2018 کا الیکشن ہو چکا تھا۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم بن چکے تھے۔ لگتا تھاکہ ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان میں خان صاحب ایک ایسی جوہری تبدیلی لائیں گے کہ ترقی کے عرصے سے بند دروازے یک دم اس قوم پر کھل جائیں گے۔
اس ماحول میں یورپ میں عرصہ سے مقیم ایک انتہائی زیرک تاجرنے باہمی دوست کے ذریعے رابط کیا۔ خیر بات چیت شروع ہو گئی۔ وہ تاجر پاکستانی نژاد تھا۔ اس کی رگوں میں اپنے وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ سادگی سے گفتگو کرنے والے کاروباری آدمی جسے علم تھا کہ کاروبار اور ترقی کیسے کی جاتی ہے۔ خیر چند ہفتوں بعد لاہور تشریف لائے۔ ملاقات ہوئی۔ خواہش کا اظہار کیا کہ ملک میں حد درجہ کثیر سرمایہ کاری کروانا چاہتے ہیں۔
کوئی آٹھ سے دس بلین ڈالر کی اور یہ رقم بڑھ بھی سکتی ہے۔ ان کا یورپ میں صحت کے شعبہ میں کمال کامیاب کام تھا۔ ذاتی اسپتال، ایئر ایمبولینسوں کا نیٹ ورک اور یورپ ہی میں ہر طرح کے کاروباری اور سیاسی لوگوں سے ذاتی ترین تعلق۔ طے پایا کہ لاہور یا اسلام آباد میں ایک مکمل "نیا میڈیکل سٹی" بنا دیں گے۔ جس میں بڑے بڑے اسپتال، مریضوں اور ان کے لواحقین کے ٹھہرنے کے لیے فائیواسٹار ہوٹل، ڈاکٹروں اور اسٹاف کے لیے حد درجہ آرام دہ گھر، ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مریضوں کو وہاں تک لانے کے بھرپور انتظامات موجود ہو نگے۔ یہ "میڈیکل ٹورازم" کا جدید ترین نمونہ بن جائے گا۔
یہ بھی طے پایا کہ دس سے پندرہ فیصد سہولیات سفید پوش اور غریب طبقہ کے لیے بالکل مفت ہوں گی۔ یہ سب کچھ مجھے حد درجہ خوشگوار خواب کی طرح محسوس ہوا۔ مگر جب کام کا آغاز ہوا اور پیپر ورک شروع کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ یہ تو حد درجہ مشکل کام ہے۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم نہیں ہو پا رہاتھا کہ پاکستان میں کس سے ملا جائے تاکہ بین الاقوامی سطح کے سرمایہ کار عزت اور بہتر انداز سے قائل ہو جائیں کہ انھیں پاکستان میں حد درجہ سہولیات دی جائیں گی۔
میں نے وزیراعظم کے ایک معتمد خاص سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ وہ ریٹائرڈ ڈی ایم جی کے افسر تھے۔ خیر بڑی مشکل سے ان سے رابطہ ہوا۔ موصوف کو بتایا کہ جناب یورپ کاایک گروپ، آپ کی چھتر چھایہ کے نیچے آٹھ سے دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔
حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے انتہائی بے دلی سے میری بات سنی۔ اور اس طرح کا عملی مظاہرہ کیا جیسے یہ سرمایہ کار یا تاجر کوئی انتہائی چھوٹے درجے کے اچھوت ہیں اور وزیراعظم سے ملاقات کر کے صرف ان کا وقت برباد کریں گے۔ گمان تھا کہ وہ تو فرمائیں گے کہ آج ہی ان لوگوں کی ملاقات وزیراعظم سے ہو جائے گی۔ خیر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مجھے حد درجہ مایوسی ہوئی کہ ان لوگوں کو سرمایہ کار اور تاجر طبقہ سے عزت کا ناتا جوڑنے کی الف بے کا علم نہیں۔
