سیدصاحب کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم لوگ اپنے ملک کی قدرنہیں کرتے۔ ہر وقت کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ میں نے بات اَن سنی کردی۔ اس لیے کہ پارک میں ابھی تین چکر لگانے تھے۔ سیدصاحب ورزش کرچکے تھے۔ حسبِ معمول گھرسے لائی ہوئی کافی، کاغذکے گلاس میں بڑے سکون سے پی رہے تھے۔ سیدصاحب کی بات کوٹالتے ہوئے گزارش کی کہ ٹھیک تیس منٹ بعد دوبارہ ملاقات ہوگی۔
آدھے گھنٹے بعدواپس آیاتوشاہ صاحب بینچ پر بیٹھے گہری سوچ میں تھے۔ بینچ پربٹھاکرکہاکہ ڈاکٹر، یار، ہم تمام لوگ حددرجہ ناشکرے بلکہ نادان ہیں۔ سورج ڈوب رہاتھا۔ سیدصاحب نے کافی کاکپ میرے سامنے رکھااورفرمانے لگے کہ ڈاکٹر، پاکستان کے شمالی علاقوں میں کتنی بارگئے ہو۔ سوچ کرجواب دیا۔ صرف ایک بار۔ انھوں نے زورسے قہقہہ لگایا۔ ٹیکسلا، موہنجوداڑو اورہڑپہ کتنی باردیکھاہے۔
ٹیکسلا تو خیرایک بارجانے کااتفاق ہوا۔ مگرموہنجودڑواورہڑپہ تو کبھی نہیں گیا۔ نہ ہی کبھی سوچاکہ وہاں جانا چاہیے۔ لاہورکے شاہی قلعے اوربادشاہی مسجد جانے کابھی دہائیوں سے اتفاق نہیں ہوا۔ وہ تھوڑے سے غصے میں آگئے۔ بینچ سے اُترکرگھاس پرلیٹ گئے۔ ڈاکٹرتم نہیں پاکستان میں نوے فیصد لوگوں نے پاکستان کے سیاحت کے حوالے سے اہم مقامات کی طرف رخ نہیں کیا۔ اس میں ملک کا نہیں تمہارااورتمہارے جیسے لوگوں کاقصور ہے۔ تم یورپ اورامریکا جاکرہروہ چیزدیکھنے کی کوشش کرتے ہوجسکی ہلکی سی سیاحتی اہمیت ہے۔ مگراپنے ملک کے سیاحتی خزانے پرغورکرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
ڈاکٹر!کیاتمہیں علم ہے کہ2018میں برطانیہ کی بیک پیپرسوسائٹیBritish Backpaper Societyنے پاکستان کوسیاحت کی خوبصورتی اورتجسس کے حوالے سے دنیاکااول نمبرملک قرار دیا تھا۔ لوگوں کویعنی ہمیں دنیاکے مہمان نوازترین افراد بتایاتھا۔ اس سوسائٹی کے بقول ان کے نمایندے جب پاکستان کے شمالی علاقوں میں گئے توششدررہ گئے۔ بقول ان برطانوی افرادکے، انھوں نے اتنا قدرتی حسن یورپ کے کسی ملک میں نہیں دیکھا۔ بات صرف ایک سوسائٹی کے تجزیہ پرختم نہیں ہوتی۔ معتبرترین جریدے Forbes نے 2019ء میں پاکستان کوسیاحت کے حوالے سے دنیاکی بہترین جگہ قراردیاتھا۔ فوربزکوئی معمولی جریدہ نہیں۔ یہ دنیاکے امیرلوگوں کارسالہ ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس دنیاکی سترفیصددولت ہے۔
شاہ صاحب کہنے لگے کہ فوربزکی اس رپورٹ کاپاکستان کوحددرجہ مالی فائدہ ہواہے۔ بالکل اسی طرح ورلڈاکانومک فورم World Economic Forumنے پاکستان کوسیاحت کے حوالے سے پہلی پچیس منزلوں میں شمارکیاہے۔ شاہ صاحب کہنے لگے کہ کسی مقامی تحقیق کاحوالہ نہیں دے رہا۔ یہ رپورٹیں دنیاکے معتبرترین جریدوں اوراداروں کی طرف سے ہیں۔ گفتگوکے بعد بڑے آرام سے پارک سے گھرواپس آگیا۔
ساری رات سوچتارہاکہ عام خیال تویہی ہے کہ ملک میں دھماکے ہوتے ہیں۔ ہمارے جوان اور سویلین لوگ شہیدہوتے ہیں۔ ملک غیرمحفوظ لگتا ہے۔ پھریہاں گورا سیاح کیوں آئیگا۔ اگلے دن چند دوستوں سے بات کی کہ پاکستان سیاحت کے اعتبار سے بہترین ملک ہے تو انھوں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے میراذہنی توازن خراب ہوگیاہے۔ میرے یہ دوست، چھٹیاں گزرانے یورپ یاامریکا جاتے رہتے ہیں۔ سوال کیاکہ کیاآپ نے گلگت بلستان، کے پی اورآزادکشمیرکے قدرتی حسن کودیکھاہے۔ وہ خاموش ہوگئے۔ ان میں سے کوئی بھی ان وادیوں میں نہیں گیاتھا۔ بہرحال واپس آکرجب سیاحوں کے اعدادوشماردیکھے تویقین نہیں آیا۔ 1994میں ہمارے ملک میں صرف چارلاکھ سیاح آئے۔ یعنی حددرجہ کم۔ 2004 میں ان کی تعدادساڑھے چھ لاکھ ہوگئی۔
