Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Rawadari

Rawadari

سلیم سلطان نے ہڈ بیتی بیان کی اور سیمینار کے شرکاء کو بتایا کہ اس نے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا۔ لاہور کی ایک مستند یونیورسٹی میں داخلہ کے فارم بھجوا دیے۔ انٹرویو ہوا۔ تو بتایا گیا کہ اسلامک اسٹڈیز میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں دیا جا سکتا۔

پھر آن لائن یونیورسٹی میں انھیں مضامین میں داخلہ کی درخواست بھجوا دی، وہاں سے بھی جواب موصول ہوا۔ سلیم سلطان کو داخلہ اس وجہ سے نہ مل پایا کہ وہ کرسچن ہے۔ آپ کے علم میں قطعاً نہیں ہو گا کہ یہ شخص کون ہے، کیا ہے اور کیا کرتا ہے۔

سلیم، بشپ آف لاہور کا ایڈوائزر ہے اور تعلیم یافتہ انسان ہے۔ اس کے بیٹے کو لاہور میں ایک بہت اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملالیکن یہاں کے ماحول میں ٹک نہ سکا۔ نتیجہ یہ کہ والدین نے مجبوراً اسے ایف سی کالج میں داخل کروا دیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ نوجوان سویڈن منتقل ہو گیا۔ یہ واقعات میں نے نہیں گھڑے بلکہ یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا میں منعقد ایک حد درجہ سنجیدہ سیمینارمیں مہمان اسپیکر نے ہزاروں لوگوں کو سنائے۔

چند دن پہلے، عبداللہ ملک نے بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ عمران مسعود جو کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، نے کمال کشادگی کا اظہار کرتے ہوئے اس محفل کے لیے ہال فراہم کیا۔ ادارے کے طلباء، طالبات اور اساتذہ نے بھرپور شرکت کی۔ یہ کوئی معمولی تقریب نہیں تھی۔

بلکہ ہمارے شدت پسند معاشرے میں، دلیل پر مبنی وہ آواز تھی جس کا مقصد مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنا تھا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد جذباتیت کے ماحول میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔ مگر اہم بات تو یہ ہے کہ اس سماج میں مذہبی منافرت کے خلاف چھوٹی سے چھوٹی کوشش بھی حد درجہ ضروری ہے۔

لوگ اگر غیر متعصب بات کریں تو لوگ سنتے ہیں، بلکہ حد درجہ سنجیدگی سے سنتے ہیں۔ اس سیمینار میں بھی یہی ہوا۔ عبداللہ ملک نے سابقہ چیف جسٹس، ملک انوار الحق، علامہ راغب نعیمی، خلیل طاہر سندھو جو کہ سابقہ وزیر برائے اقلیتی امور بھی رہے ہیں۔ ان سب کو مدعو کیا۔ بشپ آف لاہور مصروفیت کی وجہ سے خود نہ آ پائے، اور سلیم سلطان نے ان کی نمایندگی کی۔ یہ نہ سمجھیے کہ یہ کوئی تقریری مقابلہ تھا۔

ہرگز نہیں۔ تمام مہمان اسپیکرز نے قلیل مدت میں اپنی اپنی بات کی۔ اس کے بعد سوال و جواب کا ایک پرمغزسلسلہ شروع ہوا۔ جو کہ حد درجہ مہذب اور رواداری پر مبنی تھا۔ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ علامہ راغب نعیمی نے شائستگی کے ساتھ، اقلیتوں کے ساتھ، دین اسلام میں روا داری کے متعلق بھرپور گفتگو کی۔ اسلامی تاریخ کے حوالے سے مستند واقعات سب کے سامنے لائے۔

رسول اکرم ؐ کی حیات طیبہ سے مثالیں دیں کہ آقاؐ اقلیتوں سے کس درجہ برابری اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ہر مقرر نے اپنی اپنی سوچ کے زاویہ سے میٹھی اور کڑوی دونوں طرح کی باتیں کیں۔ خلیل سندھو جو کہ ایک عملی سیاست دان ہیں اور طاقت کی راہ داریوں کے واقف ہیں، لگی لپٹی بغیر، اقلیتوں کے ساتھ ہمارے ملک میں ناروا سلوک کی کئی مثالیں دیں۔ ایک بات عرض کرتا چلوں۔ ہر بات زمینی حقائق کے مطابق کی گئی۔

کسی بھی مقرر نے کوئی ادنیٰ بات زبان سے نہیں نکالی۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوار الحق صاحب نے بنیادی نکتہ اٹھایا کہ معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کو ختم یا کم کرنے کے لیے "باہمی مکالمے" کی اشد ضرورت ہے۔ انوار الحق صاحب ایک صائب انسان ہیں اور درد دل رکھتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ آئین اور قانون کے تحت تعلیم حاصل کرنے پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں۔ ایک نکتہ وضاحت سے سامنے آیا کہ اسلام میں شدت پسندی اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ یہ تو تمام مذاہب کو عزت کی جگہ پر رکھتا ہے۔ یہ سیمینار بذات خود رواداری کی ایک مثال تھا۔

