شاہ جی سے دودن قبل ملاقات ہونی تھی مگرہونہ پائی۔ وجہ کوروناکی وباء جوشائد پاکستان میں ابھی پوری طرح وارد نہیں ہوئی۔ ہمارے جیسے لاپرواہ لوگ تواس بیماری کوکھینچ کراپنی طرف بلاتے ہیں۔ بیماری کوگودلینے کے لیے اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ اس عالیشان ملک میں نناوے فیصدلوگ اتنی غیرمعیاری زندگی گزاررہے ہیں کہ انھیں اس نعمت کے چھن جانے کاکوئی خوف نہیں۔ بات ملاقات کی ہورہی تھی، کل ویڈیو کال پرتفصیلی بات ہوئی۔ شاہ صاحب بنیادی طور پرایک ڈاکٹرہیں۔ مگر پریکٹس کو بہت کم وقت دیتے ہیں۔
ان کاکام صرف کتابیں پڑھناہے۔ خیال ہوگاکہ وہ صاحب دولت ہوں گے۔ اس لیے سکون سے کتابیں پڑھنے کا شوق پورا کررہے ہیں، نہیں صاحب نہیں۔ شاہ جی انتہائی سفیدپوش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اہلیہ مقامی اسکول میں ٹیچرہیں۔ بیٹااوربیٹی دونوں جاب کرتے ہیں۔ پھرجاکرگھرکاگزارہ ہوتاہے۔ مطلب یہ کہ شاہ صاحب امیر نہیں ہیں۔ لیکن وہ غریب بھی نہیں ہیں۔ انکاایک چھوٹاساکلینک ہے، جسے وہ دن میں صرف دوسے تین گھنٹے کے لیے کھولتے ہیں۔ پریکٹس درمیانی سی ہے۔ مگرجونکتہ عرض کرناچاہتاہوں وہ یہ شاہ صاحب، ایک صاحب رائے انسان ہیں۔ وہ صرف دلیل پربات کرناجانتے ہیں۔ غیرمدلل بات سننے کی توخیرگنجائش ہی نہیں ہے۔
ویڈیوکال پردیکھاکہ شاہ جی اپنے گھرکے ایک کمرے میں علیحدہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ماسک، دستانے اوردیگراحتیاط کی ہوئی ہیں۔ باتیں شروع ہوگئیں۔ موضوع کوروناہی تھا۔ ایک عجیب سااحساس ہوا۔ شاہ جی، اس وباء پربہت خوش نظرآئے۔ کہنے لگے کہ اس ملک میں بائیس کروڑشناختی کارڈ رہتے ہیں۔ جوسانس لینے کوزندگی سمجھتے ہیں۔ ان میں سے اگراکثریت دنیا میں نہ بھی رہے توکوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ دس بارہ سال میں آبادی دوبارہ پہلے جتنی ہوجائے گی۔ بائیس کروڑمیں سے اگراکیس کروڑ بھی نکال دیں توکیاہوگا۔ اسے، قدرت کاانتقام، عذاب کا نام دے کر باقی زندہ رہ جانے والے صبر کرکے خاموش ہوجائیں گے۔
شاہ جی، یہ آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ اتنے زیادہ انسان کیوں مرجائیں؟ شاہ جی نے گویا ہوئے۔ ڈاکٹر!یہ بات تمہاری سمجھ سے باہرہے۔ تم نعروں کی افیم پرزندہ ہو۔ انسانی حقوق، مساوات، برابری، قانون کی حکمرانی، عدل اوراسطرح کے بے معنی لفظوں پریقین رکھتے ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس کرہِ اَرض پر کبھی انصاف تھااورنہ ہوگا۔ نہ مساوات، برابری، عدل جیساکچھ تھااورنہ ہوگا۔ قانون کی حکمرانی کبھی ممکن ہی نہیں ہے۔ مگرپھرکیاممکن ہے؟ میرے اس سوال سے شاہ جی فون بندکرنے لگے۔ بڑی مشکل سے انھیں باتیں کرنے پرراضی کیا۔ شاہ جی کا گلہ تھاکہ ڈاکٹر، تم کبھی حقیقت پسندنہیں ہوسکتے۔ تمہارے اندر، گمانی کی بلکہ خیالی دنیاہے۔ مگردنیاایک مسلسل عمل کانام ہے۔ جس کا تمہیں بالکل شعورنہیں۔
