شاہ صاحب نے بڑے آرام سے ہاتھ ملایا۔ ہاتھ میں فولادکی سختی تھی۔ سامنے والی کرسی پربیٹھ گئے۔ دائیں گال کے بالکل نیچے سفیدرنگ کی ٹیپ لگی ہوئی تھی۔ عام سی ٹیپ جوزخموں پرلگائی جاتی ہے۔ شناسائی کوتقریباًدوسال گزرچکے ہیں۔ جو اب بہت گہری دوستی میں بدل چکے ہیں۔ ساتھ ان کابھانجابھی تھا، جولندن میں زیرِتعلیم ہے۔ مگراپنے نانا سے محبت کی وجہ سے سال میں تین چاربارلندن سے لاہور ضرورآتاہے۔ شاہ صاحب بذاتِ خودایک وجیہہ انسان ہیں۔ ان کی عمراس وقت پچھترسال ہے۔ سات دہائیوں سے کچھ اوپر۔ اکثراوقات میرے دفترآتے رہتے ہیں۔
شروع شروع میں تعارف ہواتوایسے لگاکہ ایک وسیع المشرب انسان ہے جوزندگی سے بھرپورعشق کرتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ جب پہچان ہوئی توتاثرمکمل طورپربدل گیا۔ دراصل، ہم تمام لوگ اکثرایک دوسرے کوسمجھے اورجانے بغیر، صرف قیافہ کی بنیادپراپنے اندازے کویقین سمجھ لیتے ہیں۔ سطحی طورپرصرف معمولی سی جان پہچان پردوسرے شخص کی ایک ایسی ذہنی تصویربناڈالتے ہیں، جوبالکل درست نہیں ہوتی۔ اردگردلوگوں پرنظرڈالیے۔ اگرآپ واقعی زندہ ہیں اورصرف سانس نہیں لے رہے توان تمام لوگوں کے متعلق کوئی نہ کوئی ذہنی تصویرضروربنائی ہوگی۔
اس خاکہ کی بنیاد، ان شخصیات میں سے اکثریت کے متعلق صرف اور صرف معمولی سی شناسائی ہوتی ہے۔ ہم اصل انسان کو پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ چہروں سے مفرحاصل کرکے، دلوں میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ صرف سطحی سی دوستی، عامیانہ سی باتیںاوربس چندکھوکھلے قہقہے۔ میرے اور شاہ صاحب کے درمیان شروع میں یہی کچھ ہوا۔ اس شخص کو پہچاننے میں تھوڑی سی دیرلگ گئی۔ اندرسے ایک حیرت انگیز انسان برآمدہوا۔ ایک ایساشاندارشخص جسے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ ویسے اگرموقع نہ ملتا تو شائد میں بھی شاہ جی کونہ پہچان سکتا۔
چہرے پرلگی ہوئی سفیدٹیپ کے متعلق پوچھا تو اعتمادسے کہنے لگے، کہ مجھے چہرے کی ہڈیوں کاکینسرلاحق ہے۔ کیموتھراپی اورشعاعیں لگوانے کے بعدٹھیک تو ہوچکا ہوں۔ مگریہ زخم برقرار ہے۔ چھوٹا زخم۔ گھر سے باہرآتے ہوئے اس پرٹیپ لگالیتاہوں۔ ذہن میں ایک دم حیرت کے سیکڑوں گھوڑے ایک ساتھ دوڑنے لگے۔ کینسر، مگرشاہ جی، آپ تو بالکل صحت مندنظرآتے ہیں۔ کوئی بھی شخص دیکھ کریہ نہیں کہہ سکتاکہ آپ کبھی اتنی مہلک بیماری کا شکاررہے ہیں۔ کہنے لگے کہ میں کینسرسے بھرپورطریقے سے برہنہ پا لڑاہوں اوراسے بھرپورشکست دی ہے۔