طلباء اور طالبات کی طرف سے بہت یکسوئی سے سوال و جواب کا سلسلہ ہوا۔ آئین کی عملی حیثیت پر ایک سوال نے تو سب کو سوچ میں ڈال دیا۔ سوال کچھ یوں تھا کہ آئین پاکستان میں تو اقلیتوں کو بھرپور تحفظ حاصل ہے۔ پر اس کی عملی شکل کیا ہے۔

یہ بات حد درجہ صائب ہے کہ ہماری قانون کی کتابوں میں اقلیتوں کے حق میں بھرپور لفاظی موجود ہے۔ مگر ملک کے طول و ارض کے ایک انچ میں بھی قانون کی عملداری موجود نہیں ہے۔ یہ حد درجہ تلخ مگر سچ بات ہے کہ ہم بنیادی سطح پر اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کر پائے۔ عدم مساوات کے ان گنت واقعات ہیں اور ہر ایک کے علم میں ہیں۔

اخبارات کے ذریعے روز کوئی نہ کوئی دلخراش واقعہ ضرور سامنے آتا ہے۔ جہاں ہمارے کمزور طبقے پر کسی نہ کسی طرح کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ مگر معاشرے میں خوف اس قدر ہے کہ اکثریت بھرپور طریقے سے ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کتراتی ہے۔ اور خوف کیوں نہ ہو۔ ایک معمولی سے فقرے کی پاداش میں کسی کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے، اور اس کا کوئی مداوا ہے ہی نہیں۔ ہاں ایک سوال حد درجہ اہم تھا۔ ایک مقرر نے پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندرناتھ منڈل کا ذکر کیا۔ اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ پنجاب کی تقسیم صرف ایک ووٹ سے عمل پذیر ہوئی اور وہ ووٹ بھی ایک مسیحی کا تھا۔

اسپیکر دیوان بہادر سنگھا کا ذکر کر رہا ہوں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پنجاب کی تقسیم سنگھا کے ووٹ سے ہوئی اور قائداعظم نے جو گندر ناتھ کو قانون کی وزارت دی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ جو گندر ناتھ منڈل کو قائد کے فوت ہونے کے فوری بعد دیوار سے لگا دیا گیا۔ اس شخص کو اندازہ ہو گیا کہ محمد علی جناح کے انتقال کے بعد اب اقلیتوں کا کوئی والی وارث نہیں۔ چنانچہ جوگندر نے استعفیٰ دیا اور ہندوستان کے بنگال میں ہجرت کر گیا۔ جاتے ہوئے وزیراعظم لیاقت علی خان کو استعفیٰ کا جو خط لکھا، وہ تاریخ کا حصہ ہے اور آج بھی سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

جو گندر نے تفصیل سے لکھا کہ اسے، اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کوئی حکومتی قدم نظر نہیں آ رہا۔ اور ان کا اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں۔ جو گندر ناتھ کے استعفیٰ کا خط پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ آج بھی اسی طرح کے دگر گوں حالات ہیں۔ دیوان بہادر سنگھا، قائد کے انتقال کے فوراً بعد خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کا پورا خاندان بھی عدم تحفظ کا شکار ہو کر ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ویسے کیا یہ سچ حد درجہ کڑوا نہیں ہے کہ اقلیتوں کے جس بھی شخص نے ملک کی خدمت کی، اس کو کسی نہ کسی طرح ناانصافی کا نشانہ بننا پڑا۔

سیمینار میں بہت سے سوال ایسے تھے۔ جن کے جوابات سے مزید سوال جنم لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جو بھی اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ اسے ملک دشمن قرار کیوں اور کیسے دیا جاتا ہے۔ ویسے اس معاملہ میں طالب علم کا خیال ہے کہ آج کی صورت حال میں اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔ فہمیدہ طبقہ یہ سب کچھ سنتا ہے اور عملی طور پر کمزور طبقے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دلیل کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والا ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔

بلکہ اب تو ہمارا مذہبی طبقہ بھی بھرپور انداز میں اقلیتوں کے قانون اور آئینی حقوق کی بات کرتا ہے۔ مگر سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں ایک سوچ موجود ہے جو کمزور طبقے کومکمل حقوق دینے کے خلاف ہے۔ تشدد کے ذریعے معقول فکر کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

خود کش حملے، بم دھماکے، اقلیتوں کا قتل ان کے نزدیک معمولی سی بات ہے۔ شایدیہ بھول رہے ہیں کہ ہمارے دین کا ایک اہم ستون ہی رواداری اور محبت ہے۔ مگر جس ملک میں مساجد میں مسلمانوں کو شہیدکیا جا رہا ہو، جہاں جمعہ کی نماز کے دوران خود کش حملے ہوں۔ وہاں بیچاری چار فیصد اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کا ذکر بھی کرنا نامناسب سا لگتا ہے۔ پر جوہری طور پر نامناسب لگنے والے مہذب کام بھی تو کسی نے کرنے ہوتے ہیں اور یہ سیمینار اسی غیرروایتی سوچ کاایک عملی مظہر تھا۔