دو ہفتے پہلے واٹس اپ میسج آیا کہ ساجد گل دنیا میں نہیں رہا۔ صبح کا وقت تھا۔ پیغام نہ اردو میں تھا اور نہ ہی انگریزی میں۔ بلکہ واٹس اپ پر استعمال ہونے والی خود ساختہ اس زبان میں تھا، جو اب بالکل عام ہو چکی ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ اسے پڑھ نہیں پاتا۔ خیر بڑی مشکل سے پڑھا تو مکمل بے یقینی کی کیفیت سی ہو گئی۔
کون ساجد گل۔ میرا دوست تو ساجد عمر گل ہے اوروہ تو بالکل جوان اور صحت مند ہے۔ انتہائی ہمت کر کے جس نمبر سے پیغام موصول ہوا تھا، اس پر فون کیا۔ اجنبی سا شخص تھا۔ اس نے بتایا کہ ساجد عمر گل ہی فوت ہو چکا ہے۔ دوپہر اس کا جنازہ ہے۔ بات کرنے کے بعد میں کرسی پر منجمد سا ہو گیا۔
اٹھ نہیں پایا۔ بھئی، ساجد عمر گل تو چندہفتے پہلے تک رابطے میں تھا۔ انتہائی چاک و چوبند انسان۔ پھر یہ کیا۔ بے یقینی کا احساس اب بے بسی اور غم میں ڈھلنے لگا۔ ساجد دنیا سے چلا گیا۔ مگر کیسے۔ معلوم ہوا کہ یک دم دل کا دورہ پڑا اور لمحوں میں زندگی نے مونہہ موڑ لیا۔ انسان بے بس تو ہے ہی مگر اتنا بے بس کہ زندگی کی ڈور لمحوں میں ٹوٹ جاتی ہے۔ بہت زیادہ دکھ کا باعث تھی۔ مگر حکم ربی کے سامنے تو انسان بے بس ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا۔
ساجد سے کوئی دس بارہ برس سے دوستی تھی۔ ایک نجی چینل پر کام کرتا تھا۔ ایک دن فون آیا۔ کہ ساجد گل بول رہا ہوں۔ کون ساجد گل۔ میں تو مکمل ناواقف تھا۔ بتانے لگا کہ آپ نے ایک کالم لکھا ہے جس میں مغربی ممالک میں بچے اور بچیوں کی پاکستان میں کی گئی زبردستی شادیوں کا ذکر ہے۔ اس پر ایک ٹی وی پروگرام کرنا ہے۔
میں بالکل بھول چکا تھا کہ یہ کالم کب لکھا ہے۔ شاید کوئی چار پانچ ماہ پہلے۔ بہر حال اسٹوڈیو پہنچا تو ایک ہنستا مسکراتا نوجوان سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ حد درجے خوش لباس۔ ساجد سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد ہم دونوں میں دوستی شروع ہو گئی۔ ساجد باقاعدگی سے میرے دفتر آنے لگا۔ اور مجھے اسے جاننے کا موقع مل گیا۔ وہ جو دکھائی دیتا تھا۔
اس سے حد درجہ مختلف تھا۔ وہ تو ایک درویش اور صوفی تھا۔ روحانیت کے مشکل ترین قافلہ کا مسافر۔ بزرگوں کو ماننے والا انسان۔ اب تو ساجد سے روحانیت والے معاملے پر گھنٹوں باتیں ہوتیں۔ ایک دن اپنے مرشد کے پاس بھی لے گیا۔ وہ بھی پیر کامل تھے۔ حد درجہ پڑھے لکھے اور باعمل صوفی، طبیعت خوش ہو گئی۔
ساجد کا اپنے بزرگ سے حد درجہ عجیب سا تعلق تھا۔ وہ جاتے ہی ان کے پیر پکڑ لیتا تھا۔ اور پھر اجازت لے کر صوفے پر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر دین کی جزئیات پر حد درجہ مدلل باتیں ہوتی تھیں۔ ساجد اپنے بزرگ کی سربراہی میں مراقبہ بھی کرتا تھا۔ خاموشی کا یہ سفر حد درجہ مشکل اور صبر آزما ہے۔ روح اور جسم کے رشتہ کو تھوڑی دیر کے لیے منقطع کرنا اور عالم ارواح تک رسائی حاصل کرنا بہت ریاضت مانگتا ہے۔
