کیا یہ سوال اور جواب آج بھی درست نہیں ہیں۔ ایتھنز میں ڈاؤ جینز کے جواب کی روشنی میں ملکی صورت حال کو پرکھیں تو بات سمجھ میں آنے لگے گی۔
یہ نہیں کہ ڈاؤ جینز کو اداروں، نظام اور سماج کی منافقت پر تنقید کی کوئی سزا نہیں ملی۔ اسے ذہنی طور پر اذیت پہنچائی گئی۔ متعدد بار شہر بدر کیا گیا۔ ایتھنز سے نکلنے کے بعد کورنتھ چلا گیا۔ وہاں اس نے لوگوں کو باقاعدہ لیکچر دینے شروع کر دیے۔ اسے ان گنت آدمی سنتے تھے اور فلسفے سے متاثر ہوتے تھے۔ ویسے ڈاؤ جینز، غلام بھی رہا۔ کیونکہ سفر کے دوران ڈاکوؤں نے اسے قبضہ میں کر کے غلام بنا دیا۔ فروخت ہونے کے لیے جب وہ بازار میں لایا گیا تو کہا۔ "اسے اس شخص کو فروخت کیا جائے، جسے عقل کی ضرورت ہے"۔ بہر حال ڈاؤ جینز اپنے معاشرے کے تضادات کو کامیابی سے لوگوں کے سامنے لاتا رہا اور اس کی مسلسل سزا بھی بھگتتا رہا۔
اپنے سماج، ریاستی وجود اور رویوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ہزاروں سال پہلے کا ایتھننز یاد آ جاتا ہے۔ ہم لوگ انتہائی غیر سنجیدہ، تضادات سے بھرپور اور حد درجہ منافقانہ رویوں پر مبنی ہجوم ہیں۔ قوم بننے کی صلاحیت اور اہلیت تو خیر ہم میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ لہٰذا ایک بپھرا ہوا مجمع کہنا زیادہ مناسب ہے۔
ہم میں سے ہر شخص، اپنے آپ کو ہر طور پر سب سے سمجھدار، ایماندار، مذہبی اور سیانا سمجھتاہے۔ ہر انسان دوسرے کے لیے واعظ بھی ہے اور محتسب بھی۔ دوسرے شخص کی شخصیت میں اسے ہزار خامیاں نظر آتی ہیں۔ مگر بذات خود اپنے آپ کو حد درجہ پوتر گردانتا ہے۔ معاشرے کی اس منافقت پر بات کرنا حد درجہ مشکل ہے۔ اور ہمارے جیسے مقلد سماج میں تو خیر اس پر بات کرنا ناممکنات کی حد تک چلا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ذہنی طور پر بھی منتشر اور کنفیوژڈ لوگ ہیں۔ عملی ترجیحات، ہمارے زبان و بیان سے مکمل متضاد ہیں۔
یعنی اکثریت کی کہیں ہوئی بات، دراصل مکمل طور پر بے معنی بلکہ مجہول ہے۔ آپ ہمارے الیکشن اور اس کے تحت اقتدار میں آنے والے افراد پر نظر دوڑائیے۔ دل خراش سچائی سامنے آ جائے گی۔ کیا پارلیمنٹ میں کوئی متوسط طبقے کا شخص آسکتا ہے۔ کیا کوئی غریب آدمی سوچ بھی سکتا ہے کہ وہ عام آدمی کی نمایندگی کرنے کے لیے سینیٹر بن سکے۔ جناب، ہر ایک کو معلوم ہے کہ الیکشن لڑنے کے لیے کروڑوں روپے درکار ہیں۔ مذاق تو یہ بھی ہے کہ قانونی طور پر ہر چناؤ میں لڑنے میں اخراجات کی قانونی حد مقرر ہے۔
مگر کثیر سرمایہ خرچ کر کے امیدوار حد درجہ چالاکی سے جعلی گوشوارے بھر کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ اور اس جھو ٹ کو تسلیم بھی کر لیا جاتا ہے۔ یعنی جس سیاسی نظام کی بنیادمیں سچ کا وجود نہ ہو، وہ کیسے عام آدمی کے مفاد کے لیے کام کرے گا۔ پارلیمنٹ میں مقتدر افراد کی تقاریر سنیئے۔ بلکہ تقریر سے پہلے ان کے زیب تن کپڑے دیکھیے۔ غیر ملکی برانڈڈ و سوٹ، قیمتی گھڑیاں، بیش قیمت جوتے پہن کر یہ لوگ غریب کے حق میں بولتے نظر آتے ہیں۔
