سخاوت کاانڈکس(World Giving Index) ایک مستندسالانہ تجزیاتی رپورٹ ہے۔ اسےCharities Aid Foundationنام کاایک ادارہ مکمل تحقیق کے بعدشایع کرتاہے۔ فائونڈیشن ساراسال صرف یہی کام کرتی ہے کہ دنیاکے کون سے ممالک ایسے ہیں جہاں کے عوام پسے ہوئے طبقے کی مددکرتے ہیں۔ تنظیم غیرسیاسی ہے۔
فائونڈیشن سائنسی بنیادوں پرمختلف ممالک کے سماجی رویوں کوپرکھتی ہے۔ جائزہ لیتی ہے اورپھرایک تجزیہ شایع کرتی ہے جوپوری دنیاکے سامنے معاشروں کی داخلی کیفیت اور اس کے رجحانات کی عکاسی کرتاہے۔ یہ کام کوئی ایک دوملکوں کی سطح پرنہیں کیاجاتا۔ بلکہ دنیامیں ایک سوچالیس ممالک میں باقاعدہ سروے ہوتاہے۔ ان ممالک کی مجموعی آبادی پانچ ارب بنتی ہے۔
یعنی یہ بھی نہیں کہاجاسکتاکہ اس تنظیم نے چند لوگوں سے سوالات پوچھے اورپھرسرسری سی رپورٹ شایع کر دی۔ سروے صرف بڑے علاقوں تک محدودنہیں رہتا۔ بلکہ دیہاتی علاقوں کوبھی اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے، جتنی شہری علاقوں کو۔
اس فائونڈیشن کے سوالات حددرجہ آسان ہوتے ہیں۔ پندرہ برس کی عمرسے لے کربزرگ لوگوں تک، سب سے ایک طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ Gallup World Pollکاڈیٹااستعمال کیاجاتاہے۔ ہرملک میں کم ازکم ایک ہزارلوگوں کوبطورسیمپل پوچھاجاتاہے۔ بڑے ممالک جیسے چین اورروس میں اس تعدادکودوگنا کردیا جاتا ہے۔ چھوٹی آبادی پرمشتمل ممالک میں یہ تعدادپانچ سوتک محدودہوتی ہے۔
ہاں ایک اہم بات، سروے کرنے والے لوگ قطعاًان علاقوں میں نہیں جاتے جہاں ان کی جان کوخطرہ ہویاایسے علاقے جہاں پہنچناممکن نہ ہو۔ جیسے اگرعراق، شام یالیبیاجاناہوتوان علاقوں میں اپنااسٹاف نہیں بھجواتے۔ ویسے جہاں قتل وغارت ہورہی ہو، وہاں کی مقامی آبادی کارِخیر یا غریب لوگوں کی کیا مددکریگی۔ وہاں توپہلاسوال ہی اپنی جان بچانے کاہوگا۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ یہ ادارہ لوگوں سے فون پراورملکرسوالات کے جواب پوچھتاہے۔
یہ سوالات صرف تین ہیں مگران تینوں کاجواب انسان کے دوسروں کی مددکرنے کی بنیاد پرہے۔ پہلاسوال یہ ہوتاہے کہ کیاآپ نے گزشتہ تیس دنوں میں کسی اجنبی کی مددکی ہے۔ ایک ایسا شخص جسے بالکل نہ جانتے ہوں مگراسے مددکی ضرورت ہو۔ دوسراسوال بھی حددرجہ سادہ ہے کہ کیاآپ نے کسی مسکین کی مالی مددکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سوال انسان کی عادات کے متعلق ہے کہ اس نے دوسروں کے لیے اپنی دولت میں سے کتناحصہ خرچ کیاہے۔
تیسرے سوال کادولت اورپیسے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حددرجہ آسان سوال ہے کہ لوگوں کی خدمت کے لیے اپناکتناوقت صرف کیاہے۔ یعنی کسی بھی ادارے میں جومستحق لوگوں کی خدمت کرتاہے۔ اس میں آپ نے اپنا کتنا "وقت"صَرف کیاہے۔ اگرآپ ان سوالات کی جڑ کو دیکھیں تو ایک عنصربالکل یکساں ہے۔ وہ ہے ان لوگوں کی مددجنکوآپ نہ جانتے ہوں۔ جن سے آپ کاکوئی تعلق نہ ہو اور آپ نیک جذبے سے کارِخیرمیں وقت اورپیسہ صَرف کریں۔ اسکاایک اورپہلوبھی ہے کہ آپ کسی کی عزتِ نفس مجروح تو نہیں کررہے۔
