Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qabristan Behtar Banaye

Qabristan Behtar Banaye

سویڈن میں اسٹاک ہوم جانے کا اتفاق ہوا۔ مقامی سویڈش فیملی کے ہمراہ، اسٹاک ہوم سے ملمے جا رہا تھا۔ کافی طویل سفر تھا۔ ہر طرف جنگل، سبزہ اور جھیلوں کی فراوانی تھی۔ معلوم ہوتا تھاکہ خدا نے یہ خطہ اپنے خصوصی ہاتھ سے تراشا ہے۔

اچانک میں نے اپنے گورے دوستوں سے کہاکہ راستے میں اگرکوئی بڑاشہرآتاہے توتھوڑی دیر کے لیے رکناچاہتا ہوں۔ خیر، تھوڑی دیر میں ایک کافی بڑا قصبہ آ گیا۔ ہم تمام دوست وہاں رک گئے۔ سوالیہ انداز میں پوچھاگیا کہ کس کیفے یا ریسٹورنٹ میں کافی پینی ہے۔ جواب دیاکہ میں کافی پینے کے لیے نہیں رکا۔ میں تومقامی قبرستان دیکھنا چاہتا ہوں۔

یہ سن کر وہ خاندان مکمل طور پر ششدر رہ گیا۔ قبرستان کیوں دیکھنا ہے۔ بتایا کہ اس سوال کا جواب شہر خموشاں توجہ سے دیکھ کر گزارش کروں گا۔ خیر نزدیک ہی ایک قبرستان تھا۔ گاڑی سے اتر کر میں خاموشی سے قبروں کی جانب متوجہ ہوگیا۔

حد درجہ خوبصورت اورتوجہ سے ترتیب دی گئی قبریں موجود تھیں۔ اکثر قبروں کے کتبوں پر نام درج تھے۔ اور ساتھ ساتھ، فرشتوں کے مجسمے بھی ایستادہ تھے۔ سبزہ ہر دم موجود تھا۔ قبریں ابھری ہوئی نہیں تھیں۔ یعنی اسپاٹ زمین تھی۔ مگر تعویز حد درجہ دیدہ زیب تھے۔ سویڈش خاندان کافی حیران تھا کہ میں، قبرستان میں کیوں کھڑا ہوں اور کیا تلاش کر رہا ہوں۔

ان کے ذہن میں سوال ہی سوال تھے۔ مگر سویڈش لوگ حد درجہ مہذب ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی نے بھی مجھ سے مزیدکچھ نہیں پوچھا۔ اب میری باری تھی۔ یہ قبرستان کی جگہ کون مختص کرتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کس کے ذمے ہوتی ہے۔

بتانے لگے کہ یہ مقامی اداروں کی ذمے داری ہے۔ وہ زندہ لوگوں کا خیال تو کرتے ہی ہیں مگر جو لوگ دنیا سے چلے گئے ان کو بھی خوبصورت ترین جگہوں پر سکون سے ابدی نیند پوری کرنے دیتے ہیں۔ شہر خاموشاں کے اردگرد گھنے درخت تھے۔ ان سے زرد رنگ کے پتے گر کر، گھاس پر بکھرے ہوئے تھے۔ قبرستان کے اردگرد فٹ پاتھ تھا۔

جس پر مختلف رنگوں کے پھول اور پتے، عجیب بے ترتیبی سے گرے ہوئے تھے۔ مکمل سکوت تھا۔ ہاں۔ اردگرد کے درختوں پر لا تعداد پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ قبرستان کی آرائش کے محافظ ہیں۔

ان کی چہچہاہٹ عجیب طرز کی جل ترنگ تھی۔ مقامی دوست بتانے لگے کہ ہمارے پورے ملک میں قبرستان اور ان کی آرائش پر حددرجہ توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن پورے ملک میں لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں کی قبروں پر بہت کم ہی آتے ہیں۔ بہر حال، ہم دوبارہ محو سفر ہوگئے۔

یہ واقعہ بتانے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ ہم سارے قطار اندر قطار، بارگاہ الٰہی میں پیش ہونے کے منتظر ہیں۔ آج یا کل، ہم سب نے اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔

ایک لحاظ سے یہ بہت بہتر بات ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو زندگی میں اتنا لطف اٹھانے کامعاملہ بھی نہ ہوتا۔ ذرا سوچیے، اگر زندگی ختم ہونے کا فطری انداز نہ ہوتا توہزاروں برس کے لوگ، کرہ ارض پر بوجھ بن کر سانس لینے پر مجبور ہوتے۔ موت توبرحق ہے۔ بس خدا سے اتنی سی دعا کرنی چاہیے کہ اہم ترین دنیاوی مسائل حل کرنے کی جائز مہلت مل جائے۔ آگے خداکی مرضی۔ جب بلانا چاہے، توکون فانی انکار کر سکتا ہے۔

بہر حال، ہمارے ملک میں قبرستانوں کی حالت حددرجہ دگرگوں ہے۔ سجاوٹ تودورکی بات، وہاں بے ترتیبی اور غلاظت کا ایسا سامان پڑا ہوتا ہے کہ انسان پریشان ہو جاتاہے بلکہ سر پیٹ لیتاہے۔ مویشی اور دیگر جانور بڑے آرام سے وہاں مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کا فضلہ صاف کرنے کا کوئی چلن نہیں ہے۔ خیر بے ترتیبی کی علت تو پورے ملک بلکہ پورے نظام کونگل چکی ہے۔ شہر خموشاں تودورکی بات۔ یہاں سڑکوں پر لوگوں کو فٹ پاتھ پر چلنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ موٹرسائیکل اور گاڑیوں والے قیامت خیز رفتار سے ایسے جا رہے ہوتے ہیں کہ اگر منزل پر پہنچنے میں چند لمحے بھی تاخیر ہوگئی توپتہ نہیں کون سی قیامت آ جائے گی۔ تیز رفتاری پر یاد آیا۔

لاہور کے جس مضافاتی علاقے میں رہتا ہوں وہاں آبادی قدرے کم ہے اور سڑکیں کافی کشادہ ہیں۔ وہاں، گاڑیوں والے حد درجہ لاپرواہی سے سواری چلاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ کہ تقریباً ہر روز، ایسے ہولناک حادثے ہوتے ہیں جس میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک المیہ اور ہے ہیوی موٹر سائیکل چلانے کا رواج، جتھوں کی صورت میں ہے۔

یہ موٹر سائیکل حددرجہ قیمتی توخیر ہیں۔ مگر ان کی رفتار، پر قابو رکھنا قدرے مشکل ہے۔ شوقین حضرات، گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں، موت کے سفر پر روانہ ہونے کو بھی عار نہیں سمجھتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ روزانہ، بالخصوص ویک اینڈ پر، لوگ قیامت خیز رفتار سے ہیوی بائیکس پر تفریح فرماتے ہیں اور حادثات کا اندیشہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

بات خیرمقامی قبرستانوں کی کر رہا تھا۔ میرے بزرگوں کی قبریں تاندلیانوالہ، سمندری اور لائل پورمیں ہیں۔ والد اور والدہ، لائل پور میں آسودہ خاک ہیں۔ راجہ والہ جسے گرین ٹاؤن بھی کہاجاتاہے اس کے ایک کونے میں خاموشی کا یہ شہر آبادہے۔

ویسے تو ہردم، اپنے بزرگوں اور بالخصوص والدین کے لیے دعاکرتا رہتا ہوں۔ مگر قبروں پر جا کر مغفرت کی دعا پڑھنا بھی حددرجہ لازم ہے۔ اور یہیں سے غم اور اندوہ کا وہ معاملہ شروع ہو جاتا ہے جس سے پرانی یادوں کا آئینہ، کرچی کرچی ہو کر، رگ و جاں میں پیوست ہو جاتا ہے۔ والدین کی شفقت یاد آتی ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔

اور دعائے مغفرت، آنسوؤں کے قیمتی پانی کے ساتھ، خدا کے حضور پیش ہوتی ہیں۔ مگر ایک پہلو حد درجہ اہم بھی ہے اور باعث آزار بھی۔ راجہ والے کے قبرستان میں ہر طرز کی بدانتظامی عود کر آئی ہے۔ قبروں کی ترتیب سرے سے کوئی ہے ہی نہیں۔ یعنی، اگروالد اور والدہ کی قبر پر جاناہو تو عملی طور پر کوئی راستہ موجودنہیں ہے۔