بہر حال ساجد یہ کر لیتا تھا۔ کیسے میری سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ ایک دن کہنے لگا کہ کہ ڈاکٹر صاحب، گھر آونگا۔ مگر آپس میں بات نہیں ہو گی۔ بس دل ہی دل سے رابطہ ہو گا اور خاموشی کی زبان میں بہت سی گفتگو ہو گی۔ گل آیا اور ہم دونوں دو گھنٹے خاموش بیٹھے رہے۔ اس سے زیادہ بھر پور ملاقات کسی سے بھی بہت کم ہی ہوئی ہے۔
ساجد گل سے اب ہر وقت بھرپور رابطہ رہتا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد نجی چینل سے اکتا کر دوسری جگہ ملازمت کر لی۔ ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ مگر ایک بات محسوس کی کہ ساجد اپنا سرکاری کام تو حد درجہ تندہی سے کرتا ہے۔ مگر اس کے بعد روحانیت کے معاملات میں مزید یکسوئی حاصل کر رہا ہے۔
حضرت علی ہجویری ؒ سے نسبت بڑھتی جا رہی تھی۔ اکثر وہاں جاتا تھا۔ نوافل ادا کرتا تھا۔ اور گھنٹوں خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ ظاہری طور پر اس کا لباس بالکل مغربی تھا۔ کیونکہ طویل عرصہ آئرلینڈ میں گزارا تھا۔ لہٰذا خوش لباسی کا خاص خیال رکھتا تھا۔ میں اسے "آئرلینڈ کا صوفی" کہا کرتا تھا اور وہ مسکرا کر خاموش ہو جاتا تھا۔ عرض کرتا چلوں۔ کہ وہ زاہدخشک نہیں تھا۔ انتہائی اچھا شاعر اور علم موسیقی پر بھرپور گرفت رکھنے والا انسان تھا۔ تھا لکھتے ہوئے دل کٹ رہا ہے۔
مگر کیا کروں موت، بہر حال زندگی کی سب سے قریبی ساتھی ہے۔ ساجد روحانیت میں طریقت کا قائل نہیں تھا۔ بلکہ شریعت پر من و عن عمل کرنے والا انسان۔ کیسے وہ تمام باتیں لکھوں جو ساجد عمر گل سے ان گنت نشستوں میں ہوتی تھیں۔ روحانیت کے سفر کی خوبصورت اور خوشبودار باتیں۔ آقا محمد عربیؐ کا ذکر ہوتے ہی ساجد پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ کئی بار زار وقطار رونا شروع ہو جاتا تھا۔ ایک دن، اپنے مرشد کے پاس گیا۔
میں بھی ساتھ تھا۔ پوچھنے لگا کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا۔ بزرگ نے جواب دیا۔ کہ موت تو کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ایک نئی زندگی کا آغاز ہے جس طرح اس وقت ہم لوگ بیٹھے بات کر رہے ہیں۔ عالم ارواح میں بھی بڑے سکون سے اسی طرح محبت سے بحث کرتے رہیں گے۔ گل نے یہ بات سننے کے بعد بڑے سکون سے کہا، کہ پھر تو موت کچھ بھی نہیں ہے۔ چلیے، بہت سے بزرگوں سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ ساری باتیں لکھ بھی نہیں سکتا۔ بہر حال ساجد عمر گل جتنا نیک انسان تھا۔ خدا نے اس کے آنے والی زندگی کے مسائل حل کر دیے ہونگے اور جہاں بھی ہو گا۔ بڑے سکون اور آرام سے ہو گا۔
انھی دو ہفتوں میں ایک اور سانحہ سے بھی دو چار ہونا پڑا۔ عدنان عظیم میرے بچپن کا دوست تھا۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں اکٹھے تھے۔ چھ فٹ کا لمبا تڑنگا نوجوان۔ بلکہ اس وقت تو لڑکا تھا۔ 1972کا ذکر کر رہا ہوں۔ میرا ہوسٹل اورنگ زیب ونگ تھا۔ اور عدنان اقبال ونگ میں رہتا تھا۔ اقبال ونگ کے لڑکے شرارتوں میں کافی آگے تھے اور ساتھ ساتھ کھیلوں میں حد درجہ پختہ تھے۔
