چند مہینوں سے میر کو پڑھ رہا ہوں۔ بخدا، کمال شاعری۔ عرصہ دراز پہلے کلیات میر خریدے تھے۔ اسٹڈی کے کونے میں رکھے رہے۔ سات آٹھ ماہ سے کلیات بلکہ اس محیرالعقول مجموعہ کو غور سے پڑھنا شروع کیا۔ میر تقی میرکی زبان پر گرفت آفاقی ہے۔
لفظ، سطریں، سخت سے سخت شاعری کی زمین، میر کے قلم کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اردو زبان میں میر کی سطح کے شاعر حد درجہ نایاب ہیں۔ پھر جو کیفیت میر کی شاعری میں گندھی ہوئی ہے، وہ کسی دوسرے شاعر کے کلام میں محسوس نہیں ہوتی۔ کمال بات یہ بھی ہے، کہ میر اپنی پوری زندگی صرف اور صرف لفظوں کے بادشاہ ہی رہے۔
زندگی کے دوسرے معمولات سے ان کا تعلق کم ہی نظر آتا ہے۔ دراصل یہ انسانی نسل کے زرخیر ترین ذہن والے افراد ہیں جو کسی بھی خطہ میں کم ہی ودیعت ہوتے ہیں۔ قانون قدرت اس لحاظ سے حد درجہ سیدھا ہے۔ انسانی دماغ کے اوج ثریاوالے لوگ معرض وجود میں بہت احتیاط سے ہی آتے ہیں۔ کئی بار تو ان کے درمیان سیکڑوں برس کا فرق ہوتا ہے۔
جیسے صدیوں پہلے، ہندوستان میں میر پیدا ہوئے۔ اور اس کے بعد ان کی سطح کی کوئی دیگر شخصیت حقیقت میں نظر نہیں آتی۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو دوسرے سے موازنہ کرنا حد درجہ ناممکن ہے۔ عظیم لوگ، کسی بھی شعبہ میں ہوں۔ ان کے کام کو کسی دوسرے کے مقابل رکھنا بہت نادانی والی بات ہے۔ ہر بڑے تخلیق کار کا اپنا مقام ہوتا ہے۔
بہت ہی محدود لوگ، ایک ایسا مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ جس پر کسی دوسرے کو فائز کرنا خام حرکت نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر، بت تراشی میں جو مقام، مائیکل انجیلو نے حاصل کیا۔ اس پر کچھ بھی کہنا عبث ہے۔
اٹلی میں ویٹی کن جانے کااتفاق ہوا۔ مائیکل انجیلوکے تراشے ہوئے بت، انسان کو بذات خود ساکت کر دیتے ہیں۔ اس عظیم تخلیق کا ر کا کہنا تھا کہ انسانی اجسام، پتھر میں پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں۔ وہ تو صرف ان کو باہر نکالتا ہے۔ جو بھی فنکار اپنے کام میں لاثانی ہو تا ہے وہ ایسے منصب پر فائز ہوتا ہے، جہاں ہر عام یا خاص کی پہنچ نہیں ہوتی۔ یہی درجہ، اردو شاعری میں میر تقی میر کا ہے۔ ویسے انھیں اردو زبان میں"خدائے سخن" بھی کہا جاتا ہے۔
اگر میر کی شاعری میں غم، درد، دکھ اور تکلیف کی بنیاد تلاش کرنی ہے تو اس کی زندگی پر نظر ڈالنی چاہیے۔ کوئی ایسا دنیاوی ظلم نہیں جو میر نے نہ سہا ہو۔ میر کی ذوق شاعری کو اوائل عمری سے ہی بھانپ لیا گیا تھا۔ چنانچہ مختلف اوقات میں بزرگوں اور درویشوں نے میر کے عظیم سخن ور بننے کے متعلق بھرپور ذکر کیا ہے۔
خواجہ ناصر عندلیب نے خود میر صاحب سے فرمایا تھا۔ کہ "اے میر تو میر مجلس خواہی شد"۔
ایک باخدا کی تعلیم و تربیت اور متفرق درویشوں کے فیض صحبت نے ان کے دل میں سوزوگداز بھر دیا تھا۔ غیب سے یہ سامان ہوا کہ میر صاحب کی ایک شخص سید سعادت علی امروہوی سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے شعر ریختہ کہنے کی ترغیب دی اور میر صاحب مشق سخن کرنے لگے۔ اور چند روز میں شعرائے دہلی ان کو نہ صرف خوش گو بلکہ مستند ماننے لگے۔
میر صاحب کی زندگی کا انقلابی دور تو اس وقت شروع ہوا تھا جب کہ ان کے والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اور وہ ایک حد تک بے یارو مددگار رہ گئے تھے۔ مگر اس مصاحبت کی ملازمت کو بھی دورنگی زمانہ کا سنگ بنیاد کہہ دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔
یہیں سے انھیں زمانہ ٔ بوقلموں کے وہ وہ رنگ اور وہ سرد و گرم دیکھنے پڑے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے ان کے دل پر ایسا نقش عبرت بٹھا دیاجس سے زندگی اور زندگی کے عروج ہ مدارج اور عیش و عشرت کی ان کی نگاہ میں ہوا کے جھونکوں اور بچوں کے گھروندوں سے زیادہ وقعت نہیں رہی۔ درویشوں اورخدا پرستوں کی تربیت سے دل پہلے ہی گداز تھا۔ ان چیزوں نے اور بھی موم بنا دیا۔
