زندگی دراصل ہے کیا۔ یہ حقیقت ہے یا سراب۔ ابتداء کیاہے۔ اس کی کوئی انتہاہے بھی کہ نہیں۔ اگریہ خواب ہے توپھرموت کیا ہے؟ موت واقعی زندگی کے ختم ہونے کاایک نکتہ ہے یایہ کسی اورنگرمیں کوچ کرنے کا آغاز۔ موت، زندگی ہے یاحیات، موت کادوسرارخ ہے۔ یہ سب کچھ کیاہے۔ انسان کا کائنات سے کیاتعلق ہے۔ ہم ساکت ہیں یا کائنات۔ کون متحرک ہے اورجامد کون۔ کیاسب کچھ حرکت کر رہاہے یاسب کچھ منجمدہے۔ اگر سب کچھ دائرے میں گھراہواہے توپھریہ دائرہ کیاہے۔ اس دائرہ کوکیسے عبورکیاجاسکتاہے۔ کیاسانس لیتاہوا انسان، اس نظر نہ آنے والے دائرے کااسیرہے یایہ دائرہ اس کی ذہنی طاقت کے سامنے بے بس ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے۔ میرے مالک۔ یہ سب کچھ کیوں ہے۔
کیاروح بدن کامرکزہے۔ یاجسم، روح کوسنبھال کر رکھتاہے۔ ان دونوں کادراصل باہمی تعلق کیاہے۔ کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔ کہیںیہ ایک دوسرے کی ضدتو نہیں ہیں۔ روح کوسمجھنا، انسانی عقل سے بالاترہے یااسکا ادراک ہوسکتاہے۔ کیاروح کوجاننے اورپہچاننے کی کوئی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ یاہمارے لیے ایک پَل کا خواب ہے۔ کیاروح، انسانی جسم اورشعورکوبالادستی عطا کرتی ہے۔ یایہ معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ کیاانکاکوئی باہمی تعلق ہونابھی چاہیے یا نہیں۔ ہم دنیامیں آمدسے پہلے کہاں تھے۔ ہمیں وہ مرحلہ یاد کیوں نہیں ہے۔ یاداشت اتنی محدودترکیوں ہے۔
یاداشت کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ کیادنیامیں واردہونے سے پہلے ہم کسی اوردنیاکے مسافر یامکین تھے۔ ہم سب اجتماعی طورپرمرکزسے دورتھے یامرکزکوہم سے قصداً دوررکھاگیاتھا۔ کیازندہ ہونے سے پہلے، ہم وقت کی قیدمیں تھے یاوقت ہمارے سامنے تھا۔ وقت کی اصل حقیقت کیاہے۔ کیا وقت بذاتِ خود اتنا طاقتورہے کہ زمانے کوتبدیل کردے۔ اگرزمانہ اہم ہے تو پھروقت کی کیاحقیقت ہے۔ وقت ہے بھی کہ نہیں۔ یایہ انسان نے خودپیداکیاہے۔ انسان وقت پرحاوی ہے یا وقت۔ ہزارہاسال سے چلنے والایہ گورکھ دھندادراصل کس چیزکانام ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمیں اس اُلجھاؤ کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔ یایہ اُلجھاؤہے ہی اسی لیے کہ اسے سلجھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیایہ سب کچھ ہماری عقل سے باہرہے۔ یایہ سب کچھ عقل کے اس حصہ میں مقیدہے، جسکے متعلق ہم نہیں جانتے۔ کیاانسانی دماغ واقعی اس گھمبیرگُھتی کوسلجھاسکتاہے۔ یایہ سب کچھ بنایاہی اسی لیے کہ اسے سلجھانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ میرے مالک، یہ سب کچھ کیاہے؟
جسم پرگھاؤآتاہے، خون رستاہے، توکیاروح بھی گھائل ہوتی ہے۔ روح کاجسم سے کس طرح کا تعلق ہے۔ یہ غالب ہے یامغلوب۔ یایہ دونوں کیفیتوں سے مبراہے۔ جسم کاعلاج، روح کی کنجی میں ہے یاروح، جسم کے ساتھ گزاراکررہی ہے۔ یہ انسانی بدن کیوں چھوڑ دیتی ہے۔ کیایہ ماجرا تونہیں کہ روح دراصل جسم کی ضد ہے۔ اس سے نفرت کرتی ہے۔ نفرت نہیں تو شائد انسیت نہیں رکھتی۔ مگرروح اورجسم کے مابین توازن کون پیدا کرتا ہے۔ یہ ہوتا کیونکر ہے۔ کیااس توازن کی کسی قسم کی کوئی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ اگریہ رازہے، توکیوں ہے۔ اس کوکون، ہمارے سامنے کھول کررکھے گا۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسی استطاعت ہے کہ ہم اس روح اور جسم کے توازن کو آشکار کرسکیں۔