اس وقت۔ سوات کے معاملات اوردہشتگردی عروج پرتھی۔ لاہورجیساشہربھی غیرمحفوظ تھا۔ یہاں کی مارکیٹوں میں بم دھماکے تواترسے ہوتے تھے۔ کے پی کی توخیربات ہی نہ کریں۔ ایمبولینس کے سائرنوں کی آوازسارادن ٹی وی پرگونجتی رہتی تھی۔ پھرفوج نے کمرباندھی اوروہ کارنامہ کردکھایاجوآج تک دنیاکے کسی ملک میں نہیں ہوا۔ اس فوج نے اپنے خون کاتحفہ دیکردہشتگردوں کی کمرتوڑڈالی۔ ان پرملک کی فضااورزمین تنگ ہوگئی۔
یہ جنگ جیتنے سے سیاحت پرفقیدالمثال اثرپڑا۔ 2011 میں گیارہ لاکھ غیرملکی سیاح پاکستان آئے۔ اور2019 میں یہ تعدادبیس لاکھ سے اوپرہوچکی ہے۔ 2016 میں سیاحت پاکستان کی جی ڈی پی کی تقریباًتین فیصدتھی۔ صرف ایک سال بعدیعنی2017سے یہ پانچ فیصدسالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ جو آٹھ سوبلین روپے بنتاہے۔ کیاآپ جانناچاہینگے کہ 2025 میں یعنی صرف پانچ برس بعدپاکستان کواس شعبہ سے کتنے پیسے مل رہے ہونگے۔ صاحبان!ایک ٹریلین روپے۔ پاکستان آنے والے غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں گزشتہ بیس برسوں میں تین سو فیصد کا اضافہ ہواہے۔ اگرمقامی سیاحت کوبھی شامل کیا جائے تویہ فائدہ ہمارے گمان سے بھی باہرچلا جاتا ہے۔
اب ان معاملات کی طرف آتاہوں جن کی بدولت سیاحت کوہم عروج تک لے جاسکتے ہیں۔ بیروزگاری سے لڑاجاسکتاہے۔ سچ تویہ ہے کہ ہمارے پاس بین الاقوامی معیارکے ہوٹل کم ہیں۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی سے ذراباہرنکلیں توبہت اچھے معیار کے نہیں بلکہ انتہائی کم درجے کے ہوٹل جابجانظرآتے ہیں۔ اس شعبہ میں اتنی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ضرورت ہے۔ یاد ر ہے کہ غیرملکی سیاح ہمارے شہری نہیں ہیں۔ وہ اپناپیسہ خرچ کرکے ہمارے ملک کو دیکھنے آئے ہیں۔ ہمیں انھیں کھانے اورپینے کی وہ سہولیات مہیاکرنی چاہیے جوالجیریاسے لے کردبئی تک تمام مسلمان ممالک میں موجودہیں۔ دورمت جائیے۔ دہلی میں تمام تاریخی مقامات، آگرہ کاعظیم تاج محل اورفتح پورسیکری کے عجائب لاکھوں سیاحوں کو کھینچ کرلاتے ہیں۔ وہاں کی حکومت سیاحوں کو تمام تفریحی سہولیات مہیاکرتی ہے۔
اسی طرح سیاحوں کے لیے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ گائیڈزکانظام ہوناچاہیے۔ ان کی محفوظ آمدورفت کے لیے انتہائی پُرآسائش ٹرانسپورٹ بلکہ ٹرین کاانتظام ہوناچاہیے۔ اسی طرح"سیاحتی پولیس" جوانگریزی زبان جانتی ہواورجس میں روایتی کرختگی نہ ہواس کاقیام بھی ضروری ہے۔ بہت سے اقدامات ہیں جن سے صرف سیاحت سے اپنے ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ مگریہاں توہرآدمی منافقت کاڈنڈا لے کرمحتسب بناہوا ہے۔ یہ کبھی اس معاشرے کی گھٹن کوکم نہیں کریں گے۔ بلکہ شائدبڑھانے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے میں خوشی محسوس کریں گے۔ لہذا یہاں سیاحت کا پھلنا پھولناحددرجہ مشکل ہے۔ شائد ناممکن!