Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tareef Sirf Marne Ke Baad Kyun Hoti Hai?

Tareef Sirf Marne Ke Baad Kyun Hoti Hai?

"پچھلے مئی سے میں نے صرف تین مرتبہ گرم کھانا کھایاہے"۔ یہ الفاظ دنیاکے عظیم ترین مصور وان گوگ (Van Gogh)کے ہیں جوخط میں اپنے بھائی تھیوکو فروری1886 میں لکھے تھے۔ زندگی کے بیشترحصے میں وان گوگ، تمباکو، کافی اورٹھنڈی روٹی پرزندہ رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ بڑی وجہ تویہ کہ اس کے مالی وسائل اس قدرکم تھے کہ تین وقت کاکھاناخریدہی نہیں سکتا تھا۔

دوسرا، شائدیہ بھی کہ وہ کھانے کوحددرجہ غیرضروری سمجھتا تھا۔ جوپیسے ڈبل روٹی خریدنے پرصَرف کرنے ہوتے تھے، وہ انھی سے رنگ اوربرش خریدلیتاتھا۔ عام لوگ بلکہ خاص لوگ بھی، اس سے دوررہتے تھے۔ وان گوگ کوبیوقوف، پاگل اورناکام آدمی سمجھاجاتاتھا۔ لوگوں کے اس رویے سے وہ نایاب مصور خوفناک ڈپریشن میں چلا گیا۔

اس کے بائیں کان میں ہروقت عجیب وغریب آوازیں آتی رہتی تھیں، جواسے سونے نہیں دیتی تھیں۔ اسکاحل صرف یہ تھا، کہ وہ دیوانہ وارپینٹگز بناتا رہتا تھا۔ کئی باردن میں گھرسے تھوڑاسادور، ایک کھلیان میں جا کرتصویریں بناتارہتاتھا۔ کسی کوبھی وان گوگ کی پینٹگز سے واسطہ نہیں تھا۔ وہ عجیب وغریب حرکتیں کرتا تھا۔ اپنے دوست گاگن(Gauguin)سے لڑائی کے بعد اس نے اپنابائیاں کان خود ہی کاٹ لیااورپھراسپتال چلا گیا۔

اس کے علاوہ کئی بارخودکشی کی کوشش بھی کی۔ مگر ایک چیزپر وان گاگ کاجذبہ کبھی کم نہیں ہوا، وہ اس کی مصوری کی جدید ٹیکنیک تھی۔ پیرس منتقل ہونے سے پہلے، اس نے اینٹ ورپ میں فائن آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔ انسٹرکٹرSiberdtسب برٹ نے اسے ایک خاکہ بنانے کے لیے کہا۔ وان گوگ نے اپنی ذہنی فکرکے حساب سے عورت کی تصویربنائی۔ سبرٹ نے برش لے کراس تصویرکی تصیح کرنی چاہی تو استاد اور شاگرد میں لڑائی ہوگئی۔

وان گوگ نے تصویرکوٹھیک کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔ اس کے خیال میں انسانوں کوانکے جذبات کے ساتھ پیش کرناچاہیے۔ یہ تصویرکلاس میں پھاڑدی گئی۔ وان گوگ حددرجہ بے عزتی کرانے کے بعد پیرس منتقل ہوگیا۔ بیس برس یعنی عین جوانی میں وان گاگ نے اپنے پستول سے خودکشی کرلی۔ جنازے میں صرف بیس لوگ تھے۔ پوری زندگی میں اس عظیم مصور نے اکیس سو تصاویر بنائیں۔

ان میں آٹھ سوساٹھ آئل پینٹگز تھیں۔ 1890ء میں وان گوگ کسی توجہ کے بغیردنیا سے رخصت ہوگیا۔ مرنے کے تھوڑے عرصے کے بعد اس کاکام، اس کے دوست اور خاندان والے عوام کے سامنے لے کرآئے تو حشر برپا ہوگیا۔ اس کی پھول پتوں، کھلیانوں اورلوگوں کی بنائی ہوئی پورٹریٹ دنیاکی عظیم مصوری قراردی گئی۔ آج سے تیس سال قبل، اس کی صرف ایک پینٹگ 100ملین ڈالرکی فروخت ہوئی۔ آج بھی قیمت کے لحاظ سے وان گاگ کی بنائی ہوئی تصاویردنیامیں سب سے بیش قیمت تصورکی جاتی ہیں۔ اس کالم کامقصد وان گوگ کی عظیم مصوری پربات کرنا نہیں ہے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ وان گوگ، موت کے بعدمقبول ہوا، اسے قابلِ توجہ سمجھا گیا اوروہ عزت کاحقدارٹھہرا۔ اس کی قدرمرنے کے بعد ہوئی۔

