ایک برس پہلے خان صاحب کی حکومت بالکل نئی آئی تھی۔ اکثریت سوچ رہی تھی کہ ملک کے دن بدل گئے ہیں۔ یہ بھی یقین تھا کہ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی، اتنا کثیر سرمایہ منتقل کرینگے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہوجائینگے۔ دل سے عرض کر رہاہوں کہ اس وقت ملک کی فضا میں ایک اعتماد اور مثبت تبدیلی کے مستند اشارے موجود تھے۔
انھی دنوں میں یورپ سے مجھے ایک پاکستانی دوست کا فون آیا۔ وہ ایک حیرت انگیز انسان ہے۔ انتہائی ذہین اور کاروبار کی ہر رگ کو سمجھنے والا آدمی۔ زندگی کے ایسے ایسے نشیب دیکھے کہ خدا کی پناہ۔ ساتھ ساتھ ایسی ایسی بلندیاں آئیں کہ انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے۔ نام نہیں لکھ سکتا۔ اسلیے کہ اجازت نہیں لی۔ اس شخص کی اپنی زندگی بھی ایک حیرت انگیز داستان ہے۔ اس پر کسی اور وقت لکھوں گا۔
فون پر بتایا کہ بیس پچیس سال بعد پاکستان آ رہا ہوں۔ دل چاہ رہا ہے کہ نئی حکومت معرضِ وجود میں آئی ہے۔ لہٰذا اپنے وطن جا کر کاروباری حالات کا جائزہ لوں۔ پھر کوشش کرونگا کہ اپنی دھرتی پر باہر سے پیسہ منگوا کر کاروبار میں لگاؤ۔ خیر دو ہفتہ بعد، میرا دوست لاہور آگیا، اہلیہ بھی ہمراہ تھیں۔ بڑی مہارت سے کاروباری حالات کا جائزہ لیتا رہا۔ تین چار دن کے بعد کہنے لگے کہ بڑی آسانی سے یہاں آٹھ سے دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کروا سکتا ہوں۔
صحت کا شعبہ اسے اس کام کے لیے پسند آیا۔ خیر واپس جانے کے بعد فون پر رابطہ رہا۔ اب اس نے چند معاشی ماہرین کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تاکہ ایک اعلیٰ سطح کی فیزیبلٹی رپورٹ بن سکے۔ ٹیم سے دو تین دن پہلے اسلام آباد آگیا۔ ایک دن بعد انتہائی پریشانی میں فون آیا کہ اس کے ساتھ جو ماہرین آئے تھے، انھیں ایئرپورٹ پر روک لیا گیا ہے اور تقریباً بیس گھنٹے سے وہاں موجود ہیں۔
معلوم ہوا کہ جس ملک سے ان کا تعلق تھا، اسے حکومت پاکستان نے "ویزہ آن اراول" یعنی ایئرپورٹ پر ویزہ دینے کی سہولت کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ وہ گورے اسی لسٹ کے مطابق پاکستان آگئے۔ خیال تھا کہ ایئرپورٹ پر ویزہ مل جائے گا۔ ہاں، پاکستان کے سفارت خانے نے بھی یہی بتایا تھا۔ جب اسلام آباد ائرپورٹ پر اُترے، تو انھیں پتہ چلا کہ ملکوں کی فہرست تبدیل ہو چکی ہے۔
ان کا ملک، اب اس فہرست میں شامل ہی نہیں ہے۔ اَزحد پریشان ہوگئے۔ میرے دوست نے جب مصیبت سے آگاہ کیا تو مل جل کر ان ماہرین کے لیے پاکستان کا تین دن کا ویزہ ایشو کروالیا گیا۔ گورے اس وقت تک بجھ چکے تھے۔ تین دن میں، ہمارے ملک میں جو دیکھ پائے، غور سے دیکھا اور پھر واپس چلے گئے۔ اپنے دوست کے پاس گیا تو کہنے لگا کہ یہاں حالات بہت حوصلہ افزاء ہیں۔
مگر یہ ماہرین مطلع کر کے گئے ہیں کہ کبھی واپس پاکستان نہیں آئینگے۔ خیر یہ پہلا جھٹکا تھا۔ سب برداشت کر گئے۔ اسی دن، رات کے کھانے کے بعد میرا دوست کہنے لگا کہ دنیا کے اکثر مالیاتی ادارے اور بینک، پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایک نایاب بات ہے۔ اس کا فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ یہ بھی کہنے لگا کہ ہو سکا تو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کرنی ہے۔
