Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qatil Video Games

Qatil Video Games

زین، لاہور کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبہ کاہنے کا رہنے والا ہے۔ اسے ہر وقت وڈیو گیمز کھیلنے کا جنون تھا۔ گھنٹوں کمرے میں بند نت نئی گیمز کھیلنے میں مشغول رہتا تھا۔ گھر والوں سے ملنا جلنا بھی واجبی سا تھا۔ کم عمر تھا اور اس کی پوری زندگی اب موبائل پر وڈیوگیمز پر مرکوز ہو چکی تھی۔ اسکول میں کیا ہو رہا ہے۔ تعلیمی نتائج کیونکر اتنے نیچے جا چکے ہیں۔

وزن تیزی سے کیسے بڑھ چکا ہے۔ اسے کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ بس بند کمرہ اور خاموشی۔ صرف اور صرف وڈیو گیم کھیلنا اس کی زندگی بن چکا تھا۔ ماں ڈاکٹر تھی اور اس کے اور بھی تین بچے تھے۔ سارہ نور اور جنت بیٹیاں اور تیمور بیٹا تھا۔ جنت سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔ اس کی عمر آٹھ برس تھی۔ وہ بھی زین کو کہتی رہتی تھی کہ بھائی، کمرے سے باہر نکلو، کہیں باہر چلتے ہیں۔ چلو گھر میں کرکٹ کھیل لیتے ہیں۔

مگر زین کا جواب ہمیشہ ایک جیسا ہوتا تھا۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ گیم کھیل رہا ہوں۔ ڈاکٹر ناہید جو کہ زین کی والدہ تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو ٹوکنا شروع کر دیا کہ وہ سارا سارا دن کمرے میں بند وڈیو گیمز کیوں کھیلتا رہتا ہے۔

یہ مناسب بات نہیں ہے۔ مگر زین اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کی کوئی بات نہیں مانتا تھا۔ اس کے لیے تو وڈیو گیمز ہی سب کچھ تھیں۔ کچھ عرصہ سے زین نے پب جی نام کی نئی گیم منگوائی تھی۔ اس کے بعد تو وہ مکمل دن اور رات پب جی کھیلتا رہتا تھا۔ ڈاکٹر ناہید ایک دن کمرے میں گئی اوربہت غصہ سے منع کیا کہ خبردار یہ عادت اور حرکات چھوڑو۔ یہ تمہاری صحت کے لیے بہت خطرناک ہے۔

زین کو یہ لعن طعن بہت بری لگی۔ باہر گیا۔ کسی سے پستول لیا۔ چپکے سے گھر آیا۔ اپنی والدہ، دونوں بہنوں اور بھائی کو قتل کر دیا۔ یہ خبر قیامت کی طرح چاروں اطراف پھیل گئی۔ پولیس آئی، تفتیش شروع ہوئی، معمولی سی تفتیش نے بات کھول کر رکھ دی۔ اپنے خاندان کا قاتل زین ہی تھا۔ اسی نے یہ اندوہناک حرکت کی تھی۔ اب وہ پولیس حراست میں ہے۔ ٹھیک دو ہفتے پہلے کا واقعہ ہے۔

بالکل اسی نوعیت کے ایک اور واقعہ کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ نواں کوٹ لاہور میں بلال نامی ایک شخص رہتا تھا۔ اس کے گھریلو مسائل کافی تھے۔ بیوی چھوڑ کر جا چکی تھی۔ اب اس نوجوان نے کیا وطیرہ اپنایا۔ سارا دن اور رات پب جی گیم گھیلتا رہتا تھا۔ یہ وہی بدبخت گیم تھی، جو اس سے پہلے بیان شدہ واقعہ کا ملزم یعنی زین کھیلنے میں مشغول رہتا تھا۔ بلال نے ایک حد درجہ خطرناک بات سوچی۔ فیصلہ کیا کہ پب جی گیم کو عملی زندگی میں کھیلنا شروع کر دے۔ یعنی جس طرح وڈیو گیم میں قتل و غارت ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اپنے اردگرد زندگی میں بھی یہی سب کچھ شروع کر دے۔

بلال نے کہیں سے اسلحہ لیا۔ گھر آ کر پب جی گیم کاایک کریکٹر بن گیا۔ گھر میں اہل خانہ سے خون کی ہولی شروع کی، بہن، بہنوئی اور ان کے ایک دوست کو قتل کر دیا۔ بلال اب ذہنی طور پر پب جی گیم کا ایک خونی کردار تھا۔ فرق صرف یہ کہ وہ گیم سے باہر نکل کر عام دنیا میں آ چکا تھا۔