یہ سب کچھ میں اپنی سوسائٹی کے پسِ منظرمیں لکھناچاہتاہوں۔ ہر تھوڑے سے وقفہ کے بعد، ہمارا کوئی نہ کوئی اداکار، مصور، گائیک، شاعراوردیگر شعبوں کے تخلیق کارسفرِعدم پرچلے جاتے ہیں۔ وفات کے بعدحددرجہ افسوس کااظہارکیاجاتاہے۔ ان کی یاد میں تعزیتی سیمینارز ہوتے ہیں۔ تقاریرہوتی ہیں۔ انھیں عظمت کے مینارپر بٹھایاجاتا ہے۔ تعریف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ فن پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔ ہاں ایک اور بات۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اوراس قبیل کے لوگ بے روح قسم کے پہلے سے لکھے ہوئے بیانات جاری کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک کابہت قیمتی سرمایہ لُٹ گیاہے۔

مرنے والے تخلیق کاروں کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کی جاتی۔ انھیں وہ مالی آسودگی نہیں دی جاتی، جس سے باعزت زندگی گزارلیں۔ اس سوال کاجواب مختلف ہوسکتاہے۔ میں اسکاجواب، معاشرے کی بھرپور منافقت، دوعملی اور بے حسی میں تلاش کرتاہوں۔ ہم مکمل طور پر جھوٹے لوگ ہیں۔ جو لوگ جس تخلیق کارکو زندگی میں دس منٹ سے زیادہ برداشت نہیں کرتے۔ مرنے کے بعداس کی یاد میں ٹسوے بہاتے ہیں۔ تمام تخلیق کاروں کی گزارش نہیں کررہا۔ مگربیشترلوگ اپنی زندگی میں بے جاتنقیدکے نشتربرداشت کرتے رہتے ہیں۔ Performersکی بات چھوڑدیجیے۔ ہم سیاستدانوں اور علماء کرام تک کو نہیں بخشتے۔ میری ہوش کی زندگی میں ذوالفقارعلی بھٹو پر بے رحمانہ اور بلاجواز تنقیدہوتی تھی۔

میرٹ یاڈی میرٹ کی بات نہیں کر رہا۔ بھٹوکی سیاسی زندگی پربھی عرض نہیں کر رہا۔ مگر بھٹوکے عدالتی قتل پر بہت کم لوگ ہیں، جنھوں نے اس پورے پراسس پرتنقیدکی ہو۔ نفرت کااندازہ لگائیے۔ ایک صاحب نے وہ قلم تحفہ میں مانگ لیا، جس سے بھٹوکی سزائے موت کے فیصلے پردستخط ہوئے تھے۔ مگرصرف تیس یا چالیس سال بعد، ہرباشعورآدمی یہ کہتانظرآ یاکہ بھٹو کے ساتھ ظلم ہواتھا۔ بھٹوسیاسی طورپرعظیم تھایا نہیں۔ اس پردورائے ہوسکتی ہیں۔ مگر اس کی سزائے موت پر تنقیدآج تک جاری ہے۔ پیپلزپارٹی اسے ایک عظیم سیاسی شہیدگردانتی ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ سب کچھ اس کی موت کے بعدہوا۔ بھٹوکے بدترین مخالف بھی تیس برس سے اس کی تعریف کرتے نظرآتے ہیں۔