چھ سال پہلے، شوکت خانم اسپتال میں علاج کرواتارہا۔ خودگاڑی چلا کرجاتا تھا۔ کیموتھراپی کے بعدخودواپس آتاتھا۔ کسی سے ذکرتک نہیں کیاکہ چہرے کی ہڈیوں کامہلک کینسر ہے۔ مگر، کیموتھراپی میں توبڑے بڑے ہمت والے لوگ، پریشان ہوجاتے ہیں۔ اولاد اور رشتے داروں کی مددمانگتے ہیں۔ آپ نے ایساکیوں نہیں کیا۔ یہ ایک سوال تھا، جس پرشاہ جی خاموش ہوگئے۔ ٹشوپیپر لیا اور چہرے پراپنے زخم پررکھ لیا۔ میں نے آگے بات کرنی مناسب نہیں سمجھی۔ ہم دونوں کافی پینے لگے۔ میں گرم بلیک کافی پی رہاتھااورشاہ جی مکمل طور پر ٹھنڈی کافی۔
چندہفتوں بعد، ان کے گھرگیاتوبھائی عتیق اور چند دیگر دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ بھائی عتیق کاذکرآگیا۔ ان پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ستربرس کا جوان جس نے پوری زندگی دوستوں کے لیے گزاردی۔ مخلص اورہرایک کے دکھ اور خوشی کو اپنانے والاآدمی۔ بھائی عتیق سے تعلق تقریباًنصف صدی پر محیط ہے۔ یہ ان چندلوگوں میں ہیں، جن سے مل کرانسان باغ وبہارہوجاتاہے۔ بہرحال شاہ جی اورعتیق سے باتیں ہوتی رہیں۔ کمرے میں دائیں جانب، دیوار پر ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ انتہائی وجیہہ انسان کی بلیک اینڈوائٹ تصویر۔ شاہ جی، بارباراس تصویرکوغورسے دیکھتے تھے اور پھر باتیں شروع کردیتے تھے۔ پوچھاکہ یہ نوجوان کون ہے۔ جواب انتہائی تکلیف دہ تھا۔ بیٹاہے۔ جواں سالی میں کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگیا۔
آج زندہ ہوتاتوزندگی قدرے بہترہوتی۔ شاہ جی کی آوازمیں غم کی لکیرتھی۔ اس گھر میں آنے سے پہلے مسلم ٹاؤن رہتاتھا۔ بہت بڑا گھر تھا۔ پھر یکے بعددیگرے، دو ایسے واقعات ہوئے کہ سب کچھ اُجڑ گیا۔ پہلے بیوی کا انتقال ہوا۔ گھرمیں سناٹاساہوگیا۔ اس کے بعد، بیٹا، ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگیا۔ گھرویران اوربرباد ہوگیا۔ گھراتنابڑا تھا کہ وحشت ہونے لگی۔ دفترسے گھر آتا تھا تودل منہ کوآتا تھا۔ لہذا، ڈیفنس میں ایک کنال کا گھر بنایا اور یہاں منتقل ہوگیا۔ یقین فرمائیے، میں مکمل طورپرخاموش ہوگیا۔ ایک انسان کی زندگی میں اتنے بڑے بڑے سانحے ہوجائیں اوروہ پھربھی بھرپور زندگی گزار رہا ہو۔ یہ ایک انتہائی غیرمعمولی اَمر ہے۔ ورنہ لوگ توصدمات کی بدولت، خودہی غم کے سمندرمیں ڈوب جاتے ہیں۔ پوری فانی زندگی، باہرنہیں نکل پاتے۔ مگر شاہ جی نے کمال طریقے سے اپنے دکھ پرقابو پایا ہوا ہے۔
