Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Safar He Safar Hai

Safar He Safar Hai

شعور اور لا شعور کے درمیان ایک صحرا ہے جس میں ان گنت مسافر مسلسل بھٹک رہے ہیں۔ عجب سا معاملہ یہ ہے کہ جس نشان کومنزل جانا جاتا ہے۔

وہاں پہنچ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تو طویل ترین سفر کی ابتدا ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ اس سفر کو بھرپور نام دینا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ روحانیت، تصوف، طریقت یا شاید کچھ اور یا کچھ بھی نہیں۔ ذاتی طور پر سائنس کا طالب علم ہوں۔

انسانی جدت اور تحقیق سے بھرپور طور پر متاثر ہوں۔ مگر سوال تو اٹھتا ہے کہ کیا دلیل اور تحقیق صدیوں کی طوالت سے بھی زیادہ مشکل ترین گتھیوں کو سلجھا سکتی ہے۔ یا سمجھا سکتی ہے۔ جواب، اثبات اور نفی دونوں میں معلوم ہوتا ہے۔

کبھی کبھی ایسے معلوم ہوتاہے کہ جواب دونوں کیفیتوں سے بالاتر ہے۔ سائنس کی پگڈنڈیاں انسانی ذہن کو ہر جگہ پہنچانے سے قاصر ہیں۔ Metaphysical معاملات بہرحال ہر صورت موجود ہیں۔ ان کو پہچاننے کے لیے دنیاوی علوم بے بس سے نظر آتے ہیں۔ بار بار گزارش کرونگا کہ سنجیدہ سائنس کا طالب علم ہوں۔ تعلیم کے لحاظ سے ایم بی بی ایس کی ہے۔

انسانی جسم اور اس کے امراض سے واقف ہوں۔ لیکن کئی ایسے معاملات ہیں۔ جن کا ادراک نہیں ہوتا۔ انسانی آنکھ کی ساخت پر غور فرمائیے۔ اس میں قدرت نے بصیرت کے لیے Rods and Cones پیدا کیے ہیں۔ حد درجہ اہم بات ہے کہ کسی بھی انسان کوسات رنگ بنیادی طور پر نظر آ سکتے ہیں۔ مگر حد درجہ ایسے رنگ موجود ہیں جو انسانی آنکھ کی استطاعت سے باہر ہیں۔ جیسے Ultravoilet اور Infraredنہیں دیکھے جا سکتے۔

انسانی آنکھ کی رینج اتنی کم اور کمزور ہے کہ یہ مہین ترین اشیاء بھی دیکھنے سے قاصرہے۔ ان کے لیے مائیکرو اسکوپ درکار ہے۔ بلکہ اب تو الیکٹرون مائیکرو اسکوپ سے بھی معاملہ آگے بڑھ چکا ہے۔ جو مرضی کر لیں۔ انسانی آنکھ Bacteriaنہیں دیکھ سکتی۔ اس کے علاوہ کروڑوں ایسے جرثومے اور اشیاء ہیں جو دیکھے نہیں جا سکتے۔

جیسے Atom کو انسانی آنکھ محسوس بھی نہیں کر سکتی۔ مگر اس پوری صورت حال کو مکمل الٹ کرکے دیکھیے اور پھر سوچیے۔ کیا کوئی بھی ذہین ترین دماغ یہ استدلال دے سکتا ہے کہ جو رنگ اور اشیاء آنکھ نہیں دیکھ سکتی، وہ دراصل موجود ہی نہیں ہیں۔ اصل جواب یہ ہے کہ موجود سب کچھ ہے مگر وہ انسانی آنکھ کی استطاعت سے باہر ہے۔

اس نازک ترین نکتہ سے حد درجہ مضبوط بحث شروع ہوتی ہے۔ جو صوفیاء، درویش اور اہل دل لوگوں کو "سلوک" کی منزلوں سے سمجھاتے ہیں۔ ان کا لاشعور اتنی پختہ سطح پر ہوتا ہے کہ وہ لازوال بصیرت تک پہنچ جاتے ہیں یا کم از کم کوشش ضرور کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں Physical سے Metaphysicalکا سفر کرتے ہیں۔

