خالد ٹوانہ نے گزشتہ روز، بہاولپور کے نزدیک احمد پور شرقیہ میں موجود صادق گڑھ پیلس کی چند تصاویر بھجوائیں۔ اُجڑا ہوا، خاموش محل جو اب عظیم رہ گیا اور نہ ہی ریاست بہاولپور کا طاقتور دارالحکومت۔ وقت کے سامنے بے بس عمارت۔ کافی دیر تک ان تصاویرکو بغور دیکھتا رہا۔ اس لیے بھی کہ پچیس برس پہلے، اس محل کو بغور دیکھ چکا ہوں۔
خالد ٹوانہ کا تعارف بھی ضروری ہے۔ ان کے والد نادر ٹوانہ میرے والد کے کلاس فیلو بھی تھے اور دوست بھی۔ نادر ٹوانہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ ہر عمر کے انسان، ان کے دوست تھے۔ جب ان سے تعارف ہوا تو میرے والد جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے تھے۔ پھر عجیب واقعہ ہوا۔ نادر پیرانہ سالی کے باوجود انتہائی بے تکلف دوست بن گئے۔
انتہائی نفیس اور رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے۔ ہر رنگ میں ڈھلنے والا ایک نایاب آدمی۔ میں انھیں "چاچا" کہتا تھا۔ نادر ٹوانہ کے انتقال پر جتنا غم ان کے بیٹے خالد کو ہوا ہو گا، اتنی ہی تکلیف میں نے بھی سینے میں چھپا کر رکھی ہے۔ خالد سے بھی محبت کا رشتہ ہے۔ مگر وہ بے تکلفی نہیں جو بزرگوارم نادر ٹوانہ سے تھی۔
بات صادق گڑھ پیلس کی ہو رہی تھی۔ 1992ء میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ آج اسلام آباد سے ایک سرکاری ٹیم آرہی ہے۔ احمد پور شرقیہ میں نواب صاحب کے محل بھی جانا ہے اور وہاں موجود اشیاء کو چیک بھی کرنا ہے۔ میری سرکاری ذمے داری تھی کہ ٹیم کو وہاں لے کر جاؤں اور ان کی معاونت کروں۔ احمد پور شرقیہ، بہاولپور سے تقریباً ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ یا شائد اس سے بھی تھوڑا سا کم۔ خیر جب میں صادق گڑھ پیلس داخل ہوا تو ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔
محل کے باہر، انتہائی دیدہ زیب بجلی کے نمائشی پول لگے ہوئے تھے۔ جو نواب صاحب یعنی صادق عباسی صاحب نے بیرون ملک سے منگوائے تھے۔ ان پر سلور کلر کا روغن ہوا تھا۔ کمال خوبصورت، مگر اُجڑا ہوا دیار۔ پورا محل عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت بند تھا۔ اس بدقسمتی کی واحد وجہ، لواحقین میں ترکہ پر جھگڑا تھا۔ عدالتوں میں بے تحاشا مقدمات چل رہے تھے۔
حکومت نے اس خاندان کی خواہش پر ایک کمیشن ترتیب دے ڈالا تھا جو پوری جائیداد کا مفصل جائزہ لے۔ پھر اسے قانونی لحاظ سے تقسیم کر ڈالے۔ اس فیصلے میں اتنی تاخیر ہوئی کہ پورا خاندان ذاتی مسائل کا شکار ہو گیا۔ اور نزدیک ترین رشتہ دار بھی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے۔
صادق گڑھ پیلس کو جب کمیشن کے ارکان کے لیے کھولا گیا تو وہاں کا سامان دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس وقت موبائل فون نہیں تھے۔ لہذا تصویر نہ کھینچ سکا۔ اس کا قلق آج تک ہے۔ دائیں جانب ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ وہاں تین چار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ موجودہ نواب صاحب کے عملے نے ہمیں بڑی شائستگی سے وہاں بٹھایا۔ کمرے میں ایک چیتے کا بھس بھرا مجسمہ تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ہمیں غور سے دیکھ رہا ہے۔
عجیب بات یہ کہ اس خوبصورت جنگلی جانور کی آنکھیں کسی نے نکال لی تھیں۔ اگر آپ کبھی حنوط شدہ جانوروں کو دیکھیں تو ان کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں اور ان میں کانچ کی بنٹے نما مصنوعی آنکھیں ضرور لگی ہوتی ہیں۔ مگر اس چیتے کی آنکھیں، اپنے پرانے محل کی طرح بے نور تھیں۔ دیوار پر ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔
جس میں برطانوی فوجیوں کا جتھہ دشمن پر حملہ کر رہا تھا۔ نزدیک جا کر دیکھا تو یہ قیمتی ترین تصویر Charge of the light Brigade کی تھی۔ دنیا میں یہ صرف دو تصاویر بنائی گئی تھیں۔ دنیاکے مشہور ترین مصور Thomas Jones Barker کی شہکار تھیں۔ ان میں سے ایک تصویر لندن کے بکھنگم پیلس میں آویزاں تھی۔ دوسری تصویرصادق گڑھ پیلس میں موجود تھی۔
نواب صاحب کے اسٹاف سے پوچھا کہ کیا یہ تصویر اصل ہے۔ انھوں نے روایتی احترام سے بتایا کہ یہ اصلی تصویر ہے۔ اس کی قیمت کتنی ہو گی۔ کم ازکم میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دوتین ملین پاؤنڈ سے کیا کم ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس سے بھی بہت زیادہ ہو۔
خیر اس تصویر میں حیرت انگیز جزئیات موجود تھیں۔ دس بارہ برس پہلے ایک واقف کار بہاولپور سے تشریف لائے تو میں نے خصوصاً اس پینٹنگ کا ذکر کیا۔ وہ خاموش ہو گئے۔ عجیب سا لگا۔ اصرار پر بتایا کہ تصویر صادق گڑھ پیلس سے چوری ہوگئی ہے۔ میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی۔ مگر حقیقت یہی ہے۔ بدقسمتی سے اس محل سے تقریباً تمام بیش قیمت نوادرات غائب ہو چکے ہیں۔ چوری کا لفظ بہرحال نہ چاہتے ہوئے بھی استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔
زندگی میں سانس لینے کے لیے پیسہ بہت ضروری ہے۔ یہی المیہ وہاں بھی پیش آیا۔ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ بڑے ہال میں کرسٹل کی بنی ہوئی کرسیاں تھیں۔ جی ہاں، کرسٹل کی بنی ہوئیں۔ نواب صاحب کے دربار میں مصاحبین انھی کرسیوں پر بیٹھتے تھے۔ ڈیوڑھی میں زرد شیشہ کا ایک بہت بڑا فانوس تھا۔ یہ فانوس اور کرسیاں ہالینڈ سے بنکر آئی تھیں۔ فانوس کی صفائی کے لیے سالانہ ہالینڈ ہی سے ماہرین آتے تھے۔
آج اگر کسی کو بتایا جائے کہ اس زمانے میں نواب صاحب کے درباری کرسٹل کی کرسیاں استعمال کرتے تھے تو کوئی یقین نہیں کریگا۔ وہ کرسیاں کہاں گئیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں، ایک اور بات۔ صادق گڑھ پیلس کے تہہ خانے میں اسلحہ خانہ تھا۔ دنیا کی قیمتی ترین بندوقیں، جیسے Holand and Holand کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔
اس کے علاوہ بلجیم اور انگلستان کے بنے ہوئے قیمتی پستول تھے۔ یہ سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ لندن میں ایک بار اس دکان پر جانے کا اتفاق ہوا جو ہالینڈ اینڈ ہالینڈ بندوق بناتی ہے۔ کم سے کم قیمت بیس ہزار پاؤنڈ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قیمت تین لاکھ پاؤنڈ تک جاتی ہے۔ بندوق پر سونے سے میناکاری کے شاندار نمونہ بنائے جاتے ہیں۔
اسی طرح کی اَن گنت بندوقیں محل کے تہہ خانے میں موجود تھیں۔ مگر آج ان کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔ وقت نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہی عرض کروں گا کہ وقت نے ان کو سرِبازار فروخت کر دیا۔ جن لوگوں کو بندوقوں کا شوق ہے، ان کو اندازہ ہے کہ ہالینڈ اینڈ ہالینڈ کس سطح کا شاہی اسلحہ ہے۔ شنید ہے کہ یہ تمام بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دی گئیں۔
اسلام آباد سے جو کمیشن آیا تھا، اس نے شاہی گاڑیوں کی فہرست بھی ترتیب دینی تھی۔ ان کی حالت بھی لکھ کر بتانی تھی۔ جب محل کے گیراج میں جانا ہوا تو دنیا کی قیمتی ترین گاڑی یعنی رولزرائس کا ایک جمِ غفیر موجود تھا۔ یہ گاڑیاں اینٹوں پر کھڑی تھیں۔ کیڑے مکوڑوں کو دور رکھنے کے لیے ان میں کافور کی ڈلیاں موجود تھیں۔ صاحب حال سے پوچھا کہ دس بارہ رولزرائس گاڑیاں تو دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہیں۔