عدنان عظیم تقریباً ہر کھیل میں بڑے شاندار طریقے سے حصہ لیتا تھا۔ فٹ بال، کرکٹ، تیراکی، باسکٹ بال ہر گیم میں اس کا شوق دیدنی تھا۔ چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ سی رہتی تھی۔ بلکہ یوں کہیے کہ بھرپور زندگی کی علامت رقص کرتی رہتی تھی۔ خیر 1977میں ایف ایس کے بعد فوج میں چلا گیا۔ اور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں آ گیا۔ طویل عرصے تک دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا۔ آج سے کوئی دس بارہ برس پہلے، جب میں گوجرانوالہ میں ڈی سی تھا۔ تو معلوم ہوا کہ عدنان، وہاں بریگیڈیئر ہے۔ ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔
یقین فرمائیے۔ جب پچیس برس کے توقف سے عدنان سے ملاقات ہوئی تو اس کے چہرے پر وہی پرانی شرارتی قسم کی مسکراہٹ تھی۔ اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ اتنے طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ پرانے دوستوں کا یہی کمال ہوتا ہے۔ ملے بغیر جتنا مرضی عرصہ گزر جائے۔ جیسے ہی دوبارہ ملاقات ہو، تو تمام وقت تحلیل سا ہو جاتا ہے۔ باتیں وہیں سے شروع ہو جاتی ہیں جہاں سے موقوف ہوئی تھیں۔ عدنان کے ساتھ تو خیر بچپن سے دوستی تھی۔
اس کا گھر راہوالی کینٹ میں تھا۔ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہم دونوں گالف بھی اکٹھے کھیلتے تھے۔ ا سکول کے قصے، پرنسپل اور اساتذہ کی باتیں، پرانی شرارتوں کا ذکر، کس کس بات کا ذکر کروں۔ ایک زمانہ زیر بحث رہتا تھا۔ عدندن مکمل طور پر فوجی تھا۔ اسے سول زندگی کے جنجال کا تجربہ کافی کم تھا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے والد بھی آرمی میں تھے اور جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ یعنی یہ دوسری پیڑھی تھی جو فوج سے منسلک تھی۔
فوج کا ایک خاص مزاج ہے کہ اس ادارہ نے حد درجہ محنت کر کے چھاؤنیوں کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ان میں موجود ہے۔ عدندن کینٹ سے نکل کر زیادہ سے زیادہ میرے گھر آ جاتا تھا۔ گالف کھیلنے کے بعد، کافی دیر چائے پینے کے لیے کنٹری کلب کے باہر بیٹھے رہتے تھے۔ دو سال کا یہ وقت ایک لمحہ میں گزر گیا۔ گوجرانوالہ سے میرا تبادلہ لاہور ہو گیا۔ اور عدندن اسی دورانیہ میں اینٹی نارکاٹس فورس کوئٹہ چلاگیا۔ کافی دیر رابطہ نہ رہا۔ دس دن پہلے کسی نے بتایا کہ عدندن بیمار ہے اور اس کا پنڈی میں ادارہ قلب میں آپریشن ہے۔ فون کیا۔ تو وہی زندگی سے بھرپور آواز۔ کہنے لگا کہ اسپتال جا رہا ہوں۔ معمولی سا آپریشن ہے۔
تھوڑے دن تک ٹھیک ہو جاؤنگا۔ پھر ملاقات ہو گی۔ آواز سے اندازہ ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ عدنان کو کوئی بیماری ہے۔ چار دن پہلے، عدنان کا دل کا آپریشن ہوا۔ آپریشن کے دوران ہی زندگی کی قید سے آزاد ہو گیا۔ اس کے انتقال کی خبر بھی تیر کی طرح جگر کے آر پار ہو گئی۔ یقین نہیں آتا تھا۔ کہ زندگی سے بھرپور بریگیڈیئر عدنان عظیم، منوں مٹی اوڑھ کر سو چکا ہے۔ پر صاحب، موت سے تو کسی کو بھی کوئی مفر نہیں۔ یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مگر دونوں اموات دل کے نہاں خانے کو ویران کر گئیں ہیں۔ دراصل ہم تمام انسان پت جھڑ کے موسم میں سانس لیتے ہیں۔ کون سا ذی روح، پتے کی طرح کس وقت زندگی کے درخت سے گر جائے۔ کوئی پتہ نہیں۔ کسی کو بھی معلوم نہیں!