آگے چلیے۔ انسان کی قوت سماعت حد درجہ قلیل وسعت کی مالک ہے۔ تحقیق کے مطابق سننے کی قوت صرف 20HZ سے لے کر 20KHZکے درمیان ہے۔ مگر کیا یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انسانی کان جو سن سکتے ہیں۔

اس سے اوپر اورنیچے کسی قسم کی کوئی آواز ہی نہیں ہے۔ نہیں صاحبان! بالکل نہیں۔ اس رینج سے اوپر اور نیچے ان گنت اور ہر فرئیکونسی کی آوازیں ہروقت اردگرد موجود ہے۔ مگر ہم لوگ، انھیں سننے کی قوت نہیں رکھتے۔ اس کی مزید ایک حد درجہ سائنسی دلیل ہے۔ جدید ترین آلات کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ سیارچوں اور دیگر اشیاء کے چلنے کی آواز سنی جا سکتی ہے۔

لازم ہے کہ یہ ٹیلی اسکوپس اور دیگر آلات کے ذریعے حد درجہ مہیب آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ مگرزمین پر سانس لیتے ہوئے قطعاً یہ آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ اس اہم ترین نکتہ کو ذرا مختلف انداز سے دیکھیے۔ کیا یہ ثابت ہے کہ جو آوازیں، انسانی کان سن سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کسی آواز کاوجود ہی نہیں ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہماری قوت سماعت کی فرئیکونسی کے باہر متعدد آوازیں ہیں۔ جو ہم سن نہیں پاتے۔

اس تمام بحث کامطلب کیا ہے؟ صرف یہ ہے ایسی آوازیں اور اشیاء موجود ہیں جو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ سن نہیں سکتے۔ استدلال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جو معاملے شعور، محسوس نہیں کر سکتا۔ کیا لاشعور بھی اس قوت سے محروم ہے۔ اس کاممکنہ جواب اثبات میں ہے۔ یعنی لاشعور کی وسعت بہت زیادہ ہے۔

اس نکتہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ Physical world ایک حقیقت ضرور ہے۔ مگر یہ پورا سچ نہیں ہے۔ Metaphysical دنیا بھرپور طریقے سے وجود رکھتی ہے۔ اور قائم و دائم ہے۔ یعنی ہر سچ، rationalنہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح سائنس کو ابھی تک ایک فیصد بھی ادراک نہیں ہو سکا کہ انسانی ذہن کی ممکنہ گہرائیاں کتنی زیادہ ہیں۔

کم اور زیادہ کی بحث تو خیر ہے ہی نہیں۔ میڈیکل سائنس ابھی تک انسانی ذہن کومعمولی سا بھی پڑھنے کی گنجائش نہیں دیتی۔ یہاں سے طالب علم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسے اللہ والے لوگ موجودہیں۔ جو خداکے دیے ہوئے اس حصار کو خداکے حکم سے توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کوہم اگر سمجھ نہیں سکتے۔ تو قصور ہمارا ہے۔ ان کاہرگز نہیں۔ خدا نے یہ قوت اپنے برگزیدہ لوگوں کو ودیعت کی ہے۔

اسلام کی مصدقہ تاریخ کے مطابق، آقا ﷺ نے جنگ بدر کے بعد، کفار کی لاشوں سے ایک بھرپور خطاب فرمایا تھا۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ مجھے سن سکتے ہیں۔ یہ Metaphysicalدنیا کی ایک مثال ہے۔

کسی علمی فکری بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اس لیے کہ میرے پاس صرف اور صرف عشق کی دولت ہے۔ باقی تو سب کچھ خالی خالی سا ہے۔ دنیا میں صوفیا، اولیائ، درویش، قطب، ولی اور ابدال موجود ہیں۔ جو آقا ﷺ کی محبت میں سرشار ہیں۔ اور تصوف کے حد درجہ مشکل راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ لوگوں میں محبت کی شمع جلاتے ہیں۔

