لیبیا کا تبروک شہر ساحل سمندر پر واقع ہے۔ تصویروں میں یہ انتہائی خوبصورت اور زرخیز خطہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر بنیادی طور پر یہ شہر، لوگوں میں موت تقسیم کرتا ہے۔ موت بھی ایسی جو حد درجہ سفاک اور پانی میں ڈوبنے سے واقع ہوں۔ دراصل یہ انسانی اسمگلروں کی جنت ہے۔
یہاں سے، موت کے سوداگر، سنہرے خواب بیچ کر لوگوں کو یورپ لے کر جاتے ہیں۔ وسیع تعداد تو سمندر میں غرق کر دی جاتی ہے۔ معدودے چند افراد، جو اپنی خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں۔ یورپ میں پناہ گزین ہو کر بہتر مستقبل کی تلاش میں عمر گزار دیتے ہیں۔ ٹھیک ایک ہفتہ پہلے، تبروک سے ایک خستہ حال کشتی سات سو کے لگ بھگ بدقسمت افراد کو لے کر روانہ ہوئی۔ اس میں صرف سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کی گنجائش تھی۔
انسانی اسمگلروں نے اس کشتی میں جانوروں کی طرح زندہ انسان ٹھونس دیے۔ پھر یہ اٹلی کی طرف روانہ ہوگئی۔ اس مہیب کشتی کو یونان کے کوسٹل گارڈ محکمہ نے سیٹلائٹ کے ذریعے ٹریک کیا۔ حادثہ سے ٹھیک ڈیڑھ دن پہلے، فرنٹ ٹکس (Frontex) کمپنی نے کشتی کے منتظمین سے رابطہ کیا۔
مگر انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔ اسی دن، ایک بحری جہاز کے عملہ نے بھی اس زبوں حال کشتی تک رسائی حاصل کی اور انھیں پانی اور کھانا مہیا کیا۔ کشتی تیزی سے اٹلی کی طرف روانہ تھی۔ شام کو دوسرے بحری جہاز نے باقاعدہ، کشتی کے مسافروں کو ضروری اشیاء فراہم کیں۔ ای یو کی حکومت اور یونان کوسٹل گارڈ محکمہ بھی ان سے رابطہ میں تھا۔ مگر رات گئے۔ یک دم کشتی کا ہر ایک سے وائرلیس رابطہ ختم ہوگیا۔
معلوم ہوا کہ کشتی، اپنے بوجھ تلے، خودہی ڈوب گئی ہے۔ یہ حد درجہ افسوسناک خبر تھی۔ بحیرہ روم میں یہ ایک دہائی کا سب سے خوفناک واقعہ تھا۔ یہ حادثہ یونان کے نزدیک، بین الاقوامی سمندر کی حدود میں ہوا تھا۔ اس لیے یونان کی سرکار نے کثیر تعداد میں ہیلی کاپٹر اور نیوی کے چھوٹے جہاز جائے حادثہ کی طرف روانہ کر دیے۔ گورنمنٹ کے تمام وسائل بروئے کارلائے گئے۔
وزیراعظم نے بھرپور طریقے سے انسانی جانوں کی حفاظت کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ یاد رہے کہ یہ تمام لوگ، غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخلہ کے لیے حد درجہ خطرناک کوشش کر رہے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے یونان میں آسمان سر پر اٹھا لیا۔ حکومتی امدادی کارروائیوں کے دوران پتہ چلا کہ اسی کے قریب لوگ، سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کی تعداد بھی تشویشناک حد تک زیادہ تھی۔ بہرحال بروقت کارروائی سے سیکڑوں مہاجرین کو زندہ بچا لیا گیا۔ انھیں اسپتالوں اور پناہ گاہوں میں منتقل کیا گیا۔
کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ خطرات کے مونہہ میں جا کر یورپ جانے کی خواش رکھنے والے افراد کن ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ جناب یہ پاکستان، شام، فلسطین، افغانستان اور مصر کے شہری تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس المناک حادثہ کے بعد کیا ہوا۔ یونان کی "کافر" حکومت نے تین دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کر دیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر بحث شروع ہوگئی کہ حکومت نے انسانی جانیں بچانے کے لیے بروقت کیوں اقدامات شروع نہیں کیے۔