تو اس نے ایک عجیب قصہ سنایا۔ نواب صاحب گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے لندن گئے ہوئے تھے۔ وہاں رولزرائس کے شوروم پر گئے تو دو تین گاڑیاں بکنے کے لیے موجود تھیں۔ نواب صاحب نے گورے سیلزمین سے پوچھا کہ ایک گاڑی کی کیا قیمت ہے۔ گورے کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ یہ سادہ سا نظر آنے والا شخص، نواب آف بہاولپور ہے۔
طنزاً جواب دیا کہ ان کی قیمت تمہاری سوچ اور جیب سے بھی بہت زیادہ ہے۔ نواب صاحب کے ساتھ ان کا اسٹاف موجود تھا۔ انھوں نے حکم دیا کہ شوروم کے منیجر کو بلایا جائے۔ انگریز آیا تو نواب صاحب نے صرف ایک سوال کیا کہ آپکی کمپنی سال میں کتنی گاڑیاں بناتی ہے۔ تعداد بتائی تو نواب صاحب نے حکم دیا کہ اس برس میں جتنی بھی رولزرائس گاڑیاں بنیں، بہاولپور پہنچا دی جائیں۔
تمام کی تمام گاڑیاں سر صادق عباسی نے خرید لیں۔ گاڑیوں میں ایک گاڑی تھی جس پر رولزرائس شکاری لکھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے والے شیشے یعنی ونڈسکرین کے بالکل ساتھ، بندوق کی نال کے لیے سوراخ موجود تھا۔ گاڑی میں بیٹھا ہوا شخص بڑے آرام سے اپنی بندوق سے شکار کھیل سکتا تھا۔ ایسی نایاب گاڑی دوبارہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ ویسے جو نوادرات صادق گڑھ پیلس میں نظر آئے، مجھے پوری دنیا میں کسی بھی جگہ دیکھنے کو نہ مل سکے۔
بہت کم لوگوں کو اس تاریخی واقعہ کا علم ہے کہ جب قائداعظم نے حلف برداری کے لیے کراچی کے گورنر جنرل ہاؤس جانا تھا، تو حکومت کے پاس رولزرائس گاڑی نہیں تھی۔ واحد سرکاری رولزرائس، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ کے لیے مختص تھی۔ جب قائداعظم کے عملے نے یہ مسئلہ نواب صاحب کو بتایا تو انھوں نے کراچی میں موجود اپنے ملیرپیلس سے رولزرائس گاڑی قائدکے لیے بھجوائی۔ جس تصویر میں قائد اور محترمہ فاطمہ جناح حلف میں جانے کے لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔
وہ گاڑی نواب آف بہاولپور کی تھی۔ اس کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ نواب صاحب نے واپس گاڑی منگوائی یا حکومت پاکستان کو تحفہ میں دے ڈالی۔ بہرحال یہ بات تو تصدیق شدہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد، حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہ دینے کے پیسے نہیں تھے۔ یہ تنخواہ نواب صاحب نے اپنی گرہ سے ادا کی تھی۔ جواہر لعل نہرو نے نواب صاحب کی منت کی تھی کہ پاکستان میں بہاولپور ریاست کو شامل نہ کریں۔
مگر نواب صاحب نے اس کی ایک نہ مانی اور بہاولپور ریاست پاکستان میں شامل ہو گئی۔ مگر دس بارہ برس گزرنے کے بعد، حکومت پاکستان کے اکابرین نے جو اس ریاست کے ساتھ بدسلوکی کی، وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ریاست کی حیثیت ہی ختم کر دی گئی۔ جائیداد خاندانی لڑائی جھگڑوں میں ضایع ہونے لگی۔
نواب صاحب کی اولاد اور خاندان نے بڑے مشکل حالات دیکھے۔ ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ مفلوک الحالی کے چند حقائق تو میں نے خود دیکھے ہیں۔ صادق گڑھ پیلس کے علاوہ، نواب صاحب کے جو محلات اور جائیداد تھی، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بتایا جائے تو شائد داستان گوئی لگے۔ مگر خالد ٹوانہ کی بھیجی ہوئی تصویریں دیکھ کر عجیب کرب سا ہوا۔ کتنی مضبوط اور متمول ریاست اور موجودہ حالات میں اتنی بھیانک خاموشی اور بیابانی۔ صحیح ہے۔ وقت کی تلوار کے سامنے ہم کچھ بھی نہیں۔ بے حقیقت اور بے سامان!