1999کاذکرہے۔ جاویداقبال نام کے ایک شخص نے لاہورمیں ایک اخبارکے ایڈیٹرکوخط لکھا۔ خط کے مندرجات لرزہ خیزتھے۔ درج تھاکہ میں نے ایک سوبچوں کے ساتھ زیادتی کرکے انھیں قتل کیاہے۔ ان کی عمر8سال سے لے کرپندرہ سولہ سال کی تھی۔ موت کے گھاٹ اُتارنے کے بعد، ان کی لاشوں کوتیزاب کے ڈرموں میں ڈال دیتاتھا۔ گوشت اور ہڈیاں گل سڑجاتی تھیں۔
اس کے بعد ان کے بقیہ حصوں کو دریابردکردیتاتھا۔ متعدد بارتودریامیں چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ تیزاب پورے جسم کومحلول میں بدل دیتاتھا۔ اس کے بعد محلول کوبڑے آرام سے نالیوں میں بہا دیا جاتاتھا۔ ایڈیٹرکویقین نہ آیا۔ اسے لگاکہ یہ کوئی دیوانہ انسان ہے اوراہمیت حاصل کرنے کے لیے خط لکھاہے۔ اس طرح کا واقعہ ہوہی نہیں سکتا۔ بہرحال ایڈیٹرنے یہ تمام جزئیات پولیس کو بتائیں۔
جب پولیس اس پتہ پرپہنچی تومعلوم ہواکہ یہ توایک بھرپورمقتل ہے بلکہ مذبح ہے۔ گھرکے اندرسخت ترین تیزاب کے ڈرم پڑے ہوئے تھے۔ کمروں میں زنجیریں لگی ہوئی تھیں۔ دیواروں پرخون کے بھرپوردھبے موجود تھے۔ اس کے علاوہ جابجامقتولین کے نام بڑی صفائی سے لکھے ہوئے تھے۔ پورے گھرکی ایک ایک اینٹ چیخ چیخ کر بتارہی تھی کہ یہاں ظلم، زیادتی کے دلخراش واقعات مسلسل ہوتے رہے ہیں۔ درج شدہ تمام نام گمشدہ بچوں کے تھے۔
تفتیش ہی میں معلوم ہواکہ گمشدہ بچے پورے پاکستان سے کسی نہ کسی طرح لاہورپہنچتے تھے۔ یہاں درباروں اور گلیوں میں بسیرا کرلیتے تھے۔ جاویداقبال اوراس کے تین ساتھی، انھیں بہلاپھسلاکرگھرلے آتے تھے۔ اس کے بعدزنجیروں سے باندھ کراجتماعی زیادتی کرتے تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعدانھیں سفاک طریقے سے قتل کردیاجاتاتھا۔ لاش کوبھی تیزاب کے ڈرم میں ڈال کرختم کردیاجاتاتھا۔
اسی جرم کے متعلق ثبوت دینے کے لیے جاویدنے گھرکے صحن میں تیزاب کے دوڈرم رکھے ہوئے تھے اوران میں بچوں کے اعضاء اور لاشیں موجودتھیں۔ پورے ملک میں قیامت برپا ہوگئی۔ گمشدہ بچوں کے والدین، اپنے پیاروں کی تلاش میں لاہور آناشروع ہوگئے۔ جاویدکے گھرکی دیواروں پراپنے لختِ جگرکانام پڑھتے تھے۔
گریہ اورنوحہ کرتے تھے اورپھراپنی قسمت کالکھاجان کرواپس چلے جاتے تھے۔ اس وقت آزادمیڈیاکا توخیرکوئی تصورنہیں تھا۔ مگرتمام اخبارات اس سانحہ کواُجاگرکررہے تھے۔ قاتلوں کاایک ساتھی، سوہاوہ سے گرفتارہوا۔ اس نے اقبال جرم کیا۔ مگرتھانے میں موقعہ پاکر خودکشی کرلی۔ اسے قتل کیاگیایاخوداپنے آپکوماردیااس کے متعلق کچھ بھی کہناممکن نہیں۔ ایک ماہ گزرگیامگرجاویداقبال گرفتارنہ ہوسکا۔ زمین کھاگئی یاآسمان نگل گیا، کسی کوکچھ معلوم نہ تھا۔ پوری حکومت، اپنے بھرپوروسائل استعمال کرنے کے باوجوداسے گرفتارنہ کرسکی۔
پھرایک دن، جاویداقبال بذاتِ خودلاہورمیں ایک اخبارکے دفترمیں پہنچااوروہاں اپناتعارف کروایا۔ کسی نے پوچھابھی، کہ تم اخبارکے دفترمیں گرفتاری دینے کیوں آئے ہو۔ جواب تھاکہ خوف ہے کہ اگرمیں تھانہ چلاگیاتوپولیس مجھے فوراًگرفتارکرتی اورقتل کردیتی۔ خیرپولیس نے جاویدکو اخبارکے دفترپہنچ کرگرفتارکرلیا۔ حراست میں ہولناک انکشاف کیے۔
ایک تویہ کہ کیسے، اس کاگروہ لاوارث اوربھٹکے ہوئے بچوں کوٹریپ کرتاتھا۔ کس کمال عیاری سے انھیں اپنے گھرلے کرآتاتھا اور اس کے بعدکس طرح ایک شیطانی کھیل کھیلاجاتا تھا۔ جس کاانجام اس بچے کے قتل پرہوتاتھا۔ جاوید کو ہرگزیہ یادنہ تھاکہ اس نے کتنے پھول مسلے ہیں۔
