2018کا الیکشن جولائی میں ہوا تھا۔ حد درجہ گرمی اور حبس والا دن۔ میرا ووٹ لائل پور میں درج تھا۔ آج بھی وہیں ہے۔ وجہ صرف یہ کہ اپنے آبائی شہر سے کسی صورت تعلق نہیں توڑ سکتا۔ فیصل آباد سے نکلے ہوئے دہائیاں بیت چکی ہیں، مگر کسی اور شہر سے وہ وابستگی بن ہی نہیں پائی جو اس قصبہ سے قائم ہے۔
ووٹ ڈالنے کے لیے لاہور سے پولنگ اسٹیشن پہنچا۔ گرین ٹاؤن جسے پرانے لوگ راجہ والا کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں ووٹ درج تھا۔ واحد وجہ صرف یہ تھی کہ والدین نے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں ایک سادہ سا گھر تعمیر کیا تھا۔ چھوٹا بیٹا حمزہ باہر سے آیا ہوا تھا۔ ہم دونوں قطار میں کھڑے ہو گئے۔ قطار حد درجہ لمبی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد ہم دونوں اپنا اپنا ووٹ ڈال پائے۔ شدید گرمی میں حد درجہ تھکا دینے والا کام تھا۔ پسینہ سے شرابور جب گاڑی کی طرف جانے لگا تو آج کل کی حکومتی جماعت کے ایم این اے کے امیدوار سے رسمی سی ملاقات بھی ہو گئی۔
اسے یقین تھاکہ بڑے آرام سے جیت جائے گا۔ ایم این اے سے اس لیے بھی واقف تھا اور ہوں کہ دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھتے رہے تھے۔ خیر ملنا جلنا کافی حد تک محدود رہا ہے۔ ہاں ایک اور بات صوبائی اسمبلی کے جس صاحب کو ووٹ ڈالا، نہ اسے جانتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی واقفیت تھی۔
حد درجہ گرم موسم میں ووٹ ڈال کر سیدھا واپس لاہو ر آ گیا۔ جسے اب میں کنکریٹ اور آبادی کا سیلاب سمجھتا ہوں۔ قومی اسمبلی کے جس امیدوار کو ووٹ ڈالا، وہ توقع کے مطابق جیت گیا۔ حق رائے دہی استعمال کرنے والے دن سے لے کر آج تک پھر کبھی اس سے بات نہیں ہوئی۔ شاید ہم دونوں میں کوئی ایسی قدر مشترک ہی نہیں رہی کہ گفتگو کی گنجائش ہو۔ دو ڈھائی برس پہلے اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ موصوف جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہو چکے ہیں۔
حکمران قیادت کے اسٹاف کے روئیے نے ان کے ہر خیر خواہ اور دوست کو دشمن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ جس ایم این اے کو میں نے ووٹ ڈالا تھا۔ وہ بھی ترین گروپ میں صرف اس لیے گیا کہ اس کو ہر کام میں رکاوٹ مل رہی تھی۔ خیر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ بڑی پارٹیوں میں گروہ بندی چلتی رہتی ہے۔ ایک برس پہلے، فیصل آباد سے ایک معتبر سیاسی صاحب ملنے کے لیے گھر تشریف لائے۔ تو انھوں نے عجیب بات بتائی۔ وزیراعظم سرکاری دورہ پر لائل پور آئے۔
تمام عوامی نمایندوں سے ملاقات ہوئی۔ مگر اس مخصوص ایم این اے کو شرف ملاقات نہ مل پایا۔ یہ عمل ایم این اے کو پسند نہ آیا۔ خیر سیاسی معاملہ تھا۔ کہیں بات نہیں کی۔ ویسے اس حکومت میں ذاتی طور پر بھی شدید ناانصافی کا شکار رہا ہو۔ آج تک کسی سے گلہ نہیں کیا۔ حالانکہ بخوبی جانتا ہوں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا تھا۔
دس بارہ ماہ سے معلوم تھا کہ متعدد ایسے ایم این اے ہیں جنھیں دربار سے نکال دیا گیا ہے اور ایک سیاسی لاوہ اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ صوبہ پنجاب میں صورتحال قدرے بہتر رہی۔ جس کو وزیراعلیٰ سے گلہ تھا، وہ گورنر سے مل کر بات کر لیتا تھا۔ جو دونوں سے ناخوش ہوتا، وہ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کے پاس چلا جاتا۔ یہاں کے معاملات اچھے یا برے، بہرحال، مرکز سے قدرے بہتر چل رہے تھے۔ سیاست میں حکمران کی کسی بھی کمزوری کا بھرپور فائدہ اپوزیشن ضرور اٹھاتی ہے۔ اور اٹھانا بھی چاہیے۔ یہی ہماری سیاست ہے۔ اچھی یا بری، یہاں تو یہی کچھ ہی ہے۔
بعینہ یہی کچھ علیم خان کے ساتھ ہوا۔ ان کو عہدہ تو دے دیا گیا۔ مگر جزئیات پر کوئی غور نہیں ہوا۔ معاملہ یہ کہ وزیراعلیٰ کے بعد سب سے طاقتور عہدے پر فائز رہنے کے باوجود، ان کے معاملات بہتر طریقے سے حل نہیں کیے گئے۔ پھر جس نے پنجاب میں وزیراعلیٰ بننے کی معمولی سی بھی جستجو کی، اس کی تضحیک کی گئی۔ درون خانہ سب جانتے تھے کہ کس کے حکم پر یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ کئی سیاست دانوں نے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے ہیں کہ ان کو پابند سلاسل کرنے کا اصل حکم بذات خود سویلین بااختیارترین سیاست دان نے صادر کیا تھا۔
