Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qaumi Mafadaat Ke Tehat Mushkil Faislay Karen!

Qaumi Mafadaat Ke Tehat Mushkil Faislay Karen!

کشمیر میں صورتحال حددرجہ خراب ہے۔ مقامی مسلمان ہرطرح کی ابتلاء میں مبتلاہیں۔ ہندوستان کی سیاسی اور مذہبی بنیادپرستی سب کے سامنے ہے۔ مگراس میں کوئی بھی نئی بات نہیں۔ بہترسالوں سے اس بدقسمت علاقے میں کشیدگی ہی کشیدگی ہے۔ وہاں کے باسی ایک خوفناک لڑائی میں شامل ہونے پرمجبورہیں جس میں وہ صرف ایک جزوی فریق ہیں۔

سب سے کمزور فریق۔ جوصرف اورصرف برباد ہونے کے لیے سانس لے رہے ہیں۔ کبھی ایک کی خوشی کے لیے اورکبھی دوسرے کوزچ کرنے کے لیے۔ ہمسایہ ممالک یعنی پاک وہنداس خطرناک شطرنج کے اصل کھلاڑی ہیں۔ دونوں طرف حقائق اپنے اپنے زاویے سے بیان کیے جاتے ہیں۔ ہرایک کااپناسچ ہے۔ دوسرے سے متضادبلکہ سوفیصد مختلف۔ ایک کادہشت گرد، دوسرے کاہیرو ہے۔

یہ صورتحال جیسی ہے، قرائن یہی ہیںیہ ویسی ہی رہے گی۔ وہی دہائیوں پرانی باتیں اورایک جیسی یکسانیت سے مزین خون اورموت کا کھیل جاری رہے گا۔ یہ صورتحال بدلے گی نہیں۔ کم ازکم موجودہ حالات میں تویہی نظرآرہاہے۔ باقی سب کچھ جذباتیت ہے، نعرے ہیں اورخوش فہمی ہے۔ محتاط الفاظ میں اس صورتحال میں، دونوں ممالک ایک دوسرے کومکمل طورپرشکست دینے کی طاقت سے محروم ہیں۔ یعنی عسکری طورپرکوئی بھی فیصلہ ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

اس کشیدہ صورتحال کوصرف ایک پہلوسے دیکھنا مناسب نہیںہے۔ اس کے اَن گنت پہلوہیں۔ جدیدترین ابلاغی ذرایع کی بدولت اب صورتحال کوہرزاویہ سے پرکھنا نسبتاًآسان ہے۔ مگربہت آسان نہیں۔ اس لیے کہ تعصب کوکم رکھنا اور غیرمتعصب رائے دیناحددرجہ مشکل کام ہے۔ کم ازکم ہمارے جیسے معاشروں میں توتقریباًناممکن اَمر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں ہندوبنیادپرستی پہلی بارسرکاری طورپر پنپ رہی ہے۔

دراصل برصغیرمیں دونوں ممالک کومعرضِ وجودمیں لانے والے برطانوی درسگاہوں کے تعلیم یافتہ اشخاص تھے۔ ہندوستان میں نہرواوراس کے ساتھی اندازہ لگا چکے تھے کہ اتنے بڑے ملک کو صرف اور صرف سیکولرآئین کے ذریعے چلایا جاسکتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان میں سیکولرازم کے نعرے کے باوجود، ہندو برتری ہرصورت میں موجودرہی۔ مگر قانونی طورپریہ ملک مذہب کو ریاست کی بنیادتسلیم نہیں کرتا تھا۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں ہمارے قائدین کے خیالات کس قدرآزاد تھے، اس پر بات کرنی حددرجہ مشکل ہے۔ صرف یہی عرض کروں گاکہ پاکستان کے خالق ہرگز ہرگزقدامت پسندنہیں تھے۔ مگر ہمارے ملک میں مذہب کو ریاست کے نام پر کامیابی سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیاء الحق نے گیارہ برس میں پورے ملک میںایک خوفناک سوشل انجینئرنگ کی۔ جہادی جتھے سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھائے گئے۔

انھیں ریاست نے اپنے مفادمیں استعمال کرنے کی بھرپورمحنت کی۔ ضیاء الحق نے اس پاکستان کی بنیاد ڈالی، جوہمارے ملک بنانے والوں کے خیالات سے اَزحد مختلف بلکہ متضادتھا۔ یہ حقائق تلخ بھی ہیں اور ہماری بربادی کا نوحہ بھی۔ گزشتہ چھ سال سے ہندوستان میں بعینہ یہی کچھ ہورہاہے۔ بی جے پی کی حکومت بنیادی طورپر ہندوستان کے آئینی ڈھانچہ کی عملی نفی کررہی ہے۔ موجودہ حالات میں ہندوستان صرف اورصرف ہندوؤں کے لیے مختص ہے۔

