عیدکے دن، امریکا سے ایک ناشناسا فون آیا۔ بات ہوئی۔ اشرف چوہدری پورٹ لینڈسے بول رہاہوں۔ اشرف چوہدری کے نام سے کچھ بھی ذہن میں نہ آسکا۔ مگر، ظاہرنہ کر سکتاتھا۔ بہرحال مشکل اس وقت آسان ہوئی، جب موصوف نے کہاکہ ڈاکٹرصاحب پہلی بارفون کررہاہوں۔ خیربات شروع ہوئی۔ غیرملک میں مقیم، ہرپاکستانی کی طرح اشرف بھی اَزحدپریشان تھاکہ ملک عملی طورپرکس طرف جارہا ہے۔ درست بات تویہ ہے کہ کسی طرف بھی نہیں جارہا۔ مکمل طورپرمنجمدہوچکاہے۔
اشرف کاتعلق کراچی سے ہے۔ خیال تھاکہ کوئی سیاسی بات کریگایابھارت کے متعلق موجودہ معاملات پرکوئی نکتہ بیان ہوگا۔ مگراشرف چوہدری نے یہ کہہ کرحیران کردیاکہ ڈاکٹرصاحب، میراسیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کراچی، لانڈھی کارہنے والاہوں اوربارش کے متعلق بات کرناچاہتاہوں۔
آج سے ٹھیک کچھ دن پہلے، چنددنوں کی بارش سے کراچی عملی طورپرڈوب گیاتھااوراس کے کئی نشیبی علاقوں میں کشتیاں چل رہی تھیں۔ عیدکے دن بھی کراچی بارش کے پانی کی وجہ سے مفلوج ہوچکا تھا۔ اشرف کہنے لگاکہ ایک دودن کی معمولی سی بارش نے میرے آبائی شہر کو دریا بنادیاہے۔ میرااپناپرانا گھرجوکہ کرایہ پردیاہوا ہے، مکمل طور پرزیرِآب آچکاہے۔ کرایہ دارنے بتایاہے کہ پانی اس درجہ زیادہ ہے کہ گھرکی بالائی منزل میں منتقل ہوچکا ہوں۔
سب سے اہم بات کہ پانی کوباہرنکالنے کے لیے سرکاری اقدامات حددرجہ ناکافی ہیں بلکہ موجودہی نہیں ہیں۔ اشرف کی بات سننے کے بعدگزارش کی کہ میں تولاہورکارہنے والا ہوں۔ آپکی کیامددکرسکتاہوں۔ اشرف نے انتہائی متانت سے جواب دیاکہ یہ میرے علم میں ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اگرپاکستان کاسب سے بڑاشہرہی بارش جیسی عام قدرتی آفت کامقابلہ نہیں کرسکتاتوباقی کیارہ جاتاہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی بڑی مصیبت آجائے، تواس سے برسرِپیکارہونے کے لیے کیا معاملات ہونگے۔ ذہن کوایک جھٹکاسالگا۔ اشرف کی بات تودرست تھی بلکہ بالکل درست تھی۔ واقعی اگرکراچی کو کوئی بڑامسئلہ درپیش ہو، توپھراس کامقابلہ کیسے ہوگا۔
اشرف نے کہاکہ امریکا میں پورٹ لینڈمیں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔ یہاں سال کے154دن مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے۔ مگرسڑکوں اورگھروں میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ کسی بھی جگہ پانی جمع نہیں ہوتا۔ میراسوال تھاکہ پورٹ لینڈمیں کتنی بارش ہوتی ہے۔ گمان تھاکہ دس بارہ انچ سالانہ بارش ہوتی ہوگی۔ مگرجواب سن کر سوچ میں پڑگیا۔ اس لیے کہ جواب میرے لیے بالکل غیرمتوقع تھا۔ پورٹ لینڈمیں سالانہ 43 انچ بارش ہوتی ہے۔ بلکہ چندبرس پہلے توپچاس انچ بارش ہوئی تھی۔ 43انچ بارش میرے لیے بالکل حیران کن خبر تھی۔ ضروراشرف کوغلط فہمی ہوئی ہوگی۔ مگراس کااظہارفون پر نہ کرسکا۔
بہرحال، دوچارمنٹ بعد، اشرف انتہائی دکھی انداز سے کہنے لگاکہ ڈاکٹرصاحب، اب میں امریکا سے واپس نہیں آناچاہتا۔ شروع شروع میں وطن واپسی کاخیال آتا تھا۔ مگر اب اپنے پرانے شہرجاکرکیاکرونگا۔ جہاں بارش کو روکنے کا معقول بندوبست نہ ہو، وہاںبقیہ انسانی زندگی کی سہولیات کیا ہوں گی۔ اس بارش کے بعدمیری فیملی نے فیصلہ کیاہے کہ جومرضی ہوجائے، کراچی واپس نہیں جائیں گے۔ اشرف کی آوازبھرا رہی تھی۔ اس نے بڑی تہذیب سے فون بند کردیا۔ اشرف کے بیان کردہ حقائق مکمل طورپر درست نکلے۔