لگتا ہے کہ غم کی کوئی پرچھائی تک پاس سے نہیں گزری۔ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ اہل خانہ کی قربتوں سے دائمی محرومی، کینسرجیسے موذی مرض سے کامیاب جنگ اورپھرتمام دوستوں کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنی۔ اس میں کوئی بھی عام چیزنہیں۔ خیر، تھوڑی دیر کے بعدواپس آگیا۔ صبح تک سوچتا رہا کہ شاہ جی، غیرمعمولی اعصاب کے مالک ہیں یاغم کی سرحد سے ہی باہرنکل گئے ہیں۔ خیر چندہفتے بعد میرے پاس آئے توٹریک سوٹ پہنا ہواتھا۔ پوچھاکہ شاہ جی، آپ ورزش کرتے ہیں اس عجیب آدمی نے ہنسناشروع کردیا۔ جواب حد درجہ غیرمعمولی تھا۔ کینسرسے پہلے، تقریباً میں تین گھنٹے ورزش کرتا تھا۔ کینسر ٹھیک ہونے کے بعد، دو گھنٹے۔ شاہ جی، لاہورجم خانہ کے ممبرہیں۔ وہاں ہفتہ میں پانچ سے چھ بار، دوگھنٹے بھرپور ورزش کرتے ہیں۔ لگتاہے کہ وہ پیدا ہی ورزش کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔
ان کی زندگی میں روزانہ کی ورزش بالکل سانس کی طرح ہے۔ شاہ جی کہنے لگے کہ اصل میں میری زندگی اور زندگی میں مصائب سے لڑنے کی اصل وجہ، ورزش ہے۔ خیرخداکی مددتوشامل حال ہے ہی۔ مگر جمنیزیم نے مجھے زندگی دوبارہ واپس کی ہے۔ دو گھنٹے بعد پسینہ سے شرابور، جب گھرواپس آتاہوں توایسے لگتاہے کہ نہ کبھی بیمار ہواتھا۔ نہ زندگی میں کبھی مہیب مسائل کا شکار رہا ہوں۔ پورے دن کی تھکن تو دورہوہی جاتی ہے مگرغم کی شدت، کافی مدت کے لیے بہت حد تک کم ہوجاتی ہے۔ شاہ جی کی باتیں سنکر ایسے لگاکہ وہ ایک پروفیسرہیں اورمیں زندگی کی کلاس کا ایک عام سا طالبعلم۔ دونوں میں ذہنی پختگی کا اَزحدفرق ہے۔ آج تک اس شخص کو اپنی تکالیف دوسروں کو بیان کرتے نہیں سنا۔ کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتاکہ اس شخص کے ساتھ کیا کیا آسمانی بلائیں موجود رہی ہیں۔
اپنے اردگردنظرڈالیے۔ آپکوہرطرح کے آدمی نظر آئیں گے۔ امیر، بہت امیر، غریب، متوسط طبقے کے لوگ۔ مگر ان میں سے نوے فیصدلوگ ہروقت، ہرطرح کاشکوہ کرتے نظر آئیں گے۔ چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی کواپنی مصیبتوں کا مورد الزام ٹھہراتے دکھائی دیں گے۔ لگے گا کہ دوسرے لوگوں نے ان کی زندگی روندڈالی ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست بھی ہوسکتی ہے۔ مگریہ سوفیصدٹھیک نہیں ہے۔ ایک شخص بتادیجیے۔ جسکی زندگی میں کوئی نہ کوئی مہیب مسئلہ نہ ہو۔ زندگی میں اس نے بھرپورمشکلات کاسامنانہ کیا ہو۔ یا اس پرکسی بیماری یاآفت نے حملہ نہ کیاہو۔ مگر اکثریت کا ردِعمل اتنامثبت نہیں ہوتا۔ جوشاہ جی کا ہے۔ کسی بوڑھے بیمار آدمی سے ملیے۔