غورسے سنتارہا۔ ڈاکٹر! دنیا میں صرف دوہی طبقات ہیں۔ دو ہی نظریے ہیں۔ ایک غریب اور ایک امیر۔ دنیاکے پسماندہ ترین ملکوں کو دیکھو۔ ان کے امیر آدمی ترقی یافتہ دنیاکے امیرآدمیوں سے جیسے ہی ہوں گے۔ گھاناکاامیرآدمی، سری لنکا کا امیر آدمی یا لندن کا امیرآدمی، ان کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ ان کی رہائش گاہیں بہت بڑی ہوں گی۔ لباس، گھڑیاں، جوتے اورانڈروئیر تک بیش قیمت اوربرینڈڈ ہوں گے۔ یہ کھانے میں حددرجہ پرہیزکریں گے۔ ورزش کریں گے۔ بیماری ہوتویہ دنیاکے مہنگے ترین اسپتالوں میں جائیں گے۔ رولزرائس، فراری، بنٹلے، جیسی مہنگی ترین ہوں گے۔ دولت مندہوناایک خاص مائنڈ سیٹ کوجنم دیتا ہے۔
ہم عام لوگوں سے مختلف اور برتر ہیں۔ جمہوریت ہمارے جیسے ملکوں میں دراصل امیرآدمیوں کو اقتدار دینے کادوسرانام ہے۔ یہ بات سن کرمجھے اَزحد افسوس ہوا۔ شاہ جی، جمہوریت تو ووٹ کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ عام لوگ حقِ رائے دہی استعمال کرکے کسی کوبھی اپنی قسمت کامالک بناتے ہیں۔ شاہ جی کاجواب تھا۔ تمہارے جیسے تصوراتی انسان، دراصل، مسئلہ ہیں۔ بلکہ مسئلہ کی جڑہیں۔ دنیاکی سب سے قدیم جمہوریت یوکے ہے۔
وہاں، ہاؤس آف لارڈزکیاہے؟ ہاں، ہاؤس آف کامنزمیں تھوڑے بہتے، فٹ پاتھیے، نمائشی طورپر موجود ہیں۔ مگر اقتدارکس کے پاس رہتا ہے۔ ایٹنز(Etans) اورہیرو (Harrow) کے فارغ التحصیل دولت مندنوجوان یابوڑھوں کے پاس۔ کیاتمہیں پتہ ہے، کہ ان دودرسگاہوں کی فیس کتنی ہے۔ یوکے کاعام آدمی، توکیاکوئی خاص آدمی بھی وہاں پڑھنے کا تصوربھی نہیں کرسکتا۔ چرچل سے لے کرٹونی بلیئر، کس طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جناب، یہ ارب پتی لوگ تھے۔ یہ عام آدمیوں کی بظاہر نمایندگی ضرور کر رہے تھے۔ لیکن بذاتِ خود عامی نہیں تھے۔ چلو، لندن کو چھوڑدو۔ امریکا کودیکھ لو۔
ان کی ساری سیاست پر امیر ترین لوگ غالب رہے ہیں۔ اگر کوئی نودولتیا غلطی سے آبھی گیا، تواسکی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ چندسالوں میں اقتداردوبارہ دولت مندطبقے کے پاس واپس چلا جاتاہے۔ جارج بُش سینئر، جونیئر اور ڈونلڈٹرمپ کیا غریب لوگ ہیں، نہیں۔ یہ غریب لوگوں کے ووٹ سے بنے ہوئے بادشاہ ہیں۔ گفتگو کچھ بوجھل سی ہوگئی۔ میں شاہ جی کی باتوں سے متفق نہیں تھا۔ مگراب شاہ جی بات کرنے کے موڈمیں تھے۔