کیاجوکچھ ہمیں نظرآرہاہے۔ وہ اصل ہے یاکسی اور دنیاکی نقل ہے۔ اصل اورنقل اپنی حیثیت میں دراصل ہیں کیا۔ ہمارے دیکھنے کی قوت اگراتنی محدودہے توپھراسے لامحدودکیسے کیاجاسکتاہے۔ قوتِ بصارت قطعی ہے یا مفروضہ۔ کیایہ تونہیں کہ ہمیں کچھ بھی دیکھنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ یہ اجازت کیونکرملتی ہے۔ کون دیتاہے۔ دیتا بھی ہے یاسب کچھ محض اتفاق ہے۔ جوکچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ کہیں صرف اورصرف نظرکادھوکا تونہیں۔ اگریہ دھوکا ہے تواسے حقیقت میں کیسے بدلا جاسکتا ہے۔ حقیقت کے بذاتِ خودکچھ معنی ہیں یایہ بھی بے حقیقت ہے۔ کہیںیہ تو نہیںکہ حقیقت کاکوئی وجودہی نہیںہے۔ پھریہ موجود کیا ہے۔ کیایہ تونہیں کہ اصل مقصدہی ناموجودگی ہے۔ وجودکا ہوناکوئی معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ اصل سچ تو ناموجود ہونا ہے۔ پر ناموجودکوپہچانناکیسے ممکن ہے۔ کیا قدرت کے اُصولوں میں ناموجودہی اصل چیز ہے۔
وجود اوربے وجود، کیاایک ہی تو نہیں۔ یہ تونہیں کہ بے وجود ہونا، حددرجہ اہم ہے۔ مگرکس کے لیے۔ کیازندگی کے لیے، یا لامحدودحیات کے لیے۔ وقت خودگردش میں ہے یاگرفت میں۔ یہ سمندرہے یاصرف ایک ندی۔ ایک لہریا شائد ایک معمولی ساتالاب۔ وقت کے پیچھے کون ہے۔ کیا وقت کی طاقت کوفتح کیاجاسکتاہے۔ کیااسے خاموش کیا جا سکتاہے۔ کیاوقت کی گھاٹی کوعبورکیا جاسکتا ہے۔ یہ گھاٹی ہزاروں سال پرانی ہے، یالاکھوں برس، یا کروڑوں سال۔ اس گھاٹی کی گہرائی کتنی ہے۔ اس پرپُل ہے بھی کہ نہیں۔ پُل کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ کہیںایسے تونہیں کہ انسانی روح، وقت کی گھاٹی کاپُل ہے۔ اگریہ پُل ہے، راستہ ہے۔ توپھرہمیں کس طرف لیجایاجارہاہے۔ سمت واقعی راز ہے یایہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کہیں یہ تونہیں، کہ سمت مکمل طور پربے معنی ہے۔ اس کاوجودہی نہیں ہے۔ کیا وقت انسانی قافلہ کی رہنمائی کررہا ہے۔ یا یہ قافلہ کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے چل رہاہے۔ کیا یہ تونہیں کہ وقت ساکت ہے اور انسانی قافلہ حرکت میں ہے۔ یادونوں ساکت ہیں۔ یا دونوں حرکت میں ہیں۔ ان میں سے کون ہے جسکی رفتار تیزہے۔ رفتارکے معنی کیاہیں۔ کیاایساتونہیں کہ رفتار دراصل ساکت رہنے کاایک دوسرانام ہے۔
زمانہ کس چیزکانام ہے۔ ہم زمانے میں رہتے ہیں یا زمانہ ہمارے اندر ہے۔ مقیدہے۔ جسے ہم زمانہ قراردے رہے ہیں، وہ صرف اورصرف فریبِ نظر ہے۔ اگر ایسا ہے توپھرہم سب کہاں رہ رہے ہیں۔ کس دورمیں ہیں۔ کیا زمانہ ہمیں آگے کی طرف لیجا رہاہے۔ یہ تونہیں کہ انسان اسے اپنے ساتھ پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دوراورزمانہ میں فرق کیا ہے۔ کیایہ بدلتے ہیں یا بالکل منجمدرہتے ہیں۔ اگریہ حرکت میں نہیں ہے توپھراسے کس طرح متحرک کیا جاسکتا ہے۔ کہیں یہ تونہیں کہ وقت، زمانہ، دور، سب کچھ ایک ہی ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔ پھررات کیاہے اوردن کاکیامطلب ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جسے ہم روشن دن گردانتے ہیں، وہ صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور تاریکی دراصل بصیرت کی وہ آنکھ کھولتی ہے، جس کے سامنے ہرچیزسرنگوں ہوجاتی ہے۔ بصیرت کو روشنی کی ضرورت ہے یااندھیرے کی۔ صرف شعورکی آنکھ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پھرشعورمحترم ہے یا لاشعور۔
ہم جوکچھ سن رہے ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے۔ کیا جوہم نہیں سن پارہے۔ وہ اہم ترہے یااس کا متضاد۔ قوت ِ سماعت ہمیں کیا سنانا چاہتی ہے۔ کیا یہ تونہیں، کہ وہ ہمیں کچھ بھی سنانے پرقادرنہیں۔ ہمیں وہی سنایا جاتا ہے، جوہم سننا چاہتے ہیں۔ پھرقوتِ سماعت کی اہمیت کیا ہے۔ جو کچھ نہیں سن رہے، اس کاادراک کیسے ہوگا۔ کیونکر ہوگا۔ کیا اس کا ادراک ہونابھی چاہیے یا نہیں۔ اگرنہیں، توکیوں نہیں۔ اور اگرہم ادراک سے محروم ہیں توکیوں ہیں۔ زندگی اورموت میں محدود سے لامحدودکاسفرکرتے ہیں۔ یا دراصل لامحدود کچھ بھی نہیں ہے۔ محدوداورلامحدوددونوں ایک ہیں۔ یا شائد ان دونوں کاوجودہی نہیں ہے۔ تمام عناصرِقدرت غیرحقیقی ہیں۔ سب کچھ۔ میرے مالک، یہ سب کچھ کیاہے۔ میرے مالک، یہ سب کچھ کیوں ہے۔ بالاخر ایساسب کیونکر ہے!