سلمان عابد، مقامی حکومتوں پر کتنی زبردست کتاب لکھ گیا ہے۔ شکرگزار ہوں کہ سلمان بذاتِ خود کتاب دینے کے لیے دفتر تشریف لائے۔ لکھاری کے ہاتھ سے کتاب موصول ہو تو پڑھنے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ سلمان سے تعلق اور دوستی چند برس سے ہے۔
کمال ظرف رکھنے والا بڑا انسان ہے۔ ہمارے جیسے نسلی، سیاسی اور سماجی تفریق کے مارے ہوئے سماج میں دلیل پر بات کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس کاوش میں بھرپور طریقے سے کامیاب بھی ہے۔
ٹی وی پر جب بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ تو اردگرد کے ساتھی تو سچ بولنے سے قدرے خائف نظر آئے۔ مگر سلمان اپنی بے لاگ رائے دینے میں بالکل بھی جھجکتا ہوا نظر نہیں آیا۔ طالب علم کے مطابق اس سے بڑی بات فی زمانہ کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے جیسے عامی کی جانب سے میڈیا میں درست سمت میں بات کرنے کی ہمت روا رکھی جائے۔
مقامی حکومتیں، سلمان عابد کا عشق ہیں۔ دل وجان سے چاہتا ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے، نچلی ترین سطح پر بھی فعال ہوں تاکہ لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہونے شروع ہو جائیں۔ "مقامی حکومتوں کا مقدمہ" اسی مثبت جذبہ کی جانب ایک شاندار قدم ہے۔ یہ نہیں کہ یہ سلمان کی پہلی کتاب ہے، اس سے پہلے بھی پانچ کتابیں لکھ چکا ہے۔
دراصل سلمان ہم لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جمہوریت اس وقت تک باوصف نہیں ہوتی جب تک کہ اس کے ثمرات مقامی حکومتوں کے ذریعے عام لوگوں تک نہیں پہنچتے۔ یہ نکتہ حددرجہ درست ہے۔
پوری دنیا میں ایک بھی ایسا کامیاب جمہوری ملک نہیں، جہاں اختیارات کو مرکزی سطح سے مقامی سطح پر منتقل نہ کیا گیا ہو۔ لیکن ہمارا ملک کیونکہ جمہوری چڑیا گھر ہے لہٰذا یہاں ہمارے اوپر مسلط بونے قائدین، لوکل گورنمنٹ نظام سے بہت چڑ کھاتے ہیں۔
دراصل وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے صوبے پنجاب میں تو ایک وزیراعلیٰ صاحب ایسے بھی تھے جنھوں نے تقریباً دس برس آٹھ سے گیارہ محکمے اپنے پاس رکھے۔ کوئی وزیر رکھنے کا تکلف نہیں کیا گیا۔
بہرحال چڑیا گھر میں ہر سانس لینے والے جمہوری پرندے کو اپنی اڑان کا رخ متعین کرنے کا اختیار ہے۔ مگر صائب بات یہ ہے کہ کوئی بھی ترقی یافتہ ملک، اس وقت تک کامیاب نہیں ہو پایا جب تک اس کے قائدین نے اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے۔ یہی سب کچھ سلمان عابد نے اپنی اس کتاب میں درج کیا ہے۔
اس کتاب کی رونمائی جی سی یونیورسٹی میں منعقد کی گئی تھی جس میں حددرجہ سنجیدہ لکھاریوں نے شرکت فرمائی تھی۔ طالب علم بھی اس میں شامل تھا۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے علم سے محبت کرنے کا ٹھوس ثبوت دیا۔
ان میں محترم رسول بخش رئیس، محترم سلمان غنی، محترم بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید اور صوبائی وزیر محترم کنور دلشاد بھی شامل تھے۔ دانشوروں کی ایک فکرانگیز مالا تھی جو سلمان عابد اور اس کتاب کے اعزاز میں شوق سے حاضر ہوئی تھی۔
اب چند گزارشات اس کتاب کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جمہوریت اور مقامی حکومتیں، مغرب میں مقامی حکومتوں کے نظام کا جائزہ، ایشیائی ممالک میں مقامی حکومتیں، پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کی داغ بیل، ان کا مستقبل اور لوکل گورنمنٹ کو درپیش مسائل، حددرجہ توجہ طلب نکات ہیں جن پر سلمان عابد نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ ابتدائی مقدمہ میں درج ہے:
"بنیادی طور پر پاکستان کا جمہوری نظام سیاسی، آئینی اور سماجی تضادات کا آئینہ دار ہے۔ ان ہی تضادات کی وجہ سے اس ملک میں جمہوری نظام مؤثر انداز میں پنپ نہیں سکا۔
ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فوجی حکمرانی اور مداخلتوں کے باعث اس ملک میں جمہوری نظام طاقت نہیں پکڑ سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمہوری نظام کی کامیابی اور اس میں تسلسل کے حوالے سے جو مشکلات پیش آئیں یا جو رکاوٹیں کھڑی ہوئیں ان میں مداخلتوں کا اہم کردار ہے۔ کیونکہ جہاں 35 برس سے زیادہ غیر سول حکمرانی کے مضبوط ادوار رہے ہوں وہاں کیسے ایک مضبوط جمہوری نظام قائم ہو سکے گا، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک میں مداخلتوں کو تقویت دینے میں ہماری عدلیہ کے ماضی کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ قانونی محاذ پر بھی جمہوری قوتوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کیا جمہوریت کی ناکامی محض مداخلتوں کے باعث ہوئی ہے یا اس میں ہمارے سیاسی وسماجی افراد اور اداروں کا بھی کوئی کردار ہے۔ "
