سینیٹر مشاہد اللہ مرحوم نے جب پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے متعلق یہ جملے کہے تھے کہ "پی ٹی آئی والو، جب تم روؤ گے تو تمہارے آنسو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ اب بھی وقت ہے۔ کسی کا آلہ کار مت بنو"۔ حد درجہ معقول تقریر، قبولیت کی گھڑی میں کی گئی تھی۔
گزشتہ دو ڈھائی برس سے، تحریک انصاف کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے جو وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ روا رکھتی تھی۔ شاید یہ "کرما" ہے یا مکافات عمل۔ پی ٹی آئی، حد درجہ مقبول جماعت ہونے کے باوجود دور ابتلا سے گزر رہی ہے۔
سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کے ذہن میں یہ سوال تو موجود ہے کہ آخر وہ کون سی داخلی وجوہات ہیں جو اس جماعت کے زوال کا سبب بنی۔ چیئرمین پی ٹی آئی سے کون سی لغزشیں سرزد ہوئیں، جن کی بدولت انھیں پس دیوار زنداں جانا پڑ گیا۔ ان کے سیاسی مخالفین، جن کی سیاست ختم ہو چکی تھی۔
وہ تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے میں کامیاب ہوئے اور اتحادی حکومت قائم کرلی۔ جواب ڈھونڈنے کی ریاضت کی جائے، تو نہاں خانوں سے جواب برآمد ہو ہی جاتے ہیں۔
اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ ن لیگ، پی پی پی، مولانا کی سیاسی جماعت سے بھیانک غلطیاں نہیں ہوئیں، بالکل ہوئی ہیں۔ ان میں کرپشن کا عنصر بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مگر کیا یہ سوچنے کی بات نہیں کہ ان کی پہاڑ جیسی غلطیاں کیونکر معاف کر دی گئیں۔ پی ٹی آئی کے سنجیدہ لوگ جو معاملات کو سمجھتے ہیں، وہ خاموش ہیں کیونکہ اسی میں عافیت ہے۔
جہاں تک ملک میں الیکشن کاتعلق ہے۔ تو وہ کبھی شفاف نہیں ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ ہر دور میں نتائج پر اثر انداز ہوتی رہی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بھلے وقتوں میں اس پر بات بہت ہی کم ہوتی تھی۔ مگر اب سوشل میڈیا نے پورے نظام کو برہنہ کرکے دنیا کے سامنے رکھ ڈالا ہے۔
بچوں سے لے کر بوڑھے لوگوں تک، اب سوشل میڈیا کی بدولت، معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی اسطاعت حاصل کر چکے ہیں۔ بڑے سے بڑے سیاسی پہلوان اور سرکاری افسر سوشل میڈیا کی طاقت سے خوف زدہ ہیں۔
سچ یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بالکل اسی طرح اقتدار دیا گیا، جس طرح نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور دیگر جماعتوں کو سرفراز کیا گیا تھا۔ اس نکتہ پر بحث لا حاصل ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹ کے ذریعے کوئی بھی لیڈر مسند شاہی پر بیٹھتا ہے۔ الیکشن دراصل ایک ایسی گرد آلود سیاسی آندھی ہے۔ جس کا مقصد حقائق کو چھپانا ہے یا لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک معاملات اسی طرح چلائے جا رہے ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن کو اکثریتی سیٹوں کے باوجود، پاکستان کا وزیراعظم نہ بننے دینا، ان غیر معمولی معاملات کی کھل کر نشاندہی کرتا ہے۔ ملک دو لخت کرا لیا۔ مگر ووٹ کو قطعاً توقیر نہیں دی۔ معاملات آج بھی یہی ہیں اور ماضی میں بھی یہی تھے اور ان کے بدلنے کی بھی کوئی توقع نہیں۔
بنیادی سوالات کی طرف آتا ہوں کہ آخر پی ٹی آئی چیئرمین سے کون سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ جن کا خمیازہ وہ اب بھگت رہے ہیں۔ اگر گہرائی میں پرکھا جائے تو خرابی کی بنیاد وزیراعظم آفس کی ایک اہم تعیناتی سے رکھی گئی کیونکہ ان کی ساری سروس کے پی میں گزری۔ انھیں پنجاب اور سندھ کے سیاسی و کاروباری گھرانوں اور ان صوبوں کے سیاسی کلچر اور سیاسی مبادیات سے آشنائی تک نہ تھی۔
