چاردن پہلے مین گیٹ پرنصب گھنٹی بجی۔ ملازم نے واپس آکربتایاکہ کسی سرکاری محکمہ سے ایک مرداورایک خاتون تشریف لائے ہیں۔ پوچھ رہے ہیں کہ گھرمیں کوئی ایساپانی کاٹینک یاگملے موجودتونہیں ہیں جن میں مچھرپرورش پا سکیں۔ دراصل وہ ڈنگی مچھرکے متعلق دریافت کررہے تھے۔
گھرکے اندرآنے دیا۔ دونوں نے اطمینان سے گھر میں جمع شدہ پانی کودیکھا۔ کہنے لگے کہ ہم سرکاری ملازم ہیں اورگھرجاجاکرلوگوں کوبتارہے ہیں کہ گملوں، پودوں اور دیگر جگہ پانی کوجمع نہ ہونے دیں۔ اس میں مچھروں کی افزائش ہوسکتی ہے اورڈنگی وائرس جومچھروں کے اندرہی پنپتا ہے، آزارکاباعث بن سکتاہے۔ ڈنگی مہم کے تحت گھر گھر جا کر بتاناانکی سرکاری ذمے داری تھی۔
تسلی کے بعدوہ اگلے گھرچلے گئے۔ ڈنگی کے خلاف ایک ترتیب شدہ مہم دیکھ کرقدرے اطمینان ساہوا۔ اسی درجہ کی اہم بات کہ آبادیوں میں سرکاری ملازمین کی اس مہم کی کوئی خبراخبارمیں نہیں دیکھی۔ یعنی اس کوشش کوپروپیگنڈے کے طورپراستعمال نہیں کیاگیا۔ جس بلاک میں رہتاہوں وہاں اردگردمکان تعمیرنہیں ہوئے۔ اس وجہ سے ہرطرف درخت اور جھاڑیاں کثیرتعدادمیں موجود ہیں۔ یہاں مچھروں کا ہونا بالکل قدرتی ہے۔ مگر ابھی تک لاہورکایہ علاقہ ڈنگی سے قدرے محفوظ ہے۔ شائد مچھر بھی بہت سوچ سمجھ کرحملہ کرتاہے۔ بہرحال ٹیم کے آنے سے خوشگوارحیرت ہوئی۔
بالکل اسی طرح شام کودیکھاکہ ہرطرف ایک گاڑی گاڑھے دھویں کااسپرے کررہی تھی۔ اتفاق سے گھرسے باہرجارہاتھا۔ دھواں میں کچھ نظرنہیں آرہاتھا۔ معلوم ہواکہ یہ اسپرے بھی مچھروں کوختم کرنے کے لیے ہے اور حددرجہ موثر ہے۔ دھویں کے یہ بادل تقریباًایک ڈیڑھ منٹ تک ہر چیز پرحاوی رہے۔ اس اسپرے سے مچھروں کومارنے اورڈنگی کوختم کرنے میں کتنی مددملتی ہے یہ توتھوڑے دن بعدمعلوم ہوجائے گا۔
پرایک انتہائی مشکل میں گھری ہوئی حکومت کی طرف سے یہ کام کافی معقول معلوم ہوا۔ ویسے توپاکستان میں ہرحکومت، ہرموقع پرمصائب کاشکاررہتی ہے۔ کسی بھی وقت، آنے اورجانے کاغیرمعین سلسلہ اور افواہیں سراپا جاری رہتی ہیں۔ مگر موجودہ حکومت کے متعلق ایک غیریقینی صورتحال بڑی مہارت سے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ جانفشانی صرف انھی اکابرین کے پاس ہے جوتقریباً پنتیس برس تک ملک کو جانوروں کی طرح روندتے رہے ہیں۔
کوئی انسان ان کے سامنے دم نہیں مارسکتاتھا۔ سرکاری افسران ان کے اوران کے عزیزوں کے زرخریدغلام تھے۔ ہزاروں پولیس اہلکاران جیسے بیکاررہنماؤں کی حفاظت پر دہائیوں سے مامور تھے۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ لوگ، گزشتہ ایک سال کی زبوں حالی کاتسلسل سے حساب مانگ رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ اصل موضوع سے ہٹ جاؤں۔ کم ازکم ڈنگی کے خلاف ایک موثرمہم دیکھنے کو ضرور ملی اوروہ بھی بغیراشتہاروں کے۔ بغیرپروپیگنڈے کے، بغیرجملہ بازی کے۔ بلکہ یہ سب کچھ کافی خاموشی سے کیا جارہاہے۔ تلخ سچ یہ ہے کہ ڈنگی کے خلاف جنگ نہ کوئی ملک جیت سکتاہے اورنہ ماضی میں ایسا ہو پایا ہے۔ دراصل مچھردنیاکاطاقتورترین حریف ہے۔ یہ غیرمعمولی طور پر انسانی نسل کوتباہ کرنے میں مصروف ہے اورحددرجہ کامیاب ہے۔