بالکل یہی معاملہ اس سوسائٹی کے ہرتخلیق کارکے ساتھ ہوا ہے۔ مرحوم منیرنیازی ایک دن ترنگ میں کہنے لگے، کہ "لوگ مجھے قومی سرمایہ بتاتے ہیں۔ مگر میں وہ سرمایہ ہوں جسے قوم نے خوردبردکرلیاہے"۔ وہ ادیب اورشاعرجومنیرؔنیازی کوزندگی میں انھیں معمولی درجے کاشاعرگردانتے تھے۔ آج اس شاعرکی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ حبیب جالبؔ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ جس نظام کے خلاف جدوجہدکرتے ہوئے مفلسی کی زندگی گزارتارہا۔ اسی نظام کے سرکردہ لوگ، آج جلسوں میں اس کی شاعری گاگاکرپڑھتے ہیں اورلوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ وہ بھی برملاکہتے ہیں کہ جالب ایک عظیم شاعرتھا۔ سوال بدستورموجودہے کہ جالبؔ کی زندگی میں اسے کیوں نظراندازکیاگیا؟ سعادت حسن منٹوجیساعظیم لکھاری دس دس روپے کی محتاجی دیکھتا رہا۔ مگرآج، سعادت حسن منٹوپرفلمیں بن رہی ہیں۔

اسے پاک وہندکاعظیم ترین لکھاری گردانا جارہا ہے۔ اس کی سوچ کوملک کالبرل طبقہ، اپنے فکرکامنبع قرار دیتا ہے۔ کہاجاتاہے کہ منٹوکاایک ایک افسانہ، خزانے میں تولنے کے قابل ہے۔ مگرزندگی میں منٹوہماری سوسائٹی کے ظلم وستم کابھرپورشکاررہا۔ مرنے کے بعد، آج تک، اس کی ہرسطح پرتعریف ہوتی رہتی ہے۔ سلیم اقبال جیسے عظیم موسیقارکاذکربھی کرناچاہتاہوں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں، میرے پاس اکثرآتے رہتے تھے۔ وہ اُستاد، جسکی صرف دھن، آج بھی لوگوں کورُلا دیتی ہے۔ یعنی "اے راہِ حق کے شہیدو، وفاکی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں "۔ معاشرے کی مکمل بے اعتناعی کا شکار رہا۔ انکا دوپہر کا کھانا کیا تھا۔

اکثراوقات دوتین روپے کے پکوڑے اورایک نان۔ گوالمنڈی سے یہ کھانا اکثرکھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچے پکے مکان میں رہتے تھے۔ اس جیساعظیم موسیقار، غربت میں انتہائی تکلیف میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگیا۔ ویسے سلیم اقبال کو تو اس قابل بھی نہیں سمجھا گیا کہ عوامی سطح پراس کے فن کا اعتراف کیاجائے، مگرموسیقی سے منسلک لوگ سلیم اقبال کی قدرکوجانتے ہیں۔ تھیٹرسے منسلک اکثرلوگ پوری زندگی دنیاکوہنساتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔ لوگ صرف ان کی موجودگی سے خوش ہوجاتے ہیں۔ مگران میں سے اکثرکومعاشرہ وہ اہمیت اورعزت نہیں دیتا جو انکاحق ہے۔ ہاں، مرنے کے بعدمعاملات بالکل متضادہوجاتے ہیں۔ جب تک وہ زندہ رہتے ہیں۔ انھیں میراثی کہاجاتاہے۔ مگرجیسے ہی آنکھ بندہوتی ہے۔ وہ عظیم فنکاریافنکارہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ درجنوں نہیں، ہزاروں مثالیں ہیں۔ انتہائی غمگین اورتکلیف دہ مثالیں۔ مگرکوئی پرواہ نہیں کرتا!

فکری اعتبارسے چیلنج کرناچاہتاہوں۔ تخلیق کاروں کی اکثریت پوری زندگی شدیدمسائل کاشکار رہتی ہے۔ مگرمرنے کے بعد، یہ مردہ معاشرہ، ان کی تعریف کرتے کرتے تھکتا نہیں ہے۔ مغرب میں وان گوگ کو مرنے کے بعدجو عزت ملی، ہم توآج تخلیق کاروں کو دنیا سے جانے کے بعدبھی اتنی توقیردینے کوتیار نہیں۔ ہاں، لفظی تعریف ضرورکریں گے۔ ہم بیمار معاشرہ ہیں۔ شائدہم انتظارکرتے ہیں کہ تخلیق کار، ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرجائے۔ پھرکوئی بات کی جائے۔ ویسے اس بے جان معاشرے میں تخلیق کارکاپیداہوناایساجرم ہے، جسکی سزا اسے زندگی میں ہرلمحے ملتی رہتی ہے۔ شائدہم بڑے لوگوں کی موت کے منتظررہتے ہیں۔ مگراس منفی عمل میں احساس نہیں ہے، کہ ہماراپورامعاشرہ ہی دم توڑ چکا ہے!