وہی آج ہیں کہ محفل امرا میں میر مجلس ہیں۔ جملہ اسباب طرب اور سامان راحت کے مالک ہیں۔ وہی دوسرے دن ہیں کہ نان شبینہ کو محتاج ہیں نہ کوئی دوست بنے نہ پرسان حال۔ دہلی جو مدتوں سے امن و امان کا گہوارہ بنی ہوئی تھی۔ روز کی خانہ جنگیوں اور طوائف الملوکی سے مرکز گردش وانقلاب ہوگئی۔ ؎
چور اچکے سکھ مرہٹے شاہ و گدا سب خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے یہاں
غرض یہ کہ سکون اور راحت و عیش تو درکنار، زندگیوں، آبروؤں کے لالے پڑ گئے۔ میر، اس قدر انا پرست تھے کہ اپنی حد درجہ مفلسی کے باوجود کسی بھی عامی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے تھے۔ بڑے بڑے نوابین تک کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ان کے نزدیک ان کی ذاتی قدر و منزلت سب سے بڑھ کر تھی۔
نواب آصف الدولہ کے انتقال کے بعد بھی یہ دربار سے وابستہ تو رہے مگر صحبت درگیر نہ ہونے کے باعث دربار کا آنا جانا بند تھا۔ ایک روز نواب سعادت علی خاں کی سواری چوک میں تحسین کی مسجدکے سامنے سے گزری۔ عوام و خواص تعظیماً سروقد کھڑے ہو گئے۔ مگر میر صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے جیسے بیٹھے تھے بیٹھے رہے۔
انشاء ساتھ تھے انھوں نے بتایا کہ یہ میر تھے۔ نواب کے حسن اخلاق کو دیکھیے کہ انھوں نے جاتے ہی میر صاحب کے لیے خلعت بحالی اور ایک ہزار روپیہ نقد روانہ کیا۔ مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کیا گیا۔ اور یہی وجہ ہوئی کہ میر صاحب نے اس کو واپس کر دیا۔ مگر بعد کو میر انشاء اللہ خاں انشاء گئے میر صاحب کو سمجھایا بھجایا۔ اور نواب کا عطیہ قبول کرنے پر مجبور کیا۔ کبھی کبھی یہ دربار جانے لگے۔
میر صاحب کی غزلیات کے چھ دیوان ہیں۔ بیشتر مروجہ بحروں میں ان کی غزلیں پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ عام طور سے بحیثیت مجموعی ان کی تمام غزلیں سوز و گداز سے بھری ہوئی ہیں۔ اور یہ یکھ کرکہ وہ اپنے تمام معاصرین بلکہ مقلیدین سے بھی اس صنف خاص میں بڑھے ہوئے ہیں۔ یہ کہنا کچھ بیجا نہیں کہ وہ صرف غزل گوئی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔
انھوں نے قصائد، رباعیات، مخمس، واسوفت، اور مشونیات، ہر میدان میں طبع آزمائی کی ہے۔ میرصاحب اپنے دوستوں کے ساتھ سراپا ارتباط اور سراسر اختلاط تھے۔ اور جب ان کی دیر آشنائی ختم ہو کر دوستی و محبت کا رنگ بدلتی تھی۔ پھر اس میں کبھی فرق نہ آتا تھا۔
چنانچہ نجم الدین علی خاں سلام خلف شرف الدین علی خاں پیام ان کے ہر وقت کے رفیق، حریف ظریف اور خالص دوست تھے۔ ا ن کے ساتھ برابر مشق سنجی بھی ہوتی تھی۔ اور گپیں بھی لڑائی جاتی تھیں۔ ان کے یہاں جو ہر مہینے کے پندرہ تاریخ کو مشاعرہ ہوتا تھا۔ میر صاحب اس میں برابر شریک ہوتے تھے۔ شاعری کے چند نمونے پیش کرتا ہوں جو اپنی مثال آپ ہیں۔
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
***
گل وبلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا
جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں
یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا
***
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
اب تلک بھی مزار مجنوں سے
ناتواں اک غبار اٹھتا ہے
ہے بگولا غبار کس کا میر
کہ جو ہو بیقرار اٹھتا ہے
جناب، کلیات میر، پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ تصورمیں بھی نہیں آتا کہ بالآخر میر، مختصر سی زندگی میں اتنا بڑا ادبی شہکار کیونکر لکھ گئے کم از کم میری سمجھ سے تو بالکل باہر ہے۔