جہانگیرترین، علیم خان اور دیگر پرانے ساتھی، صرف اور صرف وزیراعظم کے اسٹاف کے ناروا رویے کی بدولت پارٹی سے الگ ہوئے۔ معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ متعدد سیاست دانوں کو دشمن بنا لیا گیا۔ وزیراعظم خود بھی ناتجربہ کار تھے، یوں وہ گرداب میں پھنسنا شروع ہو گئے۔ ادھر احتساب کے مشیر اور نیب کے حد درجہ متنازعہ سابق چیئرمین نے رہی سہی کسر بھی نکال دی، سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لیے جھوٹے مقدمات کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ، بیورو کریسی کے مخالف دھڑے کو سبق سکھایا جا سکے۔
یہ سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کی خوفناک مثال تھی۔ اس بدسلوکی کے ٹھوس ثبوت آج بھی موجود ہیں۔ بہر حال تین چار لوگوں نے پورے احتساب کے نظام کو متنازعہ بھی بنایا اور بے وقوف دوست کی طرح چیئرمین پی ٹی آئی کے دشمنوں میں اضافہ کردیا۔ معاملات کو مزید قریب سے دیکھیں تو پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے ساتھیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔
ان کے وزیر، مشیر، قریبی لوگ، مال کمانے میں مصروف کار تھے جب کہ خان صاحب "ریاست مدینہ" کادرس دینے میں مصروف تھے۔
پنجاب کے معاملات اس قدر دگر گوں کر دیے گئے کہ وسیم اکرم پلس اور اس سے منسلک سرکاری عمال نے صوبے کی معیشت پر جیسے حملہ کر دیا تھا۔ معاملات اس حد تک جاچکے تھے کہ پرویز الٰہی صاحب کو چلا کر کہنا پڑا، ایک اہم ترین سرکاری ملازم کی بیٹی کی شادی پر، ایک سو کروڑ کی سلامی دی گئی ہے۔ جو کسی بھی سیاسی شادی میں نہیں ملتی۔ بہر حال خان صاحب نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور ایک مربوط پالیسی کے تحت خاموش رہے۔
کے پی میں بھی کرپشن اور بدنظمی کا دور دورہ رہا۔ خیبر پختونخوا کے حادثاتی وزیراعلیٰ اور ان کے ساتھیوں نے کھل کر موج کی۔ کے پی میں بھی پی ٹی آئی کے دیرینہ ساتھیوں کو اچھوت بنا دیا گیا۔ یہ صورتحال، وزیراعظم کے نوٹس میں تھی۔ مگر وہ تباہی کے نظارے کو بڑے اطمینان سے دیکھتے رہے۔
بالکل اسی طرح، وفاقی کابینہ میں بھی چند خوشامدی وزراء کے علاوہ تمام لوگوں کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ ایک نکتہ حد درجہ اہم ہے، وزیراعظم صاحب کو اس قدر توہم پرست بنا دیا گیا کہ وہ بے دست و پا ہو گئے۔ تواہم پرستی کا جال، ان کے اردگرد اس کامیابی سے پھیلایا گیا کہ وہ مکمل طور پر اس کے زیر اثر چلے گئے۔ ساتھ ساتھ، امریکا کے خلاف بیان بازی، غلط ٹائم پر روس کا دورہ کرنا، ایسے ایسے فقروں کو دوام بخشنے کی کوشش کی گئی، جن سے پرہیز کیا جا سکتاتھا۔ مگر انھیں بڑی شان سے پارٹی کا بیانیہ بنا دیا گیا۔
جیسے "Absolutely not" کو علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ حالانکہ کہ اس سے ہمارے ریاستی مفادات کو حد درجہ نقصان پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری فوج، میں آج بھی قوائد و ضابطے کے مطابق کام ہوتا ہے۔ مگر خان صاحب نے اس یکجہتی پر بھی کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔
طالب علم کی دانست میں چیئرمین پی ٹی آئی اپنے زوال کے خود ذمے دار ہیں۔ اب مقتدر طبقوں کے پاس کوئی حل نہیں رہا تھا، مجبوراً پی ڈی ایم کو حکومت دینا پڑی۔ طالبعلم کا کسی سیاسی پارٹی یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف اور صرف دلیل کی بنیاد پر سوالات اٹھانا اور ان کا جواب تلاش کرنا میرا کا م ہے۔
الیکشن بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسے ہوتے آئے ہیں۔ تحریک انصاف کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ سوال اور اس کا جواب، آپ کے سامنے ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاست کی شطرنج پر شہہ مات ہوگئی ہے!