خیر، میں پھر بھی اپنی بساط کے مطابق سنجیدہ کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح یہ خطیر سرمایہ کاری ہمارے ملک میں ہو جائے۔ یورپ سے میرا دوست تاجر اب پاکستان آنا جانا شروع ہو گیا۔
ایک دن بڑا گھبرائے ہوئے فون آیا کہ منصوبے کی فیزابلٹی بنانے کے لیے چار بین الاقوامی ماہرین اپنے خرچے پر لے کر آیا ہے۔ انھیں ایئرپورٹ پر پاکستان کا ویزہ نہیں مل رہا۔ ان تمام ماہرین کا تعلق ان مغربی ممالک سے تھا جہاں سے پاکستان آنے کے لیے باقاعدہ سفارت خانے سے ویزہ لگوانے کی ضرورت نہیں تھی۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ آخری موقع پر ممالک کی وہ فہرست تبدیل کر دی گئی۔ اس کی اطلاع کسی کو بھی نہ ہو پائی۔
حد تو یہ ہے کہ وزارت خارجہ نے نئی فہرست انٹرنیٹ پر جاری ہی نہیں کی۔ ماہرین اٹھائیس گھنٹے اسلام آباد ایئرپورٹ پر خوار ہوتے رہے۔ پھر وزارت داخلہ میں منت سماجت کر کے انھیں تین چار دن پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔
بہر حال جب تھکے ہارے ماہرین ہوٹل پہنچے تو وہ اتنے پریشان تھے کہ ہمارے ملک سے ان کی دلچسپی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوچکی تھی۔ بڑی مشکل سے انھیں اسلام آباد کے گردونواح میں لے جایا گیا۔ بہر حال انھوں نے بڑی محنت سے اپنا کام مکمل کیا اور دو تین دنوں میں واپس چلے گئے۔ مگر جاتے ہوئے بتا گئے کہ اب وہ کسی صورت میں پاکستان نہیں آئیں گے۔ کیونکہ یہاں کسی قسم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ میرے اس دوست نے اب نچلی سطح پر زور آزمائی شروع کی۔ وہ بھی اسلام آباد میں بابوؤں کے ہاتھوں خوار ہوتا چلا گیا۔ مگر ہمت نہ ہاری۔ دبئی گئے۔ دبئی کے بینک کے صدر سے میری فون پر بات کروائی۔
وہ اماراتی تھے مگر صاف انگریزی زبان بول رہے تھے۔ کہنے لگے کہ وہ پاکستان کے لیے اس گروپ کو ہر طرح کی معاشی سہولت دینے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان سے ان کا خلوص اور پیار صاف جھلک رہا تھا۔ یہ بھی کہا کہ ملک کے نئے وزیراعظم سے انھیں بہت زیادہ توقعات ہیں۔ اب ہوا یہ کہ میرا دوست اکثر اسلام آباد آنے لگا۔ دفاتر میں چکر لگنے کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
خان صاحب کی حکومت کے کسی سنجیدہ شخص نے ان کی پذیرائی نہیں کی۔ دو چار بار آنے کے بعد، مجھے کہا کہ واپس جا رہا ہے۔ اس ملک میں سرمایہ کار کی کسی قسم کی کوئی توقیر نہیں ہے، اور یہاں کام کرنا بہت زیادہ مشکل اور مہنگا ہے۔ اب کبھی پاکستان نہیں آئیں گے۔ ایک حد درجہ چونکا دینے والی بات بھی کی۔ اب مغربی بینکوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قرض یا سہولیات دینے سے انکار کر دیا ہے۔ خان صاحب کی حکومت کو آئے ہوئے ڈیڑھ سال ہو چکا تھا۔
