Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sirf Apne Qaumi Mafad Ka Khayal Kijye

Sirf Apne Qaumi Mafad Ka Khayal Kijye

طیب اردگان نے 28 اکتوبر کو استنبول میں لاکھوں لوگوں پر مشتمل ایک بھرپور جلسہ کیا جو غزہ میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف ایک بھرپور احتجاج تھا۔

دو دن قبل ترک صدر نے اسرائیل سے اپنا سفیر بھی واپس بلوا لیا تھا تاکہ غزہ میں فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف سرکاری سطح پرمضبوط بیانیہ قائم کیا جاسکے۔ طیب اردگان یہ سیاسی بیانیہ قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ یوں تمام اسلامی ممالک میں ترک صدر کا مثبت امیج ابھر کر سامنے آیا۔ سی این این اور مغربی میڈیا میں بھی اس ریلی کی حد درجہ تعریف کی گئی۔

یہ جذبہ حد درجہ درست ہے۔ بحیثیت مسلمان اور انسان غزہ پر اسرائیل کے حملے کے خلاف بات کرنا لازم ہے۔ مگر ایک بات پر ذرا نظر ڈالیے، جذباتی تقاریر سے آگے نکل کر حقائق دیکھیے۔ ترکی اور اسرائیل کی باہمی تجارت کا حجم سات بلین ڈالر ہے۔

اقوام متحدہ کے Comtrade ڈیٹا بیس کے مطابق، 2024ء میں یہ باہمی تجارت مزید بڑھ جائے گی۔ طیب اردگان سیانا لیڈر ہے۔ اس نے مذہبی کارڈ ہمیشہ کھیلا لیکن ترکی کے معاشی مفادات کا خیال رکھا۔ تجارت کو ایک دھیلہ کا بھی نقصان نہیں پہنچنے دیا۔

اسرائیل ایک غیرمسلم ملک ہے، وہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے، اس کے خلاف بات کرنا، احتجاج کرنا اور اقدامات اٹھانا سمجھ میں آتا مگر مسلم ممالک کے اپنے تضادات اور تنازعات کو کیا نام دیا جائے، حقیقت کونظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

کردوں کا معاملہ ہی دیکھ لیں، کردوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ یہ ترکی، ایران، عراق اور شام میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت پوری مسلمان دنیااسرائیل پر برس رہی ہے لیکن کرد مسلمان کسی کو یاد ہی نہیں ہیں۔ ترک فوج ترکی میں رہنے والے کرد مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ایران بھی اپنی حدود میں رہنے والے کردوں کے ساتھ سخت رویہ رکھتا ہے۔

کیا کسی مسلمان ملک نے اس ایشو پر ترکی یا ایران کے ساتھ کبھی کوئی بات کی؟ کم از کم، طالب علم نے ایسی کوئی بھی چیز نہیں دیکھی۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے۔ ترکی اپنے قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات قائم رکھتا ہے۔

یہ ایک کامیاب ملک کی قومی مفاد کے تحت بہترین پالیسی کی ہلکی سی جھلک ہے۔ ترک قیادت کا کمال یہ ہے کہ اس نے ہر کام صرف اور صرف اپنے ملکی مفادات کے تحت کیا ہے اور یہ بالکل قابل اعتراض بات نہیں ہے۔

اب ذرا متحدہ عرب امارات کی ریاستی پالیسی پر غور کیجیے۔ یہ سو فیصد مسلمان ملک ہے، اس کی اسرائیل سے سالانہ تجارت ڈھائی ارب ڈالر ہے۔ جسے اگلے پانچ برسوں میں دس ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے Comprehensive Economic Partnership agreement بھی طے کر رکھا ہے۔ جس کے تحت امارات اور اسرائیل باہمی تجارت کے علاوہ ثقافت اور سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔

امارات کے وزیر تجارت نے سرکاری بیان جاری کیا ہے کہ ہمیں غزہ میں مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم پر بہت تشویش ہے۔ مگر ہم کسی صورت میں سیاست اور تجارت کو باہم نتھی نہیں کر سکتے، یہ علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ وزیر تجارت نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ اس کے ملک کی پالیسی پوری دنیا میں کاروبار کو فروغ دینا ہے۔