خیر ملاقات نہ ہو سکی۔ کیونکہ جس بھی سرکاری یاسیاسی معتمدخاص سے بات کی، اس نے باقاعدہ تفتیش شروع کر دی کہ یہ غیرملکی تاجر کون ہیں۔ کیا ہیں۔ وزیراعظم سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے معاملات کیا ہیں۔ جو شخص پاکستان میں آٹھ سے دس بلین ڈالرکی سرمایہ کاری لا رہا ہو، اسے تو "ریڈکارپٹ" ویلکم ملنا چاہیے تھا۔ بہرحال ایساکچھ نہیں ہوا۔ بتدریج محسوس کیا کہ میرا دوست کافی رنجیدہ ہو چکا ہے۔ بہرحال میں نے مقدور بھر ہمت بندھائی۔
وہ ایک دوبار لاہور، کراچی اور اسلام آباد آیا۔ ہر وقت رابطے میں رہتا تھا۔ مگر پھر ایک دم اس نے رابطہ اَزحد کم کر دیا۔ ایک دن فون پر انتہائی سنجیدگی سے کہنے لگا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بینکوں کی ترجیہات بدل چکی ہیں۔ اب وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے بہت گریزاں ہیں۔ میرے لیے یہ بات بہت پریشان کن تھی۔
یہاں تک کہنے لگا کہ دنیا کے طاقتور دارالحکومت فیصلہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی حالات جوں کے توں ہیں۔ کاروباری خوداعتمادی کی ازحد کمی ہے۔ لہٰذا یہاں سرمایہ کاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میرے لیے یہ ایک انتہائی فکر والی بات تھی۔ چھ ماہ پہلے کی منفی گفتگو اب حقیقت بن کر سامنے آچکی ہے۔ کوئی بیرونی سرمایہ کار یہاں آنے کو تیار نہیں۔ اس دن سے آج تک اپنے دوست سے بات ہوتی رہتی ہے۔ مگر اب وہ پاکستان کا نام تک نہیں لیتا۔ پہلے ارادہ تھا کہ لاہور میں ایک گھر خرید لے گا اور خاندان سمیت آتا جاتا رہے گا۔
مگر اب وہ اس بات کا ذکر تک نہیں کرتا۔ جس طرح اس کی نیک نیتی اور جذبہ حب الوطنی کا مقامی سطح پر مذاق اُڑایا گیا، اس کے بعد وہ اور اس کا خاندان پاکستان آنے کا خیال تک ذہن میں نہیں لاتا۔ مجھے حددرجہ دکھ ہے کہ ہم نے ایک ایسی سرمایہ کاری کو ملک میں آنے سے روک دیا، جس کے لیے وہ حضرات ہر طریقے سے تیار تھے۔ ہمارے بونے حکام کے پاس ان لوگوں سے ملاقات کا وقت تک نہیں تھا۔ مقامی افسران اور سیاستدان، صرف اپنا مالی فائدہ تلاش کر رہے تھے۔ میرا دوست اب اتنا اُکتا چکا ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ ہر ملک میں پیسہ لگانے کے لیے تیار ہے۔
اس واقعہ کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ مگر مجھے اس کی تمام تر جزئیات معلوم ہیں۔ مگر اب بات کرنا عبث ہے۔ اسلیے کہ اس شخص کے صنعتی گروپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان میں ہرگز ہرگز سرمایہ کاری نہیں کرنی۔ آٹھ دس بلین ڈالرکی سرمایہ کاری اگر ہمارے ملک کے کسی بھی شعبہ میں آجاتی تو یقینا مقامی حالات بہتر ہو جاتے۔
خیر بیرونی سرمایہ کاری اور ان بدقسمت پاکستانیوں کا ذکر رہنے دیجیے جو اپنے ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ مقامی صنعتوں اور تاجروں کے حالات دیکھئے۔ میرا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ فیصل آباد ٹیکسٹائل کا گڑھ ہے۔ ویسے اب کراچی، اس کام میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے کئی متمول تاجر میرے پرانے کلاس فیلو ہیں۔
ڈویژنل پبلک اسکول کے حوالے سے نصف صدی سے زیادہ کی دوستی ہے۔ جب بھی ان سے بات ہوتی ہے، پریشان نظر آتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک ہم جماعت بزنس مین نے اپنی سیکڑوں شٹرلس لومیں بند کر دی ہیں۔ ان کی تعداد تین سو ہے اور مالیت تقریباً پانچ ارب کے قریب ہے۔ اس طرح چھوٹی لوموں والے، ہزاروں کی تعداد میں پاورلومز بند کر چکے ہیں۔ لاہور میں ایک دوست سے بات ہوئی تو بتانے لگا کہ وہ تین ماہ سے کوئی پیسہ نہیں کما رہا۔