میں نے یہ بات من و عن، ایک اہم سیاسی آدمی کو بتائی۔ مگر یہ اہم ترین بات بھی ہوا میں اڑ کر رہ گئی۔ سرمایہ کاری تو دور کی بات۔ گزشتہ دو تین برسوں میں میرا تاجر دوست پاکستان آنے ہی سے انکاری ہو چکا ہے۔ سرکاری دفاتر کی غیر سنجیدگی اور وزیراعظم کے قریبی مشیران کے رویہ کی بدولت، آٹھ سے دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے ملک محروم ہو گیا۔ دیکھا جائے تو ترقی کا ایک باب کھلنے سے پہلے ہی بند ہو گیا۔
یہ سب کچھ ایک مجبوری کی وجہ سے لکھ رہا ہوں۔ کچھ دن پہلے ایک پاکستانی کاروباری شخص میرے پاس تشریف لائے۔ ان کی عمر کوئی چالیس برس کی ہے۔ یعنی نوجوان اور حد درجہ صلاحیت والے بزنس مین۔ اس نوجوان نے اس ملک میں حد درجہ ترقی کی ہے۔ جواں عمری میں اتنی کاروباری ترقی کم لوگ ہی کر پائے ہیں۔ مجھے کہا کہ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک "نیا میڈیکل سٹی " بنانا چاہ رہا ہے۔ جہاں بین الاقوامی سطح کے اسپتال اور دیگر سہولتیں ہوں۔ ہمیں سمجھائیں کہ یہ خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ میں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ مجھے غیر سنجیدہ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
کہنے لگا کہ وہ تقریباً دوڈھائی سو ارب روپے سے کام شروع کر سکتا ہے۔ ہنسنے کی وجہ باربار پوچھنے پر مجبوری میں بتانی پڑی۔ کہ کیسے یورپ سے آئے ہوئے پاکستانی سرمایہ کار کو بابوؤں اور مشیروں کے ہاتھوں خوار ہو کر بے مراد واپس جانا پڑا۔ یہ بھی کہا میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ وہ خود ہی اسلام آباد تشریف لے جائیں۔ اور وزیراعظم سے بات کر لیں۔
اس پروجیکٹ میں میری طرف سے شمولیت سے بھی مکمل معذرت ہے۔ خیر وہ صاحب واپس تشریف لے گئے۔ ابھی تک ان کی جانب سے مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی، کہ ان کے پروجیکٹ کو کسی معتبر شخص نے گھاس بھی ڈالی ہے یا نہیں۔ مکمل خاموشی سے تھوڑا سا اندازہ ہوا ہے کہ انھیں بھی کوئی نہ کوئی تلخ تجربہ ہو چکا ہے اور اب ملک کی خدمت کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، مگر قومی امکان ہے کہ وہ نوجوان بزنس مین، میرے غیر ملکی تاجر دوست کی طرح خوار ہو کر تھوڑی دیر میں بے دم ہو جائے گا۔
خان صاحب اور ان کے حواریوں نے ظلم یہ کیا ہے کہ ہر سرمایہ کار، تاجر، بزنس مین کو چور اور ڈاکو بنا ڈالا ہے۔ ہر وقت فلاں کرپٹ، فلاں ملکی خزانہ لوٹ کر لے گیا۔ اس طرح کی آوازیں لگا لگا کر سرمایہ کاری کے عمل کو ہی جرم بنا دیا ہے۔ ہر ایک کی پگڑی اچھالنا، اچھے اور بہتر کام کرنے والے افسروں کو خراب کرنا، اب اس حکومت کا وطیرہ ہے۔ اب تو مجھے ان پر ترس آتا ہے۔
جس پیسے کے لیے یہ حکومت چین، روس اور آئی ایم ایف کے سامنے سربسجود ہے۔ اتنا پیسا اور سرمایہ کاری تو انھوں نے اپنی غیر سنجیدگی سے ضایع کر ڈالی ہے۔ مگر کوئی انھیں سمجھانے والا نہیں۔ کوئی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ویسے بھی اب وقت ان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل چکا ہے۔ اب تو مکافات عمل کا وقت ہے۔ آگے دیکھیے کیا ہوتاہے۔