متحدہ عرب امارات تو سوفیصد مسلم ملک ہے، لیکن اس ملک کی قیادت نے اپنے ریاستی اور معاشی مفادات کو سامنے رکھا ہے۔ طالب علم نے ہندوستان، امریکا، یوکے یا کسی مغربی ملک کی مثال بالکل نہیں دی۔ سچ یہی ہے کہ ذمے دار ریاستیں اور ان کی حکومتیں سب سے پہلے اپنے مفاد دیکھتی ہیں، باقی سب ڈپلومیسی ہوتی ہے۔ ادھر سعودی عرب میں دنیا کا سب سے بڑا میوزک فیسٹیول ہونے جارہا ہے۔

اس میوزک فیسٹیول کا نام MDLBEAST Soundstorm رکھا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ اس تفریحی سرگرمی سے محظوظ ہوں گے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں انقلاب برپا کردیا ہے، عرب تہذیب و ثقافت اور موسیقی دنیا میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ عربوں کو اس پر فخر ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل کے غزہ پر مظالم پر شدید احتجاج کیا ہے۔

خادم حرمین شریفین نے بھی اسرائیل کی بھرپور مذمت کی ہے۔ مگر سعودی عرب کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچنے دیا، غور فرمائیے! سعودی عرب کی قیادت کے لیے اپنے ریاستی مفادات کس حد تک مقدم ہیں۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنے ملک کی ترقی کی۔ انھیں اگر درد ہے تو صرف یہ کہ اپنی ریاست کو طاقتور سے طاقتور ترین کس طرح بنائیں۔ یہ منزل حاصل کرنے کے لیے وہ مکمل طور پر یکسو ہیں۔

دراصل ہم اپنے ملک میں ایک نکتہ سمجھنے اور سمجھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، وہ یہ کہ پاکستان کا ریاستی اور مالی مفاد ہر چیز سے بالا تر ہے۔ دنیا میں عظیم جذبہ صرف ایک ہوتا یعنی اپنے گھر کو محظوظ اور خوشحال بنانا۔ جس وقت ہماری چند مذہبی سیاسی جماعتیں، بھرپور نمائشی جلوس اور جلسے کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف تھیں، عین اسی وقت وطن کے دشمن ہمیں دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے تھے۔

گوادر سے لے کر میانوالی تک، اور کے پی کے سرحدی علاقوں سے لے کر پاکستان کے ہر کونے میں دہشت گرد ہمیں برباد کر رہے تھے اور آج بھی اپنے ناپاک مشن میں مصروف ہیں۔ ریاستی اداروں نے پوری تحقیق کے بعد برملا کہا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی میں افغانی گروہ ملوث ہیں، پاکستان میں قتل، ڈاکا زنی اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں بھی افغانی ملوث پائے گئے ہیں۔

دہشت گردوں کی سہولت کاری بھی انھی افغانوں کے ذریعے ہورہی ہے۔ پاکستانی فوج نے پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں کو واپس بھیجنے کا بروقت اور قابل تعریف فیصلہ بھی کیا۔ مگر آپ نے دیکھا کہ افغانوں کو واپس بھیجنے پر چیخ و پکار سب سے زیادہ کس نے کی۔ جناب مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے۔ مولانا صاحب نے تو باقاعدہ ریاستی اداروں کے اس بہترین کام کی بیخ کنی کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی۔ عرض کرنے کا مقصد صرف ایک ہے۔

پاکستان کے قومی اور ریاستی مفاد، کسی بھی مصلحت سے بالا تر ہیں۔ یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ ہمارا تن، من، دھن سب اس پر قربان ہے۔ ورنہ پوچھئے اپنے بزرگوں سے کہ آزاد ملک کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ نہیں۔ وہ برملا بتائیں گے کہ آزادی کتنی فقید المثال قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی تھی۔ ہمارے بچے، بوڑھے، جوان، خواتین کس کس عذاب سے گزر کر پاکستان کی مقدس سرزمین تک پہنچ پائے تھے۔

صاحبان! ہمارے تمام اقدامات ملکی مفاد کے تابع ہونے چاہیں۔ جذباتیت کو بالائے طاقت رکھیے۔ قدم بڑھائیے۔ پاکستان کے مفاد میں مشکل ترین فیصلے کیجیے۔ وگرنہ سوائے پچھتاؤے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ صرف اپنے قومی مفادات کا خیال کیجیے!