چنانچہ اب مزدوروں کی تنخواہ دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اپنا کارخانہ بند کر رہا ہے۔ امیر آدمیوں کی اکثریت، غیرملکی شہریت لے چکی ہے۔ ہمارے چند متمول حضرات بلغاریا تک منتقل ہونے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ ذاتی طور پر معیشت کی سدھ بدھ نہیں رکھتا۔ مگرجس تاجر سے بھی بات کرتا ہوں، وہ اپنے دکھڑے سنانے شروع کر دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں تھوڑا سا مبالغہ بھی ہو۔ مگر یہ تمام تر داستان گوئی تو نہیں ہے۔ اگر ایک تاجر مسلسل نقصان اور گھاٹے میں چلا گیا ہے تو اس کی چیخ وپکار جھوٹ پر مبنی نہیں ہو سکتی۔
ٹیکسٹائل کو تھوڑی دیر کے لیے رہنے دیجیے۔ رئیل اسٹیٹ کی طرف آئیے۔ پہلا لکھاری ہوں، جس نے تقریباً دس ماہ پہلے لکھا تھا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر برباد ہو رہا ہے۔ اس میں حددرجہ غیریقینی صورتحال ہے۔ اس پر حکومت خصوصی توجہ دے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والے کو چور، ڈاکو بنانے کی مکمل کوشش کی گئی۔ سرمایہ کار بھاگ گئے۔ جس قطعہ زمین کی قیمت مثال کے طور پر ایک روپیہ تھی، وہ آٹھ آنے میں بکنے لگی۔ لوگ، پلاٹ کی خرید و فروخت سے ڈر گئے۔
لاہور میں کسی پراپرٹی ڈیلر کو اعتماد میں لے کر پوچھیے، آپکو صاف صاف بتا دیگا کہ یہ سیکٹر مکمل طور پر سست روی کا شکار ہے۔ لاہور میں درجنوں نہیں، بلکہ سیکڑوں تعمیرشدہ گھر مہینوں سے کھڑے ہوئے ہیں مگر ان کا کوئی خریدار نہیں۔ کھربوں کی سرمایہ کاری رُل چکی ہے۔ آج بھی سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی، رئیل اسٹیٹ تھی اور ہے۔ مگر آج کی تاریخ تک اس سیکٹر کی اہمیت کو تسلیم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بلکہ اب تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ پراپرٹی ڈیلر اپنے ملازمین کی کانٹی چھانٹی کرنے میں مصروف ہیں۔
قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ معیشت کو Document نہ کیا جائے۔ تاجر حضرات یا کاروباری لوگ جس علت میں مشغول ہیں، اس کی تصحیح ہونی چاہیے۔ مگرسوال طریقہ کار پر ہے۔ اس پر سنجیدہ بحث ہونی چاہیے۔ سیاست سے بالاتر ہو کر فیصلے ہونے چاہئیں۔ یہاں تک عرض کرونگا کہ سیاسی جماعت سے وابستگی سے بالاتر ہو کر اہل ترین سیاستدانوں، ماہرین اور تاجروں کا ایک تھنک ٹینک بنانا چاہیے۔
جو کاروباری طبقے کی مشکلات کو سمجھتا ہو اور مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلہ سازی میں متحرک کردار ادا کرے۔ موجودہ معاشی صورتحال حددرجہ خوفناک ہوتی نظر آرہی ہے۔ نہ کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کاروبار۔ اس وقت سرمایہ کاروں اور حکومت کے درمیان بہت وسیع خلیج موجود ہے۔ اسے عبور کرنا تو دور کی بات، یہ خلیج ہمارے لیے زہرِقاتل بن سکتی ہے۔ حکومتی اکابرین کو چاہیے کہ ہر کام چھوڑیں، ملکی صنعت کاروں، کاروباری حضرات اور تاجروں کو ساتھ لے کر سب سے پہلے اعتماد کی فضا قائم کریں۔
مضبوط فیصلے کریں۔ ایسے فیصلے جو قوم کی سمت بہتر طرف لے جاسکتے ہوں۔ مگر اس وقت تو یہ اعتمادسازی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ معیشت کسی بھی ملک میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے۔ ہم ناتجربہ کاری، نااہلیت اور بلوغت سے عاری ہو کر، اس مرغی کو ہی ذبح کرنے کی بھرپور عملی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا انجام پورے ملک کے لیے کتنا عبرتناک ہو سکتا ہے، جس کا تصورکرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ مگر ہم تو مکمل طور پر بلکہ بیوقوفانہ حد تک بے خوف لوگ ہیں؟