Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Oberoi Se Kamyabi Ka Gur Seekhiye

Oberoi Se Kamyabi Ka Gur Seekhiye

موہن سنگھ اوبرائے (Mohan Sing Oberoi) چکوال کے ایک گاؤں بھان میں پیدا ہوا۔ 1898 میں دنیا میں آنے والا بچہ، اوائل عمری میں حد درجہ بدقسمت تھا۔ صرف چھ ماہ کا تھا کہ والد فوت ہو گئے۔ پشاور میں معمولی سے ٹھیکیدار تھے۔ بہرحال تنگی میں گزر اوقات ہو ہی جاتی تھی۔

والد کے مرنے کے بعد موہن سنگھ کے گھریلو حالات مزید مشکل ہوگئے۔ خاندان کا کسی قسم کا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا۔ معاشی بدحالی کیوجہ سے موہن، معمولی سی ہی تعلیم حاصل کرپایا۔ گاؤں کے نزدیک ایک سرکاری اسکول سے میٹرک کیا اور پھر ایک رشتہ دار کی مہربانی سے لاہور بورڈ سے انٹر کر لیا۔ مگر اس کے بعد کسی قسم کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔

کلرک لگنے کے لیے لاہور، پنڈی اور دیگر شہروں میں دھکے کھاتا رہا۔ مگر کسی جگہ بھی، معمولی سی نوکری بھی حاصل نہ کر پایا۔ زندگی اس کے لیے عذاب بن چکی تھی۔ 1922 میں برصغیرمیں پلیگ جیسی موذی وباء پھیل گئی۔ موہن سنگھ، بیماری سے بچنے کے لیے شملہ چلا گیا۔ وہاں، سسیل ہوٹل میں فرنٹ ڈیسک کلرک کی نوکری مل گئی۔

ہوٹل کے منتظم کانام ارنسٹ کلارک تھا۔ وہ دس بارہ سال سے شملہ میں سسیل ہوٹل کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ہاں، ایک بات کہ سسیل ہوٹل بھی بس گزارہ لائق ہی چل رہا تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق، پورے سال میں ہوٹل کے کمرے صرف چالیس فیصد تک کرایے پرجاتے تھے۔ شملہ ایک سیاحتی علاقہ تھا۔ اور وہاں کے ہوٹل بڑے منافع میں چل رہے تھے۔

مگر سسیل ہوٹل کاروبار میں کافی پیچھے تھا۔ کلارک کوسمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے کہ ہوٹل مہمانوں سے بھر جائے۔ قدرت کااپنا طور طریقہ ہے۔ کلارک کو چھ ماہ کے لیے لندن جانا پڑا۔ موہن سنگھ جس جانفشانی سے اور ایمانداری سے کام کر رہا تھا۔ وہ ارنسٹ کے لیے حیران کن تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ چھٹیوں کے دوران، موہن سنگھ کوہوٹل کا انچارج بنا دے۔

موہن سنگھ، نے اس چھ ماہ میں ہوٹل کی کایا پلٹ دی۔ عرق ریزی اورنفاست سے کام کرنے کی بدولت، ہوٹل میں گاہکوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ جب کلارک، لندن سے واپس آیا، تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ اسی کاہوٹل ہے۔ موہن سنگھ، ہوٹل میں ٹھہرنے والے مہمانوں کی تعداد، اسی فیصد تک لے گیا تھا۔ یعنی منافع اب سو فیصد بڑھ چکا تھا۔

کلارک اب موہن سنگھ پر بہت اعتماد کرنے لگ گیا۔ اس کے علاوہ، موہن سنگھ کو اپنے کاروبار میں شراکت داری بھی دے دی۔ دوسال ایسے ہی گزر گئے۔ سسیل ہوٹل کانام اب کلارک ہوٹل رکھ دیا گیا تھا۔ ارنسٹ، اب ریٹائرہونا چاہتا تھا۔ ایک دن، موہن سنگھ کو بلایا اوراسے کہا کہ اگر وہ چاہے، تو ہوٹل خرید سکتا ہے۔ موہن سنگھ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا، کہ وہ، مسٹرکلارک کو قسطوں میں پیسے لندن بھجواتا رہے گا۔

