لاہور کا لارنس گارڈن، دنیا کے باغات میں حد درجہ ممتاز ہے۔ ایک سو چالیس ایکڑ کے اس خوبصورت ٹکڑے پر سیر کرنا بذات خود ایک نایاب تجربہ ہے۔ دو دہائیاں، یہاں پیدل پھرتا رہا۔ حتیٰ کہ ایسے محسوس ہونے لگا کہ یہ خطہِ سبز میرے وجود ہی کا حصہ ہے۔
وجہ صرف یہ کہ سبزہ و گل تو بہتات سے موجود ہیں ہی، پر اس کے علاوہ وہ ہزاروں پرندے بھی جو یہاں کے اصل مکین ہیں۔ رنگ برنگے طوطے، کبوتر اور دیگر انمول چھوٹے چھوٹے پرندے، لاہور جیسے کنکریٹ کے جنگل میں یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ انسانی دسترس سے باہر۔ نتیجہ یہ کہ واک کرتے ہوئے پرندوں کی وہ چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے جو اصل میں آفاقی موسیقی ہے۔ اکیلے بیٹھ کر، اگر غور سے پرندوں کی آوازیں سنیں تو ایک سحر طاری ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا تاثر جو دیر تک آپ کو گھیرے میں رکھتا ہے۔
زندگی کی اصل آواز کو سننا ہو تو انسان کو جنگل بیابان یا ایسے سبز قطعے میں اکثر بیٹھنا چاہیے، جہاں پرندے موجود ہوں اور اپنے آپ کو کافی محفوظ سمجھیں۔ ویسے دنیا میں انسان کے جبر سے دوسرا انسان محفوظ نہیں ہے، تو بیچارے جانور اور پرندے کیسے برباد ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ لاہور کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی کے اس ہولناک جنگل میں جنگلی حیات کی تعداد بہت زیادہ کم ہو چکی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت لاہور میں ڈھائی سو قسم کے پرندے تھے۔
پھر یہ تعداد انسانوں کے بے تحاشا بڑھنے سے کم ہونے لگی۔ 1992میں صرف 101 اقسام رہ گئی تھیں۔ اب صرف اور صرف پچاسی طرح کے پرندے اس شہر میں پائے جاتے ہیں۔ ویسے اصل تعداد تو اور بھی کم ہو۔ کیونکہ اس میں ہجرت کرنے والے پرندے بھی شامل ہیں۔ ہجرت کا لفظ ویسے حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ انسان بھی بہتر جگہ پر بسنے کے لیے ہی ہجرت کرتے ہیں۔ پرندے ایک خطے سے دوسری جگہ جاتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے۔
اس کا تو علم نہیں۔ مگر انسان، منتقل ہونے کے بعد مسلسل تکلیف میں ہی رہتے ہیں۔ اس لیے کہ خواب کہیں بھی پورے نہیں ہوتے۔ اپنے بزرگوں کی طرف دیکھتا ہوں تو یہ غم بخوبی سمجھ آتا ہے۔ میرے دادا راؤ اختر، والد گرامی اور پورا خاندان ہندوستان سے کس طرح تاندلیانوالہ پہنچا ہو گا۔ تصور کرتے ہوئے بھی دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ کہا ں کلیر شریف اور کہاں لائل پور کا ایک مضافاتی قصبہ۔ اسی طرح نانی اور والدہ، بیر پور، علی گڑھ سے کس کیفیت میں فیصل آباد پہنچی ہونگیں۔ معلوم نہیں۔ لیکن بزرگوں سے کبھی اس پر بات ہی نہ ہو پائی۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اکثر بزرگ تقسیم ہند کے بعد، پاکستان ہجرت کے لیے ایک خصوصی لفظ استعمال کرتے تھے۔ "اجڑ" کر یہاں آئے ہیں۔
انسانوں کی طرح شاید پرندے اور جنگلی جانور بھی اجڑ کر ایک جنگل سے دوسرے جنگل میں جاتے ہیں۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے۔ حقیقت میں معلوم نہیں۔ سائبریا سے اڑ کر کئی پرندے ہمارے ملک کے آبی ذخائر میں کس وجہ سے آتے ہیں، اس کا جواب کم از کم میرے پاس نہیں۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ وہ زندگی کے ایک دائرے کو مکمل کرتے ہیں۔ افزائش نسل کا ادھورا کام بھی کرتے ہیں۔ مگر کیا ہزاروں میل سفر کرنے کی صرف یہی وجہ ہے، یہ بھی ایک صیغہ راز ہے۔