ہرجگہ پر مٹی کھود کر انسانوں کی تدفین کی گئی ہے۔ اب، کسی بھی قبر پرپاؤں رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ بلکہ بے ادبی کا گمان ہوتا ہے تو پھر، بچ بچا کر، دوسری قبروں کے کونوں پر چلتے ہوئے، بڑی دشواری سے بزرگوں کی قبروں تک پہنچنا پڑتا ہے۔ کہنے کو تو تدفین کے وقت ہر قبر کے ساتھ ایک ٹہنی لگائی جاتی ہے، کہ تھوڑے عرصے میں یہ سایہ دار درخت بن جائے گا۔ مگر عدم توجہ کی بدولت، ننانوے فیصد ٹہنیاں، ہری نہیں ہو پاتیں۔

راجہ والا میں جب فاتحہ کے لیے جانا ہوتا ہے، توہر بار کوئی نہ کوئی نیا گورکن نظر آتا ہے۔ اگر آپ نے اچھے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں تو وہ بھاگ کر ایک بالٹی میں پانی لے کر آتا ہے اور قبر کی مٹی کو سیراب کرنا شروع کر دیتاہے۔

اس کی یہ وقتی پھرتی بھی تکلیف کا باعث ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر وہ آپ سے پیسے مانگ رہا ہوتاہے۔ اس وقت ہر انسان پر غم کا وہ پہاڑ ٹوٹا ہوتا ہے کہ جوکچھ بھی آپ کی جیب میں ہوتا ہے وہ نکال کر اس گورکن کے حوالے کردیتا ہے۔

بہرحال، یہ ایک جذباتی مرحلہ ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کی فیس منسلک ہوتی ہے۔ ایک بات حد درجہ اہم ہے۔ جولوگ، اپنے پیاروں کی قبروں پرطویل مدت تک نہیں جاتے وہ تمام کی تمام، ختم کر دی جاتی ہیں۔

ایک بات لکھنا بھول گیا۔ ہمارے قبرستانوں میں منشیات فروش دندناتے پھرتے ہیں۔ ہر طرح کانشہ کرنے والوں کے لیے بہترین آماجگاہیں ہیں۔ نشہ بیچنے اورمنشیات کا بے دریغ استعمال کرنے والے بھی، شہر خموشاں کی بدانتظامی میں اضافہ در اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی مرنے کے بعد بھی بے سکونی کی ابتلاء قائم کرنے میں کوئی شرم نہیں آتی۔

اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے۔ کہ مختلف جرائم پیشہ لوگ، اپنا اسلحہ چھپانے کے لیے "شہر خاموشاں" کو سب سے بہترین اورمحفوظ جگہ گردانتے ہیں۔ اب ذرا تمام عناصر کوملاکردیکھیے تو ہمارے قبرستان بدانتظامی، جرائم، منشیات اور جانوروں کی آلائشوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ ہرانسان کی مجبوری ہوتی ہے کہ اس نے اپنے پیاروں کے لیے قبرستان میں لازم جانا ہوتاہے مگر وہاں کی ابتری دیکھ کردل دکھتاہے۔

قیامت یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا حکومتی ادارہ نہیں، جو اس بدانتظامی کی ذمے داری قبول کرنے کوتیار ہوں۔ اور کیوں کریں، یہاں توزندہ لوگوں کی بدحالی کی کسی کومعمولی سی بھی کوئی فکرنہیں۔ توبچارے، مردہ لوگوں کی آسودہ حالی کاخیال کون کرے۔

جناب! ہم عام آدمی کو عزت کی زندگی دینے میں ناکام رہے ہیں۔ کم از کم، انھیں دائمی نیند کے لیے باعزت قبرستان توفراہم کردیں۔

حکومت توہر جگہ بے بس نظر آتی ہے۔ مگر مقامی لوگ مل جل کر یہ نیک کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ مگر صاحبان ہم ہر مرحلہ اور ہر جگہ صرف اور صرف ناکام ہیں۔ اور اس بربادی کی دلدل میں مزید ڈوبتے جا رہے ہیں۔ جہاں زندہ رہنا محال ہے، وہاں قبرستانوں کون بہتر بنائے گا۔