اس کے بعد گلی میں نکل گیا۔ والدہ اور بھائی، سودا سلف لے کر گھر واپس آ رہے تھے۔ بلال نے ان پر بھی فائرنگ شروع کر دی۔ دونوں شدید زخمی ہو گئے، مگر زندہ بچ گئے۔ معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا۔ گلی میں دو چار لوگ موجود تھے۔ بلال نے ان پر بھی فائرنگ شروع کر دی۔ وہ زخمی ہوئے مگر خدا کی قدرت کہ بہر حال زندہ رہے۔ ورنہ بلال نے ان سب کو قتل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جب پولیس نے اسے گرفتار کیا۔ تو بلال نے کہا کہ اس نے تو کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ وہ تو پب جی گیم کے مطابق آن لائن فائرنگ کر رہا تھا۔ وہ تو وڈیو گیم کھیل رہا تھا۔ بہرحال بلال اب جیل میں ہے اور قتل کے مقدمہ کو بھگت رہا ہے۔

ہمیں انتہائی سنجیدگی سے ان معاملات کو خانگی اور حکومتی سطح پر حل کرنا چاہیے۔ Nustکی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا اور طالبات اکاون فیصد، انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر (Internet Gaming Disdorder) میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ پڑھے لکھے اور تعلیمی اداروں کے بچوں اور بچیوں کے متعلق عرض کر رہا ہوں۔ یہ ایک شدید طرز کی نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا انسان کسی بھی منفی طرز عمل کو اپنا سکتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی درج ہے کہ جو بھی انسان ایک ہفتہ میں چالیس گھنٹے تک وڈیو گیم کھیلتا ہے وہ اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

اگر ایک جوان لڑکا یا لڑکی، سات دنوں میں تقریباً دو دن، صرف وڈیو گیم کھیلے گی تو تعلیمی محنت کس وقت ہو گی، بلکہ کیا خاک ہو گی۔ مطلب یہ کہ تعلیم سے بھی فراغت اور ساتھ ساتھ شدید نفسیاتی بیماریاں بھی شروع۔ عرض کرتا چلوں کہ اس معاملہ کی ابتداء کیسے ہوتی ہے۔

والدین، چھوٹے چھوٹے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے موبائل فون دے دیتے ہیں۔ بچے، ان پر معصومانہ وڈیو گیمز کھیلنی شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کمپیوٹر، ٹیبلٹ یا موبائل فون بچوں کے ہاتھ سے لیں، تو وہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی فون واپس کریں تو بڑی خاموشی سے دوبارہ مصروف کار ہو جاتے ہیں۔ دو دو چار چار سال کے بچے کئی کئی گھنٹے اپنے بزرگوں کے موبائل فونز پر یہ تماشا لگائے رکھتے ہیں۔ اب عملی طور پر کیا ہوتا ہے۔ ماں باپ فخریہ طریقے سے مہمانوں اور عزیز رشتے داروں کو بتاتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو بس کمپیوٹر ماسٹر بن چکاہے۔

موبائل فون کا استعمال تو میرے سے بھی بہتر کر لیتا ہے۔ ماں اپنے ننھے منے بچے کی ٹیکنیکل فراست دیکھ کر واری واری جاتی ہے۔ اسے عملی زندگی میں بل گیٹس سمجھ رہی ہوتی ہے۔ مگر حقیقت میں ہو کیا رہا ہوتا ہے۔ معصوم بچہ یا بچی، ماں باپ کی ناسمجھی کی بدولت گیمنگ ڈس آرڈر کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ برا نہ منائیے گا۔ آج کل کی ماؤں کی اکثریت بچوں کی تربیت پر اتنی محنت ہی نہیں کرتیں کہ انھیں ادراک ہو پائے کہ ایک مہلک بیماری ان کے چاند کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔ بالائی طبقے میں تو یہ معاملہ بالکل عام سا ہے۔ اکثر مائیں، بارہ ایک بجے اٹھتی ہیں، خاوند کام کاج کے سلسلے میں باہر جا چکا ہوتا ہے۔