موہن سنگھ کاروباری معاملات میں حد درجہ ایماندار تھا۔ قسمت کی دیوی نے اس پر خوش قسمتی کا پہلا در کھولا تھا۔ موہن سنگھ ہوٹل کوکامیابی سے چلاتا رہا۔ مسٹر ارنسٹ کوتمام رقم بھی بھجوا دی۔ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ موہن سنگھ اب کاروبار کو بڑھانے کا سوچ رہا تھا۔ اس نے کلکتہ میں گرینڈ ہوٹل خرید لیا۔ موہن سنگھ نے اس کا نام بدل کر اوبرائے ہوٹل رکھ دیا۔ ایماندار تھا، اپنے کام میں محنت کے ہنر سے واقف تھا۔

لہٰذا آہستہ آہستہ وہاں سے ہندوستان کے بڑے شہروں میں اوبرائے، پنج ستارہ ہوٹل، شان و شوکت اور آرام دہ سکونت کے لیے مرکزیت اختیار کرتے گئے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں، سنگاپور، سعودی عرب، سری لنکا، نیپال، مصر اور ساؤتھ افریقہ میں اوبرائے ہوٹل قائم کر دیے۔

موہن سنگھ، ایک سوتین برس کی عمر لے کر آیا تھا۔ 2002 میں اس کا انتقال ہوا۔ مرتے وقت، پوری دنیا میں اس کے اکیس ہوٹل تھے۔ اس کے علاوہ پانچ بحری جہاز تھے، جو سمندر میں چلتے پھرتے ہوٹل تھے۔

مزید کئی ایئرلائنز کے جہازوں میں کھانے کاانتظام، متعدد ریسٹورنٹ اور بار کا مالک تھا۔ مرتے وقت تک، اوبرائے، ایک سلطنت کا روپ دھار چکی تھی۔ گروپ کی دولت تقریباً دس بلین ڈالر تھی۔ آج موہن سنگھ کے بیٹے اس کے کاروبار کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔

چکوال کے ایک پسماندہ گاؤں میں پیدا ہونے والا بچہ، برصغیر کے امیر ترین لوگوں میں کیسے شامل ہوا۔ اس نکتہ پر سوچ سمجھ کر بات کرنی ضروری ہے۔ عرض کرتا چلوں، میرے پاس روزکی بنیاد پر کئی لوگ رابطہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی نوکری کی تلاش میں بے تاب نظر آتا ہے، کوئی سفارشیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہو رہا ہوتا ہے۔

کوئی نظام کوگالیاں دیتا رہتا ہے، اور پھر کوئی اپنے ساتھ کج مقدری کو جوڑ لیتا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان بچے اور بچیوں کی تعدادچھ کروڑ سے زیادہ ہے۔

کوئی بھی سیاسی جماعت، حکومت میں ہو، وہ اتنے زیادہ روزگار مہیا نہیں کر سکتی۔ بہترین سے بہترین حکومت بھی اتنا بڑا کام کرنے سے قاصر ہے۔ سیاسی دعوؤں کی عرض نہیں کر رہا۔ سیاست دان تو وہاں بھی پل بنانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں، جہاں دریا ہے ہی نہیں۔ سنجیدہ ترین اقتصادی ماہرین بھی، اتنی کثیر تعدادمیں نوکریاں مہیا کرنے کو ناممکن کام قرار دیتے ہیں۔

اس میں ایک اورنکتہ بھی ہے۔ ہماری نجی یونیورسٹیوں کی اکثریت، حددرجہ ناقص تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔ ناقص تعلیم اور سماج میں تربیت کے فقدان نے ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا ہے جوزمینی حقائق سے میل نہیں رکھتی۔ یعنی اگر آپ کو مارکیٹنگ کے لیے ایک سمجھدار انسان کی ضرورت ہے۔

تو سو میں سے، دو تین لوگ ہی درمیانے معیار کے مطابق نکلیں گے اور بہترین معیار پر ہزار میں سے دوچار ہی ہونگے۔ نجی یونیورسٹیوں کی اکثریت، ایک ایسے جرم کی مرتکب ہو رہی ہے جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتتی رہیں گی۔