انھوں نے برملا شکایت کی کہ یہ ظلم بے جا ہے اور اس میں زیادتی ہو رہی ہے۔ پر دربار تک ان کی آواز نہیں پہنچی یا نہیں پہنچائی گئی۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بتایا گیا ہو مگر اسے نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ علیم خان اور جہانگیر ترین نے جس طرح خان صاحب کو احترام دیا، مالی وسائل مہیا کیے، وہ یک دم فراموش ہو گئے۔ اہم ترین کار سرکار، ان کے ذمے لگا دیے گئے جو کونسلر کا الیکشن تک نہیں جیت سکتے۔ مگر چرب زبانی کی بدولت وہی معتبر ٹھہرائے گئے۔ انھوں نے حکمران قیادت کو اس طرح شیشے میں اتارا کہ ہر طرف امن اور شانتی نظر آنی شروع ہو گئی۔
ایک سینیئر بیورو کریٹ نے بتایا کہ اصل کام کسی بھی وزیراعظم کو ائر کنڈیشن ٹرین کے اس ڈبے میں بٹھانا ہوتا ہے، جس کے شیشے سبز رنگ کے ہوں۔ اگر آپ اندر ٹھنڈے ماحول میں بیٹھے ہوں، تو باہر کی بنجر زمین پر بھی ہریالی ہی ہریالی دکھائی دے گی۔ خان صاحب بھی بہت جلدی ہی ٹرین کے اس ڈبے میں سوار ہو گئے جس سے باہر دیکھنے پر ہر طرف بادلوں کی ٹھنڈک اور خوبصورتی نظر آتی ہے۔ عام لوگوں کے مسائل اور ان کے غم بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ سینئر بابوؤں نے ایسے ایسے قصے سنائے کہ ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔
مگر شاید اب ماتم کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ خان صاحب اپنے رویہ کو اپنا ہنر سمجھتے رہے۔ ہوا یہی کہ سنجیدہ لوگ ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس وقت سیاسی طور پر وہ مکمل طور پر تنہا ہیں۔ یہ بات انھیں معلوم ہو چکی ہے۔ مگر اب تو شام ہونے کو ہے۔ اگر سمجھ آ بھی گئی ہے تو بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ مشیران خاص اب اپنی اپنی جان بچانے میں مصروف کار ہیں۔
ہرجانب معافی کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔ وہ ہیڈ بابو جس نے پورے ملکی نظام میں تلخیاں بڑھائیں، سنا ہے وہ بیرون ملک جانے کے درپے ہے۔ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ تصادم اور بے یقینی سرخ لکیر سے باہر نکل رہی ہے۔ خلق خدا پریشان ہے۔
اور شعور رکھنے والے افراد حیران ہیں کہ معاملہ کس طور بہتر ہو پائے گا۔ مگر آج بھی دربار سے اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہو رہا، جو ایک حکمران کا وطیرہ ہوتا ہے۔ منفی سیاسی بیانات کی بھرمار، مارکٹائی اور پکڑ لونگا، مار دونگا، دیکھ لونگا، یہ جملے آج بھی جلسوں کی زینت بن رہے ہیں۔ لوگوں میں وقتی طور پر باتیں بنانے کا باعث تو یہ جملے بن جاتے ہیں۔ مگر کشیدگی میں ناقابل برداشت اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ عمل حد درجہ غیر دانشمندی سے روز بروز فروغ پا رہا ہے۔ عقل اور دلیل کی بات کرنے والے افراد دربار میں کونے کی کرسیوں پر موجود ہیں۔ وہ اب خاموشی سے تماشا دیکھنے کے سوا کچھ اور نہیں کر پا رہے۔
عرض صرف یہ ہے کہ خان صاحب کے سیاسی مخالفین نے ان کی لغزشوں سے کمال فائدہ اٹھایا ہے۔ انھوں نے اپنے تمام سیاسی گناہ معاف کروا کر دوبارہ تخت پرقبضہ کرنے کی یلغار شروع کر دی ہے۔ پر یہ تو سب کچھ ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے۔ خان صاحب نے اپنے دوستوں کوہر ممکنہ حد تک اپنے خلاف کر ڈالا ہے۔ جو مالی استطاعت رکھتے تھے اور خان صاحب کے ایک اشارے پر تجوریوں کے مونہہ کھول دیتے تھے، سب پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ اب سندھ ہاؤس میں بیس بائیس باغی ممبران کے رہنے کا چرچہ ہے۔ میڈیا پر ان کے بیانات ہر دم غالب نظر آ رہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد میں اگریہ ممبران، خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں تو حکومت اسی دن گر جائے گی۔ شاید خان صاحب کو بھی ادراک ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے مزاج میں مزید تلخی آتی جا رہی ہے۔ جس ممبر کو طالب علم نے ووٹ ڈالا تھا، وہ بھی حکومت سے نکل چکا ہے۔ پارٹی بھی چھوڑ چکاہے۔ خان صاحب رہتے ہیں یا نہیں۔ اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف یہ سوال کر رہا ہوں، کہ میرا ووٹ کدھر گیا؟ شاید ذاتی نفرتوں اور سیاسی مجبوریوں کے سیلاب میں یورش آلام کا شکار ہوچکا ہے۔ مجھے تو اپنے ووٹ کی بے توقیری پر شدید دکھ ہے!