ان کے دل جوڑتے ہیں اور فیض عام ہوتے ہیں۔ یہ وصال کے بعد بھی بادشاہ ہوتے ہیں، اور پہلے بھی۔ علی ہجویریؒ کو پردہ فرمائے صدیاں بیت گئیں۔ مگر کوئی بھی ان کے دربار سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو ان کے دربار سے کھانا ملتاہے۔ لنگر دن اور رات مسلسل جاری ہے۔ اب فرمائیے کہ یہ فیض کیونکر ہے؟ لازم ہے کہ یہ خدا کے وہ بندے ہیں۔ جنھوں نے تصوف کو اپنایا اور پھر مخلوق خدا کو ہدایت کے راستے پر لے کر آئے۔ دہلی میں نظام الدین اولیائؒ کے مزار پر حاضری دے کر دیکھیے۔ ہر مذہب کے لوگ دعا کرنے آتے ہیں اور من کی مراد پا کر جاتے ہیں۔ طالب علم خود بھی وہاں حاضری دے چکاہے۔

یقین فرمائیے ہندو اور سکھ وہاں قطاروں میں لگ کر اپنے عقیدے کے مطابق ماتھا ٹیکتے ہیں۔ مسلمان فاتحہ پڑھتے ہیں۔ دعائیں سب مانگتے ہیں۔ وہاں بھی فیض جاری وساری ہے۔ دراصل یہ عشق رسول اور عشق خدا کی وہ راہ ہے جس پر مسافر صرف سفر کرتے ہیں۔

منزل کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ منزل ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ روحانیت میں کتنی وادیاں، گھاٹیاں، جھیلیں اور دریا ہیں، کچھ علم نہیں۔ اب تو یہ حالت ہے کہ کچھ بھی سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ کسی سے بھی گلہ نہیں۔ کسی سے نفرت نہیں، کوئی بھی برانھیں لگتا۔ خیر یہ تو ذاتی بلکہ غیر اہم سی باتیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ بابے بالاخر کون ہیں۔ کیا یہ واقعی ہی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ یا کوئی ڈھونگ، رچایا ہوا ہے۔ اس سوال کاکوئی معقول یا نامعقول جواب نہیں ہے۔ بلکہ شاید اب جواب کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ دل کہتا ہے کہ ایک بھرپور روحانی نظام موجودہے۔ مگر اس کا ادراک بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتاہے۔ ادراک والے لوگ کبھی کبھی بھولے بھٹکے طور پر قلیل مدت کے لیے چہرہ دکھا کر پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ اورمیں لا علمی کے سمندر میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہوں۔ ویسے یہ بابے بہت زیادہ موجی لوگ ہیں۔

ملنے پر آ جائیں تو دن میں متعدد بار مل لیں۔ اور اگر من نہ چاہے تو دہائیوں کے لیے غائب ہو جائیں۔ ان کی ظاہری حالت پر نہ جائیے۔ آپ کا سب کچھ چھین کراپنے لمبے کرتے کی جیب میں ڈال دیتے ہیں اور پھرغائب ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کو ضرورت پڑے تو اس لمبی جیب سے آپ کا سب کچھ روحانی سود سمیت واپس کر دیتے ہیں۔

جناب! یہ سلوک کی شاہراہ پر ننگے پاؤں چلنے والے لوگ ہیں۔ جو دیکھ بھی سکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں۔ میرے جیسے عمل اور رد عمل پر یقین رکھنے والے انسان کی زندگی میں یہ کیوں آ جاتے ہیں۔ ہرگز جواب معلوم نہیں۔ پر جیسے عرض کیا اب کسی سوال اور جواب کی حاجت ہی نہیں رہی۔ بس سفر ہی سفر ہے۔ جانے کب ختم ہو!