بچوں کو گھر کی نوکرانیوں یا غیر ملکی میڈز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ انھیں کیا غرض کہ بچے موبائل فون کی وڈیو گیم سے کس خطرناک طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کی بلا سے جو مرضی ہو۔ جب والدین کو ہی اپنے لالوں کی فکر نہیں تو ملازمین کا رویہ تو اور بھی ظالمانہ ہو گا۔ یہ تو فطری بات ہے۔ بخدا آج کی حد درجہ پڑھی لکھی ماؤں کی اکثریت سے پرانے طرز کی ان پڑھ یا نیم خواندہ مائیں ہزار درجے بہتر تھیں۔

بچوں پر چوبیس گھنٹے کڑی نظر رکھتی تھیں۔ تھوڑے سے بڑے ہوتے تھے تو ان کے دوستوں کی لمبی چوڑی پڑتال ہوتی تھی۔ مجال ہے کہ کوئی لوفر یا خراب ذہن کا نوجوان ان کے بچوں کے قریب بھی پھٹک سکے۔ یقین فرمائیے۔ وہ فرشتہ سیرت مائیں، اپنے بچوں کی اس طرح حفاظت کرتی تھیں، جیسے شیرنی اپنے بچوں کی کرتی تھی۔ نوجوانی میں بھی یہی عالم تھا۔ گھر کی بچیاں، بھائی یا کسی بزرگ کے بغیر گھر کی دہلیز سے باہر قدم نہیں نکال سکتی تھیں۔ وہ کیا کر رہی ہیں، اور کیا نہیں کر رہی، یہ سب کچھ ماں اور باپ دونوں کے علم میں ہوتا تھا۔ یہ نہیں، کہ ماضی میں ہر چیز درست تھی۔ مگر والدین کا اولاد پر اثر حد درجہ مؤثر تھا۔

آج کی مثال بھی دینا چاہتا ہوں۔ کئی والدین کو جانتا ہوں جو اپنی اولاد کو کسی صورت میں وڈیو گیم کے نزدیک نہیں جانے دیتے۔ انھیں کتابوں کی طرف لے کر آتے ہیں۔ کمروں کے اندر انتہائی دیدہ زیب کتابیں سجا کر رکھتے ہیں۔ بچے نہ چاہتے ہوئے بھی چھوٹی چھوٹی کتابوں کی طرف فطری طور پر مائل ہو جاتے ہیں، اور جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں پڑھنا اور محنت کرنا ان کی عادت بن جاتی ہے۔ اپنے گھر سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔

مبارز اور حمزہ، میرے دونوں بیٹے بچپن ہی سے چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے لگ گئے تھے۔ چوتھی یا شاید پانچویں کلاس میں ایک دن دیکھا کہ بڑا بیٹا مبارز ایک ضخیم سا انگریزی ناول پڑھ رہا تھا۔ کافی حیرانگی ہوئی۔ کیونکہ یہ تو میرے جیسے بندے کے لیے بھی پڑھنا کافی مشکل تھا۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ ہیری پوٹر کی نئی کتاب آئی ہے۔ اور صاحبزادے اس کو پڑھ رہے ہیں۔ چھوٹے بیٹے حمزہ کا بھی یہی حال ہے۔ اب وہ بڑے ہو گئے ہیں۔ لہٰذا سنجیدہ کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ گھر میں وڈیو گیمز کھیلنے کا پلے اسٹیشن نہیں ہے۔ بالکل ہے۔ مگر بچوں کی تربیت اس توازن کی ہوئی ہے کہ وڈیوگیمز بہت کم دیکھتے ہیں۔

بچوں کا ذہن حد درجہ ناپختہ ہوتا ہے۔ آپ جس طرف مرضی لے جائیں۔ میری اہلیہ نے شدید ریاضت کر کے دونوں بچوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق ڈالا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں۔ جنھوں نے وڈیو گیمز کو بڑی احتیاط سے گھروں میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی سمجھ داری کا تقاضا ہے اور یہی معاملہ فہمی ہے۔ نئی نسل کی تربیت کا درست طریقہ بھی یہی ہے۔ مگر کیا کروں۔

والدین کی معمولی سی کوتاہی سے ان گنت بلال اور زین پیدا ہو چکے ہیں۔ ان کی ذہنی ساخت کون تبدیل کرے گا؟ یہ ایک نیا سماجی المیہ ہے۔ جس پر کسی کا بھی کوئی دھیان نہیں۔ اب تو بگاڑ خون ریزی تک پہنچ چکا ہے۔ آگے دیکھیے اور مزید کیا عذاب پیدا ہو گا۔ بہرحال بچوں کو وڈیو گیمز کے مسلسل استعمال سے بچائیں۔ اس میں آپ کی اور ان کی بہتری ہے۔