اس وقت سے لے کرآج تک سوچ رہاہوں کہ ہرسیاسی حکومت، کراچی کومعیشت کاانجن گردانتی ہے۔ مگرکسی بھی حکومت کوتوفیق نہ ہوپائی کہ اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی کواحتیاط اورمحبت سے پال لے۔ صوبائی حکومت تو پیہم ایک ہی سیاسی جماعت کی ہے۔ مرکزی حکومت بھی پانچ برس تک انھی کے پاس تھی۔ پھربھی کراچی کی قسمت نہ بدل سکی۔ ایم کیوایم توگزشتہ تیس برس سے مسلسل ہر حکومت کا فعال حصہ رہی ہے۔ مگرانھوں نے بھی اس معاملہ میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔ مجموعی طورپر، کراچی کوبدترین صورتحال میں پہنچانے والے تمام سیاسی فریقین شامل ہیں۔
بدقسمتی سے کوئی بھی ذمے داری قبول نہیں کررہا۔ کیایہ المیہ نہیں ہے کہ سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ فرمارہے ہیں، کہ وہ پانی کی نکاسی نہیں کرسکتے۔ ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے کہ پانی کوفوری طورپرڈرین کر پائیں۔ کم ازکم مجھے، وزیراعلیٰ سے اس طرح کے غیرسنجیدہ بیان کی توقع نہیں تھی۔ ایک پڑھا لکھا انسان، جوکہ پشتینی سیاستدان ہے۔
اگربرملا، اپنی ناکامی کا اظہار کر رہا ہے توباقی کیابات رہ جاتی ہے۔ ویسے دل سے جواب دوں یالکھوں تومجھے پاکستان میں کسی بھی سیاسی رہنماسے خیر کی توقع نہیں ہے۔ وہی گھسے پٹے اعلانات، وہی جعلی باتیں اورپھروہی بوڑھے بوڑھے نعرے۔ یہاں قوم کا مقدر بہتر کرنے کے لیے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ عیدکی رات یاشائد اگلے دن سندھ کے وزیر اطلاعات ٹی وی پرفرمارہے تھے کہ نکاسی آب کاکام توبلدیاتی اداروں کا ہے اوروہ توایم کیوایم کے پاس ہیں۔
بہرحال انھوں نے اتنا ضرورکہاکہ سندھ کی حکومت اپنی استطاعت کے مطابق کام کررہی ہے۔ شائد وہ سچ بھی بول گئے اور اپنی حکومتی ناکامی کا برملا اظہار کر کے لوگوں سے معافی بھی مانگ لی۔ میری دانست میں معافی مانگنا یا نہ مانگنابے وقعت ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی تکلیف کسی صورت میں کم نہیں ہوتی۔ تھوڑی دیر بعد، کراچی کے بلدیاتی اداروں کے مدارالمہام ٹی وی پر آگئے۔ سارا ملبہ، سندھ حکومت پرڈال رہے تھے۔ ان کے بقول، بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومت نے فنڈزہی نہیں دیے کہ کسی قسم کا کوئی کام کرسکیں۔
قصہ کوتاہ کہ کوئی بھی بارش میں بدانتظامی کی ذمے داری نہیں لے رہا۔ نہ ایم کیوایم، نہ صوبائی حکومت۔ مرکزی حکومت اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں اتنی سیاسی دوریاں ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہتک سمجھتے ہیں۔ عام لوگوں کے معاملات کیاخاک حل کریں گے۔ یعنی مجموعی طور پر کراچی میں کوئی بھی فعال فریق نہیں ہے جولوگوں کی تکلیف کو کم کرنے میں مددگارثابت ہو۔ ہاں بیان بازی، کے لیے ہرایک، ہردم تیار ہے اورہرسانحہ پر سیاست کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ صوبائی حکومت کوگزشتہ تیس سال میں کراچی کی ترقی کے لیے کتنے پیسے ملے ہیں، کوئی بھی بتانے کے لیے تیار نہیں۔
دیکھاجائے توبارش بھی کوئی زیادہ نہیں ہوئی۔ اس بار کراچی میں صرف158ایم ایم بارش ہوئی۔ مگردس سے گیارہ گھنٹہ کی مسلسل بارش نے قیامت برپاکردی۔ یہ قیامت، قدرت کی طرف سے نہیں تھی۔ بلکہ لالچ اور بدانتظامی کی وہ سفاکی تھی، جس سے لوگ آشنا تو ہیں، مگر پالا پڑے تو خدا یاد آجاتاہے۔ کراچی کے ماسٹرپلان میں سیکڑوں ڈرین موجود تھے۔ ان کی تعداد تین سو سے پانچ سوتک بتائی جاتی ہے۔ کراچی کاماسٹرپلان کیاتھااوراسے پیسے کے لالچ میں کیسے تبدیل کیاگیا، اس کی تفصیلات سپریم کورٹ کے نایاب فیصلے میں موجودہیں۔ بلڈرمافیااورحکومتی اداروں نے نکاس کے نالوں کو ماسٹرپلان سے غائب کروا دیا۔ نتیجہ میں تقریباًہرنالہ پرکمرشل عمارتیں بنادی گئیں۔