تین لوگ، امیت شاہ، مودی اور راج ناتھ، اس نئے ہندوستان کے خالق ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے ہندوستان میں سیکولر طاقتیں مکمل طورپرناکام ہوچکی ہیں۔ موجودہ ہندوستان صرف اورصرف ایک مذہب اورایک مخصوص سوچ کے مالک لوگوں کاہے۔ بی جے پی، ہندوستان کوجس تباہی کی طرف لے جارہی ہے، موجودہ کشمیراس کی صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ہندوستان میں آزادآوازیں موجودہیں جو توانائی سے اُٹھ رہی ہیں۔ اس کے بالکل برعکس ہمارے ملک میں ترقی پسندسوچ کواُٹھاناخطرے سے خالی نہیں۔ بلکہ اب توممکن ہی نہیں۔ ہندوستان میں نئی سوشل انجینئرنگ کی جارہی ہے جس کا انجام حددرجہ تلخ نکلے گا۔ بی جے پی کواس عمل کے ردِعمل کافی الحال احساس نہیں ہے۔ ہم اس عذاب کوبھگت چکے ہیں۔

موجودہ غیرمعمولی صورتحال میں ہمیں کیاکرنا چاہیے۔ ہمارالائحہ عمل کیاہوناچاہیے۔ ہمارے قومی مفادات کیسے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ وہ حددرجہ سنجیدہ سوالات ہیں، جن پربات کرنی اَزحدضروری ہے۔ پہلی بات تویہ کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی تمام ترناکامیوں کے باوجودسفارتی سطح پر حددرجہ فعال نظرآتی ہے۔ معاشی بربادی کی ذمے داری سے توانھیں بری الذمہ نہیں کیاجاسکتا۔ مگرکشمیرکے معاملہ میں تحریک انصاف نے بہتر حکمتِ عملی کامظاہرہ کیاہے۔ بہت عرصے کے بعدپاکستان، اس مسئلہ کوانتہائی دانائی سے دنیاکے سامنے لے کر آیاہے۔

دنیاکومعمولی سااحساس ہواہے کہ کشمیرایک سلگتا ہوا آتش فشاں ہے، جوسب کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ہندوستان پراتنادباؤموجودہے کہ وہ کشمیر میں فوری طورپراپنی داخلی پالیسی تبدیل کرلے۔ قیافہ ہے کہ مودی نے کشمیرمیں انتہائی قدم اُٹھانے سے پہلے دنیاکے اہم ترین ممالک کواعتمادمیں لیاہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام ترسفارتی کوششوں کے باوجودایک دوفقرے ہی ہرطرف سے سنائی دیے جا رہے ہیں۔ تمام ممالک فرمارہے ہیں کہ انھیں اس صورتحال پربے حدتشویش ہے اور معاملہ پرسنجیدگی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں طالبعلم صرف ایک گزارش کریگاکہ کیایہ موقعہ نہیں کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کے زیرِتحت آزاداورٹھوس فیصلے کرنے چاہئیں۔ بالکل کرنے چاہئیں۔ سب سے پہلے تویہ عرض کرونگاکہ "مسلم اُمہ" کا جو خواب ہمیں دہائیوں سے دکھایاجارہا تھا اس کی عملی تعبیرموجودہ حالات میں کھل کرسامنے آئی ہے۔ "مسلم اُمہ"نام کاکوئی بلاک، کوئی تصویر، اس وقت سامنے نہیں ہے۔ انتہائی افسوس سے کہناپڑتاہے کہ سعودی عرب جیساملک، جسکے لیے ہم ہروقت ہرطرح تیاررہتے ہیں۔

اس نے بھی ان دنوں میں بھارت میں پچھتربلین ڈالرکی سرمایہ کاری کی ہے۔ سعودی عرب نے اپنی تاریخ کاسب سے بڑااقتصادی فیصلہ کیاہے اور اپنا وزن ہندوستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ یہ کام، سعودی عرب نے اپنے قومی مفادات میں کیا ہے۔ یہ اسکابنیادی حق ہے اوراس پرہم بالکل اعتراض نہیں کرسکتے۔ کرنابھی نہیں چاہیے۔ بالکل اسی طرح، یواے ای اوربحرین نے مودی کواعلیٰ ترین سول ایوارڈدیکرثابت کیا ہے کہ تجارتی تعلقات اوراپنے اپنے قومی مفادات سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ پچھلے سال فلسطین نے مودی کو سول ایوارڈسے نوازاتھا۔ ان اقدامات پرکوئی غم نہیں ہے۔