پورے نظام پر سوال اٹھنے لگے۔ ایک سیاستدان kriketos spilos نے صرف یہ جملہ کہہ دیا کہ یونان، غیر قانونی مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ بات ایک یوٹیوب چینل پر کہی تھی۔ اس کی پارٹی "این ڈی" نے اس سیاست دان کو پارٹی سے نکال ڈالا اور کہا کہ انسانی جانوں کی حفاظت کرنا، کسی بھی مذہب، عقیدے، نسل یا ملکی حدود سے بالاتر ہے۔
حادثہ پر غور فرمائیے۔ پناہ گزین، کن ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ حضور! یہ تمام مسلمان ممالک کے شہری تھے۔ شاید آپ کو برا لگے۔ سارا دن، بتایا جاتا ہے کہ ہم سارے شہری مساوات کے حامل ہیں۔ قانون اور آئین کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔ ریاست کا فرض ہے کہ سب کو روز گار کے مواقع فراہم کرے۔ کم از کم، ہمارے آئین میں ایسے ہی بے معنی سے سنہرے جملے لکھے ہوئے ہیں۔ پھر عام لوگ یہاں سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔
کیا کبھی امریکا یا لندن یا ناروے سے کوئی بھی، کسی بھی مسلمان ملک میں اپنی جان خطرے میں ڈال کرغیر قانونی طور پر آنا چاہتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ کم از کم خاکسار نے تو ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ مجھے صرف اپنے ملک سے غرض ہے۔ افغانستان، فلسطین وغیرہ کس دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اس میں دلچسپی واجبی سی ہے۔ میرا مرنا جینا، صرف اور صرف پاکستان میں ہے۔ ہمیں تو ہروقت وعظ سنائے جاتے ہیں کہ یہ جنت نظیر ملک ہے۔
بالکل ہے۔ مگر کیا یہاں کا نظام بھی بہتر ہے؟ اس کا جواب مکمل نفی میں ہے۔ ہمارا نظام کسی بھی صورت میں، اپنے کسی بھی شہری کی عزت، آبرو، روزگار، حقوق اور مساوات کی حفاظت نہیں کرتا۔ یہاں نہ تو کسی ادارہ پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ریاستی یا حکومتی دعوے پر، علاوہ ازیں ہمارا مقتدر طبقہ، دنیا کی سفلی ترین سطح پر کام کرتا ہے۔ صرف اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ امیر لوگ، اپنے گھریلو اور کاروباری ملازمین سے کس سطح کا ادنیٰ رویہ روا رکھتے ہیں۔
جناب والی! بڑے بڑے گھروں میں کام کرنے والے گھریلو نوکروں سے دریافت کریں۔ انھیں تیس پینتیس ہزار ماہانہ پر رکھا جاتا ہے اور پھر غلاموں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ ایک قریبی دوست کی اہلیہ، غیر ملکی ہیں۔ وہ پاکستان میں گھریلو ملازمین کو "غلامی کی جدید قسم" گردانتی ہیں۔ اور یہ بات بالکل درست ہے۔
نجی شعبوں میں بھی یہی حال ہے۔ اس دلیل سے ذرا باہر نکل کر، عوام کی حالت زار پر نظر ڈالیے۔ ریاست، حکومت اور عام آدمی کی لا تعلقی فوراً محسوس ہو جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کا مکمل بیانیہ صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی ہے۔ ترقی اور جدت تو دور کی بات، ہم لوگ تو ہر سطح پر اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ یا شہری، بھلا کرنے کی استطاعت سے ہی محروم ہو چکا ہے۔ ہر ادارے کا ذکر کر رہا ہوں۔ اس میں کوئی بھی استثناء نہیں۔