پرائیویٹ سیکٹر کا حال حد درجہ خستہ ہے۔ میں سرکاری اور نجی شعبہ دونوں کودیکھ چکا ہوں۔ یقین فرمائیے۔ ہمارا نجی شعبہ سرکار سے بھی زیادہ غیر فعال ہے۔ وہاں بھی مکھی پر مکھی مارنے کا چلن ہے۔

مگر سوال تو اپنی جگہ صائب ہے کہ ہماری نوجوان نسل، کس طرح اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔ اس سوال کا جواب آپ نے خود تلاش کرنا ہے۔ اس گتھی کوسلجھانے کی پہلی سیڑھی یہ ہے، کہ کسی سیاست دان یا سیاسی پارٹی کے نعروں کا شکار نہ بنیں۔ ہمارے پورے ملک میں کوئی بھی ایسا ملکی سیاست دان نہیں ہے جس کی اولاد محنت کرکے اوپر آئی ہو۔ سب، وراثت کے گدلے پانی کی پیداوار ہیں۔

اور ان کا میرٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے آپ پر بھروسہ کیجیے۔ یہ اس مشکل کو آسان کرنے کی دوسری سیڑھی ہے۔ اپنے آپ کو خود جانیے۔ یقین فرمائیے کہ قدرت نے آپ کو ہر وہ صلاحیت عطا کر رکھی ہے جس کی بدولت آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اپنے آپ پر مکمل اعتماد کیجیے۔ ہمت کیجیے۔ قدرت کی طاقت آپ کے ہم قدم کھڑی ہو جائے گی۔ تیسرا نکتہ یہ ہے، کہ چھوٹا سا ذاتی کاروبار شروع کرلیجیے۔ کوئی بھی کام کمتر نہیں ہوتا۔ کام میں عظمت ہے۔ اگر آپ کپڑے اچھے دھو سکتے ہیں۔

تولانڈری کی ایک دکان شروع کردیجیے۔ منافع دیکھ کر حیران ہو جائیں گے۔ شرط صرف ایک کہ پورے قصبہ، شہر، محلہ میں، آپ جیسے صاف کپڑے کوئی بھی نہ دھوتا ہو۔ آپ کے پاس کم پیسے ہیں تو فروٹ یا سبزی کی ریڑھی لگا کر دیکھیے۔ اس میں بھی یہ شرط ہے کہ آپ کی سبزی یا فروٹ ساتھ والوں سے ہر حال میں بہتر ہونا چاہیے۔

اگر آپ خاتون ہیں اور آپ کوکھانا بنانے کا فن آتا ہے تو مختلف دفاتر کے لیے کھانا فراہم کرنا شروع کر دیجیے۔ پھر دیکھیے کہ آپ پر ہن کیسے برستا ہے۔ میں نے صرف کھانا بناکر، مختلف دفاتر یا تقاریب میں فراہم کرنے والوں کو کروڑ پتی ہوتے دیکھا ہے۔

ہرانسان کے حالات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہر ایک کی ترقی کا فارمولا مختلف ہے۔ بلکہ اکثر اوقات میں تو متضاد بھی ہوگا۔ یاد رکھیے، چھوٹے کاروبار سے شروع کیجیے جوکسی بھی نوعیت کاہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں نیکی کمانے کا ایک عجیب سا چلن ہے۔ لنگر خانوں میں مفت کھانا کھلا کر ہر امیر انسان جنت میں اپنی سیٹ مختص کرنا چاہتا ہے۔

مگر کوئی بھی امیرشخص یہ نہیں کرتا، کہ افراد کو کوئی ہنر سکھانے کی کوشش کرے۔ کسی شخص کواگر آپ ویلڈنگ یا کسی بھی ہنر کی تربیت دلوا دیں۔ تو پورا ایک خاندان، اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا۔ جو لوگ مفت کھاناکھلا رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ لوگوں میں کسی بھی ہنر کی معیاری تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں۔

اگر یہ ہو جائے تومفت لنگر خانے، بند ہو جائیں گے۔ اگر موہن سنگھ اوبرائے، ہوٹل کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن سکتا ہے۔ تویقین فرمائیے آپ کے لیے بھی ترقی کا ہر راستہ کھلا ہوا ہے۔ غربت اور بے روزگاری کو شکست دینے کا واحد طریقہ، اپنے آپ کو کسی ہنر سے آراستہ کرنا ہے۔