آپکو الف سے یے تک اپنی بیماری یا بیماریوں کے متعلق ہرنکتہ بتائے گا۔ ایک آدھ گھنٹہ بعدآپکے کان پک جائیں گے۔ مگروہ شخص بازنہیں رہے گا۔ گفتگوکی بنیاد یہ ہے کہ وہ بزرگ شخص، اپنی بیماریوں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہارچکاہے۔ کئی لوگوں کو جانتا ہوں، جو معمولی سی دانشمندی سے اپنی صحت بہتر کرسکتے ہیں۔ مگرحرام ہے کہ وہ کبھی واک کرنے کی کوشش کریں۔ ورزش کریں۔ کوئی جم جوائن کرلیں۔
ہاں، بیماری کے علاج کے لیے بہترین اور مہنگے ترین ڈاکٹرکی تلاش میں رہیں گے۔ صحت کے معاملات کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ زندگی کے نشیب وفرازکس پرطاری نہیں ہوتے۔ زندگی تونام ہی تغیر کا ہے۔ اگرسرکاری نوکری میں ہیں تو کبھی اچھی پوسٹنگ اورکبھی درمیانی سی تعیناتی۔ اگر کاروبار کررہے ہیں توکبھی بھرپور منافع اورکبھی گھاٹا۔ اگر پرائیویٹ نوکری کر رہے ہیں جوکبھی سختی اور کبھی آسائش۔ انسان کوخدانے بنایا ہی اس طرح ہے کہ اس نے ہرموسم اور ہرتکلیف سے گزرنا ہے۔ مگرفرق کیاہے۔ نکتہ کیا ہے۔
دراصل لوگوں کی کثیر تعداد، مسائل کوحل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی۔ انکاردِعمل اتنا معمولی ساہوتاہے کہ معمولی سی مصیبت، ان کو بلا بن کر کھا جاتی ہے۔ وہ سکت ہی نہیں رکھتے کہ ذہن کومضبوط کریں۔ مشکلات سے نکلنے کی حکمتِ عملی ترتیب دیں۔
بھرپور طریقے سے مصائب کوسینگوں سے پکڑیں اورجرات سے زندہ رہنے کی کوشش کریں۔ ہمارے ہاں، ہرآدمی اپنے اپنے گرداب میں ڈوباہوانظرآئے گا۔ تاثر دیگا کہ اس سے مظلوم انسان، کرہِ اَرض پرموجودنہیں ہے۔ مگر خدانخواستہ اسے یہ کہہ دیں کہ اس مشکل کاحل توخودآپ کے پاس موجودہے توناراض ہوجائیں گے۔ فرمائیں گے کہ ہماری تکلیف کاآپ کو کیا اندازہ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ سے ان کا تعلق خراب ہوجائے۔ ملناتک چھوڑ دیں۔ مگراصل بات یہی ہے کہ اکثریت اپنی مشکلات کو اَزخود حل کرنے کی کوشش بالکل نہیں کرتی۔ شکوہ، شکایت کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ مگرکبھی یہ نہیں کہتے، کہ اس مشکل کووہ خود، کیسے حل کرسکتے ہیں۔ اپنی تکلیف کو خود کیسے کم کرسکتے ہیں۔
کوئی نظام کوکوسے گا۔ کوئی ملک میں غیر معمولی ادنیٰ حالات کو مورد الزام ٹھہرائے گا۔ کوئی خاندانی نظام کے بربادہونے کی بات کرے گا۔ کوئی دنیاکی بے ثباتی کی شکایت کریگا۔ مگر کوئی بھی یہ نہیں کہے گاکہ مشکل حالات میں کیسے اپنے آپ کو بہتر کیا جائے۔ اپنے اندر وہ ارادہ اور قوت پیدا کرے، جس سے معاملات بہتری کی طرف جا سکیں۔ کیسے قوت ارادی کو مضبوط کرکے دکھوں کوعزم کی تلوار سے تہہ تیغ کرپائے۔ شاہ جی نے کم ازکم اپنی تمام مصیبتوں سے نبردآزما ہونے کی بھرپورحکمتِ عملی بنائی، اس پرعمل کیااورآج وہ خوش وخرم انسان ہے۔ زندگی سے بھرپوربوڑھا، نوجوان!