اس لیے کہ ہرقوم صرف اورصرف اپنے قومی مفادات کے تحت فیصلے کرتی ہے۔ مگرمجھے دکھ اس بات کاہے کہ ہمارے چند سرکاری اورغیرسرکاری بزرجمہر ہمیں "مسلم اُمہ" اور نشاۃ ثانیہ کاخواب دکھاتے رہے ہیں جواب عملی طورپرختم ہوچکا ہے۔ اس وقت پاکستان مکمل طورپراکیلا، کشمیری مسلمانوں کے لیے کھڑاہے اوراپنی توانائی اوراستطاعت سے بہت بڑھ کر ایستادہ ہے۔ مگر کیا یہ موقعہ نہیں کہ ہم اپنے فیصلے اپنے قومی مفادات کے تحت کریں۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان کی حفاظت ہماری فوج کررہی ہے۔ کیااب ہمیں واقعی یہ کرناچاہیے، چلیے اگر کرنا بھی چاہیے تواس کی قیمت کیاہونی چاہیے۔

کیاموقعہ نہیں کہ پاکستان، سعودی عرب سے سخت ترین شرائط رکھ کراپنے مفادات کے تحت نیامعاہدہ کرے۔ اس معاہدہ کوپارلیمنٹ میں زیرِبحث لایاجائے۔ کیااس کا عملی فائدہ اُٹھاناقومی مفاد میں نہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ معاملہ اس کے علاوہ بھی ہے۔ بالکل اسی طرح یواے ای کو پاکستانی لوگوںنے تعمیر کیا ہے۔ اس کی عمارتیں، سڑکیں، باغ اور انفرااسٹرکچر ہمارے محنت کشوں کی بدولت ہے۔ جس نفرت کا اظہار امارات نے ہمارے ساتھ کیاہے۔ جلدیابدیر۔ وہ پاکستانیوں کووہاں سے نکال کردم لے گا۔

کیایہ موقعہ نہیں کہ ہم اپنے محنت کشوں کے لیے سرکاری طورپربہترممالک تلاش کریں۔ یو اے ای نے توہمیں دھوکا دیدیاہے۔ کیااب ہم لوگوں کے لیے یہ موقعہ نہیں کہ ان سے پیچھاچھڑوائیں اوراپنے لوگوں کو وہاں سے بتدریج واپس بلوائیں اورانھیں دوسرے ممالک میں افرادی قوت کے اعتبارسے بہترین شرائط پربھجیں۔

واقعات یہ ثابت کررہے ہیں کہ مسلم ممالک، کشمیر کے مسئلہ کوبرصغیرکامسئلہ گردان رہے ہیں۔ ان کا ہماری طرف نہ کوئی رجحان ہے اورنہ اس معاملہ پر ان کا ہماری طرف کوئی جھکاؤہے۔ کشمیرکے لاکھوں مسلمانوں کوبنیادی طورپرمسلم ممالک نے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ کیاکسی برادرمسلم ملک نے کہاکہ کشمیر میں معصوم بچوں کے لیے دودھ کاانتظام کریگا۔ وہاں کے اسپتالوں کودوائیاں فراہم کریگا۔ یا خوراک کی قلت کو دور کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائیگا۔ صاحبان، کسی نے نہیں کیا۔ کسی نے بیان تک نہیں دیا۔

تلخ بات کرونگا کہ کشمیر، مشرق وسطیٰ کے ممالک کامسئلہ نہیں توفلسطین ہمارامسئلہ کیسے ہے۔ ہم ہروقت کیوں فلسطین کی سفارتی اوردیگرطریقے سے مددکرنے پر کمرباندھے رہتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی مظلومیت اپنی جگہ، مگر ہماراان سے عملی تعلق کیاہے۔ اورصاحبان، اسرائیل سے ہماری کیادشمنی ہے!تمام برادراسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ بہترین تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔

ہم کن وجوہات پر اس ملک سے دشمنی کررہے ہیں۔ مسلم ممالک سے اسرائیل کی جنگیں ہوئیں، وہ تواسے تسلیم کرکے بڑے آرام سے بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے قومی مفادات، مشرق وسطیٰ کے ممالک کے تابع کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ تاریخ تویہی بتاتی ہے کہ آج کے دشمن، کل کے دوست ہو سکتے ہیں۔ اعلیٰ ترین صرف اور صرف اپنے قومی مفادات ہی ہوتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومت پاکستان کے صرف اورصرف قومی مفادات کے تحت مشکل فیصلے کریں۔ وہ فیصلے جو ہمیں بہت پہلے کرلینے چاہیے تھے۔ اب بھی موقعہ ہے کہ آنکھیں کھول کرخواب سے باہر نکلیں اورصرف اپنے ملک پرتوجہ دیں۔ صرف اور صرف پاکستان!