سوال تو اب یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان میں آپ غریب یا متوسط طبقے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ تو کیا آپ پر ریاست، ترقی کے تمام دروازے کھول دیتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ویسے تو اب جھوٹ اور سچ کی تفریق بالکل ختم ہو چکی ہے۔ مگر صرف، سوال ہے۔
کہ کیا مخصوص حالات یا خطے میں پیدا ہونا آپ کے اپنے اختیار میں ہے؟ سو فیصد نہیں۔ اگر آج ایک بچہ نیویارک میں پیدا ہوا ہے، تو کیا اسے اس نومولود پر وسائل کے اعتبار سے فوقیت نہیں، جو افغانستان، پاکستان، گھانا، زمبیا یا فلسطین میں اسی گھڑی پیدا ہو رہا ہے۔ جناب یہ قدرت کی تقسیم ہے۔ جس پرانسانی زور نہیں۔ مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارے جیسے ابتر ملک، پروپیگنڈے کے زور پر مسلسل دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم تمام لوگ ایک عظیم ثقافت، سماج اور روایت کے علمبردار ہیں۔ ہم سارے قانون اور آئین کی رو سے یکساں ہیں۔
یہ سب کچھ صرف غلیظ جھوٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ جو بڑے گھر میں پیدا ہوگیا۔ اس کی قسمت کھل گئی۔ آنے والے وقت میں ہر قسم کا تحفظ اور آسانی بغیر کسی جدوجہد اس کے سامنے فقیروں کی طرح کھڑی ہوگی۔ حکمرانی کے چلن دیکھ لیجیے۔
یہ اب صرف اور صرف گھٹیا موروثیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ تمام جید سیاست دان، اپنی اولاد کے علاوہ کسی کو آگے آتے ہوئے برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ خیر، موضوع پر واپس آتا ہوں۔ سرحدوں پر ریاستی اور حکومتی اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔ ان کی موجودگی میں انسانی اسمگلر، بڑی آسانی سے لوگوں کو لیبیا تک لے گئے۔ یعنی ملکی سرحدوں سے باہر نکلنا ان کے لیے آسان بنایا گیا۔ کیا یہ حکومتی سرپرستی کے بغیر ممکن ہے۔
مطلب یہ کہ انسانی اسمگلنگ کی قبیح تجارت میں ہمارے ادارے بھی ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ پیسے کے لین دین کے بعد وہ مہارت سے ہر غلط کام کرنے میں خوشی محسوس فرماتے ہیں۔ ہر ایک جانتا ہے کہ انسانی اسمگلر اور ادارے لالچ کی اس بڑی اسکیم کا حصہ ہیں۔ جس کا اختتام، کسی سمندری موت پر ہوتا ہے۔ پھر ہماری کسی بھی حکومت کے عمائدین کے چند بے سروپا بیان اور اس کے بعد، وہی کامل سکوت۔ یونان کی حکومت کے رویے کے مقابلے میں ہمارے موجودہ رویے کا تجزیہ فرمائیے۔ ایک دو بندے گرفتار ہوئے۔ جو چند دن بعد بری بھی ہوجائیں گے۔
اب تو ایسے لگتا ہے کہ ہماری ہر حکومت اور ادارہ صرف اور صرف موت کو تقسیم کرنے کے لیے حد درجہ کوشاں ہیں۔ بیانات، بے محل تقاریر، بے سروپا غیر ملکی دورے اور حماقتوں کے علاوہ کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
سیکڑوں پاکستانی بحیرہ روم کے ٹھنڈے پانی میں مر گئے۔ مگر ایک حکومتی اہلکار کو غفلت پر سزا نہیں ملی۔ ایک سیاسی پیادہ بھی مستعفی نہیں ہوا۔ جناب، اس ملک میں رہنا بھی خطرناک ہے اور مستقبل بنانے کے لیے کوئی قدم اٹھانا بھی جان لیوا ہو سکتا ہے۔ اگر اس ملک میں پیدا ہو گئے ہیں۔ تو اپنی قبر کی نوعیت کا خود انتخاب کر بس۔ خشکی یا پانی میں۔ یہ واحد اختیار آپ کے پاس شاید ہو!