ان کی لفاظی کا کوئی مطلب نہیں۔ شاید میں غلط لکھ گیا۔ ان کے لفظوں کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس طرح اپنی ناجائز دولت میں ناجائز طریقے سے مزید اضافہ کرنا ہے۔ تاریخی تناظر میں ان کے الفاظ کو جانچیے تو دنگ رہ جائیں گے۔ ہزاروں برس پہلے، روم کی سینیٹ میں منتخب نمایندے بالکل ایسی ہی تقاریر کرتے تھے۔ اگر آپ دنیا کی عظیم طاقت یعنی رومن ایمپائر کی اشرافیہ کو دیکھیں تو بعینہ یہ معلوم ہو گا کہ ہو نہ ہو یہ ہمارے ملک ہی کا کوئی نمایندہ بول رہا ہے۔ کیا آج تک کسی صدر، وزیراعظم، مشیر یا بابو نے سرکاری مراعات لینے سے انکار کیا۔ کیا آج تک کسی وزیراعظم نے یہ فرمایا کہ وہ پروٹوکول کے بغیر عام بس یا ٹرین میں سفر کرے گا۔
اشرافیہ کا رویہ تھوڑی دیر کے لیے فراموش کر ڈالیے۔ عام آدمی کے عمل پر غور وفکر کیجیے۔ کووڈ سے پہلے سعودی عرب نے حج اور عمرے پر آنے والے لوگوں کی ملک کے حساب سے، فہرست شایع کی تھی۔ 2019میں 21لاکھ پاکستانی عمرے پر گئے۔ اس تناسب سے حج پر جانے والوں کی تعداد میں بھی پاکستانی سرفہرست تھے۔ حج اور عمرہ کرنا میری نظر میں بہت بڑی سعادت ہے۔ لیکن کیا یہ سوال جائز نہیں ہے کہ اسے صرف عبادت کے طور پر کرنا اور اپنے عمل کو اس کے مطابق نہ ڈھالنا کس حد تک اسلامی ہے۔
دین کا عام سا طالب علم ہوں۔ قرآن میں کوئی بھی قوم عبادات نہ کرنے پر خدا کے عذاب کا شکار نہیں ہوئی۔ اصل عذاب، سماج میں ناانصافی، ناپ تول میں کمی، ہم جنس پرستی اور کج عملی کی بنیاد پر نازل کیے گئے۔ سچ کو سچ نہ کہنے پر اقوام خدا کی طرف سے برباد کی گئیں۔ کیادنیا کی عظیم ترین الہامی کتاب میں خدا کے عذاب کو دعوت دینے والی خرابیوں کا ہم شکار نہیں ہیں۔ سادہ سا نکتہ بیان کرتا ہوں۔ دودھ کو خدا کا نور بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے قصبے، شہر یا گاؤں میں خالص دودھ تلاش کر کے تو دکھائیے۔ پسینہ آ جائے گا۔ لاہور شہر تقریباً ایک کروڑ سے زائد لوگوں کا شہر ہے۔
دودھ کی دکانوں پر مذہبی نام دور سے نظر آ جائینگے۔ اگر نہیں ہو گا، تو خالص دودھ نہیں ہو گا۔ یہ عام سی مثال دے رہا ہوں۔ جس معاشرے میں عام آدمی بھی ملاوٹ کرنے کو غلط نہیں سمجھتا۔ وہاں بالاتر طبقہ کیوں اخلاقیات کی قیود میں کام کر ے گا؟ ہمارے کاروباری طبقے کو دیکھیے۔ ان میں سے اکثریت چہرے، گفتگو اور لباس سے آپ کو حد درجہ نیک اور بااصول نظر آئیں گے۔ مگر یہ جب تک آپ کی جیب کاٹ نہ لیں، انھیں چین نہیں آئے گا۔ لالچ کی تمام حدود کو پار کرتا ہوا منافع حاصل کرنے کے لیے یہ ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہی۔ باتیں سنیں تو ہر کوئی جنت حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ایمانداری، انصاف، قانون کی حکمرانی، فکری اور شخصی تحفظ آپ کو ان ممالک میں نظر آتا ہے جو کافر معاشرے کہلاتے ہیں۔ میرا اشارہ مغرب کی طرف ہے۔ کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ یہ ممالک زمین نہیں، کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔ اور ہم کسی اور دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس بگاڑ کو کون ٹھیک کرے گا یا کوئی اس گراؤٹ کو درست کرنے میں دلچسپی رکھتا بھی ہے۔ کم از کم طالب علم کو تو ایسا کچھ بھی نہیں نظر آتا۔ اگر آج ڈاؤجینز زندہ ہوتا تو لالٹین لے کر ہمارے ملک کے قریہ قریہ میں ضرور پھرتا، کہ شاید کوئی درست اور صحیح انسان مل جائے؟ پرنہیں۔