کتنے چراغ گل کیے ہیں۔ پولیس بھی صرف قیافہ لگاسکتی تھی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ تعدادسوکے قریب تھی۔ ہاں، ایک نشان یہ گروہ ضرورچھوڑتاتھا۔ مقتول بچوں کی چپلیں، سلیپر اور جوتے، گھرکے ایک کونے میں پڑے ہوئے تھے۔ متعدد والدین نے اپنے بچوں کوجوتوں سے پہچانا۔ گھرمیں جوتے کیوں چھوڑدیتاتھا، اس کی وجوہات بالکل سامنے نہیں آئیں۔
جاویدپرمقدمہ چلااوراسے پھانسی کی سزاہوئی۔ حکم میں یہ بھی درج تھاکہ اس کی لاش کوسوحصوں میں تقسیم کیا جائے۔ انھیں تیزاب میں محلول کردیاجائے۔ مگراس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ جاویدجیل ہی میں مرگیا۔ قتل کیاگیایااس نے خودکشی کرلی۔ اس میں مکمل ابہام تھااورہے۔ جاویدکے اس قبیح کام میں کس کس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس کا بھی کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ کچھ عرصہ گزرا اورہرچیزجوں کی توں رواں دواں ہوگئی۔ ہرطرف خاموشی چھاگئی۔ کوئی اس خوفناک جرم کا ذکر تک نہیں کرتاتھا۔ بین الاقوامی میڈیانے جاویداقبال کو "سیریل کلر"(Serial Killer)قراردیااورآج تک اسے کیس اسٹڈی کے طورپر یاد رکھا جاتا ہے۔ مگرآج کم ازکم ہمارے ملک میں کسی کوبھی یہ سب کچھ یادنہیں ہے۔
ہو سکتا ہے جن کے بچے مارے گئے، وہ آج بھی اشکبار ہوں۔ مگر ملک کے مزاج کے مطابق، یہ واقعہ دھیرے دھیرے فراموش کردیاگیا۔ اس المناک واقعہ سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سرکاری اورغیرسرکاری سطح پرکوئی ایسی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی جس سے ان واقعات کاسدِباب کیا جاسکے۔ یہ ہمارے سسٹم کی مکمل ناکامی تھی اورہے۔
بالکل اسی طرح، 2017کے آخرمیں، قصورمیں زینب کیس ہوا۔ زینب کے والدین عمرہ کرنے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ ان کی سات سالہ بیٹی زینب، ایک قریبی عزیزکے گھررہ رہی تھی۔ قرآن پاک پڑھنے کے لیے محلہ میں ایک جگہ جارہی تھی، کہ ایک شخص نے اغواکرلیا۔ چھ سات دن کے بعدبچی کی لاش کوڑے کرکٹ کے ایک ڈھیرسے برآمد ہوئی۔ قاتل پکڑاگیا۔ اس کانام عمران علی تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق زینب کے ساتھ زیادتی کی گئی اورپھراسے قتل کر دیاگیا۔
آپ ستم دیکھیے، کہ عمران علی یعنی قاتل، زینب کے لیے انصاف مانگنے والے جلوسوں میں بھرپورطریقے سے شرکت کرتارہا۔ بہرحال گرفتارہونے کے بعد، تحقیقات میں سامنے آیاکہ اس نے پہلے، کم ازکم آٹھ بچے اوربچیوں کو بالکل اسی طرح زیادتی کے بعدقتل کیاہے۔ پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ ہربڑے آدمی نے روایتی طور پر رنج اور دکھ کا اظہارکیا۔ عمران پرمقدمہ چلااور سزائے موت سنائی گئی۔
2018میں ہی پھانسی دیدی گئی۔ مگراس کے بعد، پھرسب کچھ معمول کی طرح رواں دواں رہا۔ ہرکوئی، اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا۔ زینب اوراسی طرح کے نوخیزپھولوں کے ساتھ جوکچھ ہوا، وہ سب کچھ وقت کی ریت تلے غائب ہوگیا۔ کسی سطح پرکوئی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی کہ مستقبل میں ان اندوہناک واقعات سے بچاجائے۔ چنددن پہلے دوبارہ، قصورکے نزدیک چونیاں میں چاربچے غائب ہوگئے۔ آٹھ سالہ فیضان کی لاش کوڑے کرکٹ سے مل گئی۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس بچے کوبھی زیادتی کانشانہ بناکرقتل کیاگیا تھا۔ آٹھ سالہ علی حسین اورنوسالہ سلیمان کے جسم کے اعضاء بالکل اسی طرح مختلف کھیتوں سے برآمدہوئے۔ قاتل کون ہیں، کچھ معلوم نہیں۔ مگریہ بات پوسٹ مارٹم رپورٹوں سے واضح ہوئی ہے کہ ان بچوں کوزیادتی کانشانہ بناکر قتل کیا گیا ہے۔ ہاں، مگرروایتی بیان بازی جاری ہے۔