چالیس پچاس برس پہلے ہمارے ملک کے ہر کونے میں پرندوں کی بہتات تھی۔ مقامی اور مہاجر پرندے رونق لگا کر رکھتے تھے۔ پھر انسانی آبادی اس بہتات سے بڑھی کہ یہ خوبصورت توازن عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ پرندے اور جانور معدوم ہونے لگے۔ عرض کرونگا کہ ملک میں پرندوں کی سات سو بانوے اقسام ہیں۔ سات دہائیاں قبل یہ اقسام ہزار سے اوپر تھیں۔ مگر بہرحال اب کیا موجود ہے، اس کی فکر کرنی چاہیے۔ پرندوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔
آبادی کا غیر سنجیدگی سے بڑھنا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مگر شکار اور پرندوں کو پکڑکر بیچنے کا کاروبار، بھی ان کی تعداد کم ہونے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ کونجوں کی مثال سامنے رکھیے۔ سرمئی رنگ کا یہ دل فریب پرندہ سال میں دو مرتبہ منتقلی کے سفر سے دو چار ہوتا ہے۔ پرواز کرتے ہوئے یہ بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں سے گزرتا ہے۔ ژوب، لورالائی، دکی اور قلعہ سیف اللہ میں یہ پرندہ ضرور اترتا ہے۔ یہاں ان کے ساتھ حد درجہ ناروا سلوک ہوتا ہے۔ غیر قانونی طور پر کونجوں کو پکڑنے والے کثرت میں موجود رہتے ہیں۔
ہر موسم میں ان میں سے کئی بیوپاری، ایک سو کونجوں تک کو روزانہ پکڑتے ہیں۔ ان کو پھر باقاعدہ فروخت کر دیا جاتا ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد بلکہ ہر بڑے شہر میں پرندوں کے بازار میں کونجیں عام ملتی ہیں۔ اس غیر قانونی بلکہ ظالمانہ کاروبار پر کسی کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگتی اور رینگے بھی کیوں۔ جس ملک میں صرف ایک شہر میں ایک سو چالیس مغوی لڑکیوں کو پیشہ پر لگا دیا گیا ہو۔ اور عدالت کے کہنے پر انھیں آزادی نصیب ہوئی ہو۔ اس ملک میں کونجوں کے غیر قانونی کاروبار پر کیا رونا رویا جائے۔
سرگودھا کا ذکر کر رہا ہوں۔ چند دن پہلے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی خرید و فروخت وسطی پنجاب میں عین پولیس کی ناک کے نیچے پورے دھڑلے سے جاری ہے، اور کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ پھر کسی نیک بخت منصف کے حکم پر انھیں برآمد کیا گیا۔ چنانچہ یہاں جنگلی حیات کے ساتھ ناروا سلوک کا کیا ذکر کرنا۔ پر ان کا ذکر نہ کرنا بھی عین ناانصافی ہے۔ بلوچستان کو رہنے دیجیے۔ چند دن پہلے ایک ظالم نے سوشل میڈیا پر ایک ادنیٰ تصویر لگائی ہوئی تھی۔
درجنوں تیتر شکار کر کے جیپ کے بونٹ پر سجا رکھے تھے۔ شاہانہ انداز میں دو نالی بندوق کندھے پر رکھی ہوئی تھی۔ پتہ کرنے پرمعلوم ہوا کہ یہ ظالم سرکار کا ہی ایک کارندہ ہے۔ پرندوں کا یہ قتل عام آج بھی پوری شان و شوکت سے جاری ہے۔