جب پانی کے نکاس کانالہ ہی غائب کر دیاگیااوراس کی زمین کوفروخت کردیاگیاتو پانی کدھر جائے گا۔ لازم ہے کہ سڑکوں پرہی موجودرہے گا یا لوگوں کے گھروں میں عذاب بن کرداخل ہوگا اورواقعی یہی ہوا۔ کراچی کے غریب علاقے توخیرڈوب ہی گئے، مگرمہنگے علاقوں میں بھی پانی جمع ہوگیا۔ صوبائی حکومت نے جو بلند بانگ اعلانات اوراخراجات کیے تھے، وہ بھی برہنہ ہوکرسب کے سامنے آگئے۔
ایم کیوایم کے میئرکایہ دعویٰ کہ پیسے نہیں ملے، یہ بھی درست نہیں نکلا۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت، کے ایم سی کوپچاس کروڑ روپے منتقل کیے گئے تھے۔ ان پیسوں کا کیااستعمال ہوا، اس کا جواب، کراچی کے میئر سے ہر صورت میں پوچھا جانا چاہیے۔ مگریہاں کون سوال کرے گا اورکون جواب دے گا۔ کراچی بلکہ سندھ، کرپشن کی وہ چراگاہ ہے، جہاں مضبوط فریق، رشوت کے پیسے کو جائز چارہ گردانتے ہیں۔ اس لیے کیاگلہ کیا جائے۔ ہرفریق ذمے دار ہے۔ مگر اسے قبول کرناگناہ کبیرہ سمجھتاہے۔
اسی زاویے سے اشرف کے شہرپورٹ لینڈکے متعلق سوال آیاکہ 43انچ سالانہ بارش کے پانی کی تباہی سے کیسے بچتاہے اورعام آدمی کی سہولت کوکیسے مقدم رکھتا ہے۔ پورٹ لینڈمیں نکاسی آب کاکامBureau of Transportationکے پاس ہے۔ وہاں صرف بارش کے پانی کے اخراج کے لیے چارسوچھپن میل کے ڈرین بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، 878میل کے مشترکہ ڈرین ہیں جو سیوریج اوربارش کے پانی کودریاتک لے کرجاتے ہیں۔ صرف ایک شہرمیں58000بارش کے نالے ہیں۔ یہ ہردم صاف رکھے جاتے ہیں۔
جتنی مرضی بارش ہوجائے، سڑکوں پرایک ملی میٹرپانی کھڑا نہیں ہوتا۔ بات یہاں نہیں رُکتی۔ ہر گھرکانقشہ اس وقت تک منظورنہیں کیاجاتاجب تک اس میں بارش کے پانی کوجمع کرنے کے لیے ایک واٹرٹینک نہیں ہوتا۔ اسے Residential sewerage Trench کہا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکا کے وسائل حددرجہ زیادہ ہیں۔ سوال تویہ ہے کہ اگر58000ڈرین صاف نہ رکھے جائیں تویہ شہربھی دوتین سال کے بعد کراچی کی طرح پانی میں ڈوب جائے گا۔ مگروہ توامریکا ہے۔ وہاں توتصورنہیں ہے کہ بلدیاتی اورحکومتی اداروں میں فرضی بل بناکرپیسے وصول کرلیے جائیں۔ ہزاروں لوگوں کو سیاسی عصبیت کی بنیادپربھرتی کیاجائے۔ میرٹ کو بھرپور طریقے سے نظراندازکرکے، ہروہ کام کیاجائے جس سے مالی منفعت کاامکان ہو۔
تکلیف دہ بات تویہ بھی ہے کہ کراچی کے لوگ عیدکے دن قربانی بھی معقول طریقے سے نہ کرپائے۔ مگر ایک سیاسی شاباشی کانقارہ بجا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے، وزیراعلیٰ سندھ کوبھرپورمحنت کرنے پرخوب شاباش دی۔ ان کے کام کی لگن کو سراہاگیا۔ مگریہ تھپکی کتنی درست اورصحیح ہے، اس کے متعلق کراچی کے لوگ خوب جانتے ہیں۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کارویہ، کبھی صائب نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ گیارہ سال سے حکومت میں رہنے کے باوجود، صوبائی حکومت محض ایک بارش کامقابلہ نہ کرپائی۔ جمہوریت کارنگ و روغن اُترا، تواصل چہرہ بھی سامنے آگیا۔ صرف ایک بارش نے وہ کر ڈالا، جوشائداس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔ مگریہاں کون فکرکرتا ہے۔