پہلے، شہبازشریف صاحب نوٹس لیتے تھے۔ اب، عثمان بزدارصاحب نے اس واقعہ کافوری نوٹس لے لیاہے۔ اشک شوئی کے لیے حسبِ معمول، چندسیاستدان بھی مقتول بچوں کے گھرتشریف لے گئے ہیں۔ کئی فوٹوسیشن ہوچکے ہیں۔ ماضی کی روایات کے عین مطابق، این جی اوزاورفعال لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ چنددن تک یہ معاملات اسی طرح چلیں گے۔ شائد قاتل گرفتارہوجائے اورپھرسزاورجزاکامعاملہ چل نکلے۔ مگر آج تک کسی چینل یااخبارمیں یہ پڑھنے یادیکھنے کونہیں ملاکہ یہ سب کچھ کیاہے اورتسلسل سے کیوں جاری ہے۔
دراصل ہم اپنے ملک میں کئی شرمناک حقیقتوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی اس میں ایک ہے۔ میڈیکل کی زبان میں اسے Pedophilia کہا جاتاہے۔ اس کے مریض پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ہیں۔ یہ لوگ طرح طرح کی ذہنی مشکلات کاشکارہوتے ہیں۔ مریضوں میں ڈپریشن، ذہنی تناؤ، عزتِ نفس کاختم ہوجانا پایا جاتا ہے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ذہنی مشکلات، کسی بھی شخص کوبچوں سے زیادتی کرنے پرآمادہ کرتی ہیں یایہ مسئلہ اُلٹ ہے۔
بنیادی طورپریہ ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ماہرترین ماہرنفسیات اورڈاکٹرتحقیق کرنے کے بعدبتاتے ہیں کہ اس نفسیاتی بیماری کاکوئی مستند علاج نہیں ہے۔ پہلی بات تویہ کہ کوئی شخص تسلیم ہی نہیں کرتا کہ اسے یہ مرض لاحق ہے۔ اگرمعلوم ہوجائے تومغربی ممالک میں سائیکوتھراپی اورماہرین نفسیات کے ساتھ سیشن کے ساتھ معمولی سا علاج موجودہے۔ وہاں، ایک بات ضرورہے۔ اگرپتہ چل جائے کہ کوئی شخص Pedophila ہے، تواس کی کڑی ترین نگرانی کی جاتی ہے۔
اسے بچوں سے دوررکھنے کی سرتوڑکوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں، توکسی سطح پریہ اعتراف ہی موجودنہیں ہے کہ یہ نفسیاتی مرض بھرپور طریقے سے ملک میں موجود ہے۔ جب ہم ایک اَمرکا انکار کررہے ہیں تواسے ٹھیک کیسے کرینگے۔ پاکستان کے ہر طول وارض میں بچوں کے ساتھ روزانہ کی بنیادپرزیادتی ہوتی ہے۔ کبھی میڈیا اسے سب کے سامنے لے آتا ہے۔
مگر نناوے فیصد واقعات، خاموشی سے دبادیے جاتے ہیں۔ کسی کوبھی نہیں بتایاجاتاکہ ہمارے بچے یابچی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ گھرکی عزت کوبرقراررکھنے کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ کسی سطح پربھی ان محرکات کوسامنے نہیں لایا جاتا جو اس جرم کاباعث بنتے ہیں۔ ویسے اگرپولیس کوبتا بھی دیاجائے تو پھربھی اس کاکوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
اس مرض کا ادراک اورشعوربہرحال ہرسطح پر ہوناچاہیے۔ چلیے، سخت سزائیں بھی اس کاقانونی سا سدِباب ہیں۔ مگرجن حالات میں ہم زندگی گزارنے پرمجبورہیں، اس میں بچت کاایک ہی راستہ ہے۔ اپنے بچوں اوربچیوں کی خودحفاظت کریں اوربھرپورطریقے سے کریں۔ ہرممکن طریقے سے کریں۔ یہ سماجی کوڑھ ہمارے معاشرے میں مضبوط طریقے سے موجود ہے۔ شائد بلاتعطل موجودبھی رہے گا!