ناروے میں لوکل گورنمنٹ کا نظام، تمام دنیا کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
ناروے کے بارے میں لکھا ہے:
"ناروے ایک وحدانی ریاست ہے جہاں ایک مرکزی حکومت ہے۔ ناروے میں ایک خاندانی بادشاہت کے ساتھ پارلیمانی نظام قائم ہے۔
ناروے کی مقامی حکومتوں کا نظام
قومی تناظر میں مقامی حکومتوں کا سیکٹر
1- مقامی حکومتیں جو رقوم صرف کرتی ہیں، وہ رقوم ریاست ناروے کے جی ڈی پی کا تقریباً چودہ فیصد بنتی ہیں۔ 2- مقامی حکومتوں کے سیکٹر میں جو آمدنی ہوتی ہے وہ ناروے کے جی ڈی پی کا اٹھارہ فیصد بنتا ہے۔ 3- ناروے میں جتنے بھی ملازمین ہیں، ان میں ہر پانچواں شخص مقامی حکومت کے سیکٹر میں کام کرتا ہے۔
ناروے میں مقامی سطح پر جمہوریت بہت مضبوط ہے اور مقامی حکومتوں کا سیکٹر بہت مضبوط ادارہ ہے۔ ناروے میں پہلی بار The Alderman Act of 1837 نے مقامی حکومت کے حقوق اور ذمے داریوں کا تعین کیا تھا۔ ناروے میں مقامی حکومتوں کے نظام کی دو سطحیں ہیں:
1- میونسپل اتھارٹی۔ 2- کاؤنٹی۔ ناروے میں 428 میونسپلٹیز اور 19 کاؤنٹی اتھارٹیز ہیں۔ "
پنجاب جو کہ ملک کی سب سے بڑی اکائی ہے، اس میں مقامی حکومتوں کے ساتھ ہر سیاسی قائد نے جو کھلواڑ کیا، وہ شرمسار ہی نہیں، عبرت ناک بھی ہے۔ کتاب میں درج ہے: "صوبے کے شہری اٹھارہویں ترمیم کے بعد خوش امید تھے جس میں وفاقی حکومت کے اختیارات صوبوں کو دیے گئے اور اب صوبائی حکومتیں اپنی بیشتر ذمے داریاں مقامی سطح پر ایک بل کے ذریعے دے دیں گی۔ پنجاب میں 2008کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تھی۔
اس حکومت کے سربراہ مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم راہنما شہباز شریف تھے۔ ان کی حکومت سے قبل صوبہ میں جنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام موجود تھے جسے مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت نے سب سے پہلے ختم کیا اور ضلعی نظام میں عوام کے منتخب نمایندوں کے مقابلے میں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر ایڈمنسٹریٹروں کی تقرری کرکے مقامی نظام حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
اس نظام کے خاتمہ کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اب پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نیا نظام لائیں گے جو ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مؤثر نظام ہوگا لیکن ہم نے دیکھا کہ 2008کے بعد بننے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013میں مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا اور اسی نظام کے تحت صوبہ میں 2015ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور جن کا حلف 2016میں لیا گیا۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 26 جولائی 2013ء کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں منظوری اور توثیق کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ نظام واپس لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کی طرف سفر تھا جس سے مقامی حکومتوں میں منتخب نمایندوں کے بجائے بیورو کریسی کو مضبوط کیا گیا۔ "
بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی، سلمان عابد نے حددرجہ دقیق مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد مقامی حکومتوں کے نظام کو درپیش مسائل پر بھی سیرحاصل بات کی ہے۔ لکھا ہے:
"بڑا مسئلہ ایک کمزور سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا داخلی جمہوری نظام بہت کمزور ہے اور اسی بنیاد پر یہ لوگ مقامی نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے افراد کی بنیاد پر نظام کو بھی چلا رہے ہیں اور اختیارات کو بھی اپنی حد تک سمیٹا ہوا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا مقامی نظام سے جڑا کوئی ایسا ماڈل نہیں جسے ہم ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر سکیں۔ جب بھی سیاسی اور جمہوری حکومتوں کو موقع ملا تو انھوں نے اپنے عمل سے نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے کمزور کیا۔ مسئلہ ہمارا اس نظام کو سیاسی، جمہوری اور جماعتی بنیادوں پر چلانے کا ہے۔ "
سچ تو یہ ہے کہ سلمان عابد نے "مقامی حکومتوں کا مقدمہ" لکھ کر ارباب اختیار کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ کہ اگر آپ ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو واحد تیر ہدف نسخہ، اختیارات کی نچلی ترین سطح پر منتقلی ہے۔ سلمان عابد نے واقعی اپنا حق حددرجہ احسن طریقے سے ادا کر دیا ہے!