اس کی طاقت کاادراک شائدہمیں ہے ہی نہیں۔ اس لیے پوری قوم کوغیرضروری مباحثوں اور مناظروں میں مصروف کردیاگیاہے کہ جناب فلاں کے وقت میں ڈنگی پرمکمل قابو پالیاگیاتھا۔ فلاں وزیراعلیٰ حددرجہ فعال تھا۔ اس نے توکمال کردیاتھا۔ ہاں کمال واقعی ہواتھا۔
سرکاری پروپیگنڈے اوراشتہاربازی کا۔ مگراصل مسئلہ، یعنی مچھر تو پوری آب وتاب سے موجودرہاتھااوراپنی نسل بڑھانے میں مصروف تھا۔ مگرسچ تویہ ہے کہ"کم کام" کرو اورتعریف کا ڈھول خوب بجاؤبلکہ ہروقت بجاتے رہو۔ اس امرمیں تو خیر سابقہ حکمران یکتاتھے۔ تلخ سچ یہ ہے کہ مچھرپرمکمل طور پر قابو نہ موجودہ حکمران پاسکتے ہیں اورنہ ہی سابقہ حکمران اوران سے بھی سابقہ حکمران۔ اسلیے کہ مچھرحددرجہ مہیب اور طاقتور دشمن ہے۔ ہمیں اس کی طاقت کا ہرگزادراک نہیں۔
کسی سے پوچھ لیجیے کہ مہلک ترین جانوریاعنصرکون ساہے۔ کوئی سانپوں سے ڈرائے گا۔ کوئی شارک مچھلی سے خوف زدہ معلوم ہوگا۔ سانپ کے کاٹنے سے توایک سال میں تقریباًپچھترہزارانسان مر جاتے ہیں اورشارک سے صرف دس۔ مچھراوران سے منسلک بیماریوں سے سالانہ سات لاکھ بندے موت کے گھاٹ اُترجاتے ہیں۔
اگر ملیریاسے ہونی والی اموات پرنظردوڑائیں توصرف اسی سے سالانہ چارلاکھ لوگ مر جاتے ہیں۔ ملیریا، مچھرکے ذریعے پھیلتا ہے۔ بالکل اسی طرح ڈنگی کاوائرس بھی مچھرہی میں پرورش پاتا ہے۔ ہرسال ڈنگی مچھرپانچ سے دس کروڑ افرادکونشانہ بناتا ہے۔ ان میں سے متعددبدقسمت لوگ علاج معالجہ کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ یہ اموات پوری دنیامیں ہوتی ہیں۔
حددرجہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ مچھر انتہائی کامیابی سے اپنے خلاف ہونے والی ادویات کے خلاف Resistence پیدا کر لیتے ہیں۔ یعنی وہ دوا جو دو چارسال پہلے مچھرکومارنے کے لیے کامیابی سے استعمال ہوتی تھی۔ اب کافی حدتک غیر موثر ہوچکی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق مچھرغیرمعمولی حدتک توانااورذہین دشمن ہے۔
اسے بالکل معلوم ہے کہ اپنے اندر کس طرح کی کیمیکل تبدیلی لانی ہے تاکہ وہ زندہ رہ پائے اورانسانوں کو برباد کرسکے۔ اس کاادراک ہمارے ہاں ہے کہ نہیں، پوری سنجیدگی سے نہیں عرض کرسکتا۔ روزمیری ڈرس ڈل (Rosemary Drisdell)تویہاں تک لکھتی ہے کہ دنیا کے آغازسے موجودہ حالات تک جتنی بھی انسانی آبادی وجودمیں آئی ہے، اس میں سے آدھی مچھرسے متعلقہ بیماریوں کی بدولت مر گئی ہے۔
بالکل محتاط اندازے کے مطابق پہلی اوردوسری جنگِ عظیم میں جتنی بھی اموات ہوئی ہیں، ملیریانے اس سے بہت زیادہ لوگ مارے ہیں۔ اوریہ آج بھی مررہے ہیں۔ زمانہ قبل مسیح سے مچھرہردوسوسال میں انسانی آبادی کوتقریباًنصف کردیتاہے۔ تاریخ دان تو خیر دل دہلادینے والے معاملات رقم کرتے ہیں۔ رومن قدیم کتابیں پڑھ لیجیے، مصرکے فرعونوں کے مکتوبات پرنظر دوڑائیے۔ آپ کومچھراوراس کی تباہ کاریوں کاذکرضرورملے گا۔
مقصدیہ کہ جب سے انسان پیداہواہے، مچھراس کے ساتھ ساتھ انسان دشمنی میں کامیابی سے اپناکام کررہاہے اور مسلسل کرتاجارہاہے۔ مچھرکی طبعی عمرتوبہت کم ہے۔ یہی کوئی تین چار ہفتے۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق اس کے پاس "یادداشت"کی طاقت موجودہے۔