جنگلی ہرن کی ایک قسم پاڑہ اور نیل گائے، سیالکوٹ اور ہندوستان سے متصل علاقو ں میں عام ہوتی تھی۔ پھر ان کا ناجائز شکار ہونے لگا۔ اس غیر قانونی کام میں مقامی لوگو ں کی ایک خصوصی اقلیت بھی شامل ہوتی ہے۔ شکر گڑھ کا ذکرکرنا چاہوں گا۔ 1987میں ہندوستان نے وہاں باڑ نہیں لگائی تھی۔ بارڈر سے متصل دیہاتوں کا دورہ کرتے ہوئے پاڑے اور نیل گائے عام نظر آ جاتے تھے۔ جیپ کی آواز سن کر دبک ضرور جاتے تھے۔ مگر ان کے ردعمل میں شکار نہ ہونے کی بدولت خوف اتنا زیادہ نہیں تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان باڑ لگنے سے جانوروں کی نقل مکانی کم سے کم ہوتی گئی۔ بے رحم شکاری ان کی تعداد کو محدود سے محدود تر کرتے گئے۔ راوی کے ساتھ جنگل میں بتیس برس پہلے پاڑے بہت زیادہ تھے۔ اب وہاں بھی ان کی تعداد کافی کم ہو چکی ہے۔ ویسے اگر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے لوگ چوکس ہوں تو ناجائز شکارکرنا ناممکن ہے۔ چلیے پاڑے اور نیل گائے کے شکار کے لیے تو بہت تردد کرنا پڑتا ہے۔ وسطی پنجاب میں ٹیپ ریکارڈر میں بٹیروں کی آواز کی ٹیپ لگا دی جاتی ہے۔
اس آواز کو سنتے ہی ان گنت بٹیر اس طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ اور بڑے آرام سے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ شکار کی یہ ترویج بھی حد درجہ غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی ہے۔ مگر کون پوچھنے والا ہے۔ کسی دیہات میں چلے جایئے۔ "بلارے" پر بٹیر پکڑنے کا رواج عام نظر آتا ہے۔ اس پرندے کو بھی بازار میں فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کی قیمت فارمی بیٹر سے کافی زیادہ ہے۔ بٹیر ہزاروں کی تعداد میں پکڑے جاتے ہیں اور پھر اس گوشت خور بلکہ خون خوار قوم کے شکم میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ویسے ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔
بیسار خوری سے مرنے کے قریب ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی گوشت کو ٹھکانے لگانے سے باز نہیں آتے۔ بٹیر تو ویسے ہی امیر آدمی کھاتا ہے۔ کیونکہ یہ درجن کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔ ایسے معصوم پرندے کو مار کر کھانا عجیب غیر شریفانہ سا لگتا ہے۔
تیتروں کا بھی یہی حال ہے۔ یہ بھی لذت دہن کی بدولت ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ چلیے یہ پرندے تو ہر سال بڑھتے رہتے ہیں۔ طالب علم نے چکور جیسے نایاب پرندے کا بے دریغ شکار ہوتے دیکھا ہے۔ یعنی وہ پرندہ، جو خوبصورتی میں جادوئی قوت رکھتا ہے۔ وہ بھی غیر قانونی طور پر خوب ستم ِشکار بنتا ہے۔ لورالائی کے پہاڑوں میں کئی بار لوگوں کواس غیر قانونی کام پر قانون کے حوالے کیا ہے۔
قدرت کے غیر معمولی توازن کو ہر طور پر خراب کیا گیاہے۔ پرندوں اور جنگلی جانوروں کی نسل کشی بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔ سب کچھ عمائدین حکومت کے ساتھ مل کر ہوتا ہے۔ اگر کوئی اہلکار سختی کرے تو وہ بھی عتاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر پرندوں کی زبان سمجھ سکتے اور ان سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا، تو یہ معلوم ضرور ہوتا کہ جنگل کی تمام آبادی، ہم انسانوں کے خلاف شدید عدم اعتماد کا شکار ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کوئی سیاسی تحریک عدم اعتماد بھی لاؤ لشکر کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ ویسے مجھے اپنے سیاسی قائدین پر اتنا ہی عدم اعتماد ہے جتنا پرندوں کو بے رحم شکاریوں پر۔ مگر پھر بھی شکار تو جاری رہتا ہے، سیاسی ہو یا غیر سیاسی!