ان کا رخ پاکستان کی سیاست کی طرف ہوگیا۔ تمہارے سابقہ اورحالیہ حکمرانوں کاتعلق بھی امیرترین طبقے سے ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے لیے بنایاگیا تھا۔ مگر اس پرحکمرانی کاحق صرف اور صرف حددرجہ امیرطبقے کوہی حاصل رہاہے۔ غریب آدمی صرف ووٹ ڈالنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بہتربرس سے بیوقوف بنتے آئے ہیں اوربنتے رہیں گے۔ موجودہ یاماضی کے حکمرانوں کو دیکھو۔ یہ کون لوگ تھے۔ انکاعوام سے کیاتعلق تھا۔ اَل شریف، بھٹوخاندان، اَل زردار یاکرکٹ کادیوتا عمران خان، یہ تمام لوگ طبقہ کے لحاظ سے طاقتور، مشہور اور آسودہ حال تھے۔
ہاں کبھی کبھی نمائشی طورپر، لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے، درمیانے طبقے سے چند بے معنی سے لوگ تلاش کرلیے جاتے ہیں۔ مگران کوحقِ حکمرانی منتقل نہیں کیا جاتا۔ ان کافرض ایک ہی ہوتا ہے۔ اپنے پیشواؤں کے مالی مفادات کاخیال رکھنا۔ یہ ایک کھیل ہے۔ جس کی سمجھ لوگوں کومکمل طورپرابھی تک نہیں آئی۔ ہاں جنھیں آئی ہے، ان تمام کوکسی نہ کسی طریقے سے خاموش کردیاجاتاہے۔
ہمارے جیسے تمام ملکوں میں اب موروثیت بھی آچکی ہے۔ شائد ایک بات کا تمہیں بالکل ادراک نہ ہو۔ دنیاکے مقتدر اور امیر ترین طبقے مذہب کو پھراپنے مالی مفادات کے تسلسل کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔ شاہ جی کی آوازمیں ایک طعنہ ساآگیا تھا۔ میں خاموشی سے سن رہاتھا۔ ہاں، اب موروثیت آچکی ہے۔ اپنے ملک کی مثال لے لو۔ اب اقتدارکی جنگ میں زرداری، نوازشریف، شہباز شریف، سب کومعلوم ہے کہ وہ حکمران دوبارہ نہیں بنیں گے۔ مگروہ اپنی اولادکواقتدارتحفہ میں دیناچاہتے ہیں۔ اب لڑائی ان کی اولادکوحکمران بنانے پرہے۔ تلخ بات یہ ہے کہ جو وہ چاہیں گے وہی ہوگا۔ ہزاروں برس پہلے بھی اورآج بھی، ایسا ہی ہورہا ہے۔
میں نے شاہ جی سے عرض کی، جناب آپ کے لیکچرکا کورونا سے کیا تعلق۔ مجھے توسمجھ ہی نہیں آرہی کہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ شاہ جی نے قہقہہ لگایا۔ ڈاکٹر، اچھاکورونا میں سب سے بڑی احتیاط کیاہے۔ میں نy جواب دیاکہ سماجی فاصلہ۔ شاہ جی کہنے لگے کہ اَل شریف کا گھر2500 کنال کا ہے۔ عمران خان صاحب کا تین سوکنال کا اورزرداری صاحب کے گھر کا طول وعرض بھی اسی طرح کاہے۔ یہ لوگ توپہلے ہی سے عام لوگوں سے حددرجہ سماجی فاصلے پرہیں۔ انھیں کورونا توہونہیں سکتا۔ ہاں، وباء کا درمیانہ طبقہ یاغریب شناختی کارڈچارہ ہیں۔ دراصل، ہمارے ہاں، امیرآدمی مرنا نہیں چاہتااورغریب آدمی جلداز جلد جنت میں جاناچاہتاہے۔ لہذابحث کاکوئی مقصد نہیں۔ کوئی فائدہ نہیں۔ شاہ جی نے فون تو بند کر دیا۔ رات سے یہی خیال باربارذہن میں آرہاہے کہ کیاشاہ جی کی تمام باتیں بالکل غلط ہیں!