یہ طاقت اسے حددرجہ خوفناک بنادیتی ہے۔ اگرآپ نے ان کومارنے کے لیے ایک حربہ استعمال کیا ہے تو وہ اگلی بارحد درجہ محتاط ہوجائیں گے اوراس حربہ کوغیرموثرکرڈالیں گے۔ اکثرلوگ اس کاادراک نہیں رکھتے کہ مچھرایک ذہین دشمن ہے۔ وہ انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہرصورت بدلتا رہتا ہے۔
آپ انھیں مارتے جائیں۔ یہ پھراپنی تعدادغیرمعمولی حدتک بڑھاکر واپس حملہ کریں گے۔ کچھ سائنسدان تواس نتیجہ پربھی پہنچے ہیں کہ ایٹم بم پوری دنیاکوتباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی تقریباًچھ ارب افراد۔ اگرمجموعی طورپرپچھلے بیس سے پچیس ہزارسال کی تاریخ دیکھی جائے توصرف مچھراس سے زیادہ بندے مارچکا ہے۔ مگر اس کا قطعاًیہ مطلب نہیں کہ اس کی ہولناکیوں سے محفوظ نہیں رہا جاسکتا۔ موثرحفاظتی حکمتِ عملی سے ڈنگی کی یلغارسے اپنے آپکوسوفیصدمحفوظ رکھا جاسکتاہے۔ یہ تراکیب اب ہراخبار، میڈیا اور ڈاکٹر پوری قوم کوفراہم کررہے ہیں۔
اس وقت پوراملک ڈنگی مچھرکے شرمیں مبتلاہے۔ مصدقہ معلومات کے مطابق تقریباًدس ہزارافراداسپتالوں میں لائے گئے ہیں۔ ان میں پچیس سے چالیس اموات بھی ہوئی ہیں۔ ہم اپنے انتہائی عجیب وغریب وسائل کو بروئے کارلاکراس عذاب سے لڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ محدودوسائل کالفظ استعمال کرنے کودل نہیں چاہ رہا۔ کیونکہ میری نظرمیں پاکستان لامحدودوسائل رکھنے والاملک ہے۔
مگراس کی بدقسمتی صرف یہ ہے کہ وہ"گڈریا"نہیں مل سکا جو اسے بھیڑیوں سے محفوظ رکھ پائے۔ ہمیں درست سمت کی طرف لے جا پائے۔ ڈنگی اب صرف بیماری نہیں رہا۔ اس پربھرپورسیاست ہورہی ہے بلکہ کامیابی سے جاری ہے۔ چرب زبانی سے بتایاجارہاہے کہ سابقہ ادوارمیں توحکمرانوں نے کمال کردیا۔ ڈنگی مچھر پرہردروازے بندکردیے۔
تمام پاکستانیوں کومحفوظ کرڈالا۔ ہاں، اب کے حکمران توفارغ البال ہیں۔ ان میں توڈنگی سمیت کسی بھی آفت سے نپٹنے کی صلاحیت موجودہی نہیں ہے۔ اس بیماری سے لڑنے کے بجائے وزیرصحت اوروزیراعلیٰ دونوں تقسیم نظرآتے ہیں۔ کوئی طویل دورانیہ کی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی جوپاکستانیوں کو اس بلاسے محفوظ کرسکے۔ غیرمتعصب طریقے سے دیکھا جائے توسچ کہیں درمیان میں ہے۔ مگریہاں کمال یہ بھی ہے کہ ہمارے وزراء اعلیٰ اوروزراء اعظم کسی سطح پروہ ادارے ہی نہیں بناپائے جولوگوں کوان آفات سے دوررکھ پائیں۔ جب ڈنگی اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے توہمیں ہوش آتی ہے کہ یہ مسئلہ تواب حل کرنا ہے۔
اس سے پہلے ہم شعوری سطح پرکوئی بھرپور سرکاری کوشش نہیں کر پاتے۔ جس سے لوگ ڈنگی کے عذاب سے محفوظ رہیں۔ یہ بنیادی طورپرہماراخمیرہے کہ جب کوئی بلاہمیں نگلنے کی کوشش کرتی ہے تب ہم اس سے بچاؤکی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ میری نظرمیں تو گزشتہ بہتربرس سے عوام کو بھی کیڑے مکوڑوں میں تبدیل کردیاگیاہے۔ عجیب بے ترتیب ساسماج ہے۔ پتہ نہیں جنگل ہے یا سماج۔ مگرتاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ مچھرانسان کاازلی دشمن ہے۔ اس سے جنگ میں اکثرانسان ہارتا رہا ہے۔ چلیے، اُمیدکیجیے کہ شائد اب ہم جیت جائیں۔