ہمارے ہاں تومتضاد رویہ ہے۔ اخبارات میں باقاعدہ تصویریں چھپوائیں جاتی ہیں، مضامین لکھوائے جاتے ہیں کہ ہمارے ادارے نے اتنے غریب خاندانوں کی فلاں مددکی۔ بدتہذیبی کی انتہاتویہ ہے کہ مختلف اشیاء کی مکمل تفصیل بتائی جاتی ہے کہ آج ہم نے اتنے معذور لوگوں کوسائیکلیں مہیاکیں، اتناآٹادیا، اتنے پیسے دیے۔ ہمارے جیسے ادنیٰ معاشرہ میں اکثرسماجی ادارے اپنی نیکی کو اشتہاربناکرپیش کرتے ہیں اورپھراس سے اپنے مطلب کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بات رپورٹ کی ہورہی تھی۔ ان تین سوالات کے جوابات کوترتیب دیکرملکوں کی فہرست بنائی جاتی ہے کہ کون سے ملک میں دوسروں کی مددکرنے کارجہان دوسروں سے زیادہ ہے۔ اس فہرست کوWorld Giving Index Ratingsکانام دیا گیا ہے۔ یہ فہرست آپ آسانی سے گوگل پرتلاش کرسکتے ہیں۔ 2018میں شایع ہونے والی اس فہرست میں انڈونیشیاسب سے اول نمبرپر ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکا، آئرلینڈ، یوکے، سنگاپور اور کینیااسی ترتیب سے دوسرے تیسرے اوردیگردرجوں پر ہیں۔
انڈونیشیامیں خیرات کرنے کاانڈیکس پوری دنیاسے زیادہ ہے۔ یہ 78فیصدہے۔ جب کہ یہی انڈیکس آسٹریلیایعنی دوسرے نمبر پرآنے والے ملک میں 71 فیصد ہے۔ نیک کاموں کے لیے وقت نکالنے میں انڈونیشیاکے پاس 53 فیصد نمبر ہیں۔ پوری دنیامیں کوئی ملک اسکامقابلہ نہیں کرسکتا۔ مگر اجنبی کی مدد کرنے میں یہ ملک قدرے پیچھے ہیں۔ اس میں لائبیریا اور سرالیون سرِفہرست ہیں۔ وہاں کاشرح تناسب اَسی فیصد ہے۔
ترقی یافتہ ممالک، دوسروں کی امدادکرنے میں ترقی پذیرممالک سے بہت آگے ہیں۔ بلکہ کچھ ترقی پذیرملکوں میں دوسروں کی مددکرنے کارجہان پہلے سے بھی کم ہورہا ہے۔ ان کے معاشرے نفسانفسی اورماردھاڑ کا شکار ہیں۔ ایک اجتماعی رجحان بھی سامنے آیاہے کہ ضروری نہیں کہ دولت مندملک ہی دوسروں کی مددکررہے ہوں۔ میانمر جیسا ملک، پچھلے کئی برسوں سے اس فہرست میں امتیازی حیثیت میں رہا ہے۔
ایک حیرت انگیزاندازہ جواس رپورٹ نے ثابت کیاہے کہ پچاس برس سے اوپرکے انسان بہت کم خیرات کرتے ہیں۔ پندرہ برس سے لے کرانتیس برس کے نوجوان لوگ اس کارِخیرمیں سب سے آگے ہیں۔ بعینہ یہی رویہ، اچھے اور نیک کاموں کے لیے وقت نکالنے کاہے۔ پچاس برس کے بوڑھے لوگ اپناوقت دوسروں کے لیے اتنا صَرف نہیں کرتے، جتنانوجوان انسان کرتے ہیں۔ وہی عمریعنی پندرہ سے انتیس برس کی عمرکے انسان، دوسروں کے لیے سب سے زیادہ وقت نکالتے ہیں۔
رپورٹ کے بلاتعصب تجزیے نے مجھے ایک عجیب سی مشکل میں ڈال دیاہے۔ ہمیشہ بتایاگیاہے۔ بلکہ اخبارات میں لکھابھی گیاہے کہ پاکستان دنیامیں خیرات اورامداد کرنے والے ملکوں میں سرِفہرست ہے۔ اکثرجگہ تویہ بھی لکھاہواہے کہ اول نمبرپرہے۔ ویسے یہ تومجھے اندازہ ہے کہ پاکستانی لوگ ایک دوسرے کی کافی مددکرتے ہیں۔ مگر world giving indexکے مطابق ہماراملک پہلے پچاس ملکوں میں بھی شامل نہیں ہے۔ ہم اکانوے نمبرپر ہیں۔
ہمارے سے نیچے بھی کئی ممالک ہیں۔ جیسے الجیریا، ایتھوپیا، پولینڈاوریمن وغیرہ۔ ہم مجموعی فہرست میں کافی نیچے ہیں۔ ہمارامجموعی اسکورصرف اَٹھائیس فیصد ہے۔ یہی اسکورموذمبیق جیسے ملک میں انتیس فیصد ہے۔ کوئی دل شکنی نہیں کرناچاہتا۔ مجھے اس فہرست کوپڑھ کرکوئی تعجب نہیں ہوا۔ جس فائونڈیشن نے یہ درجہ بندی کی ہے اسے ہم سے کوئی دشمنی نہیں اورانڈونیشیاسے کوئی محبت نہیں۔ اس نے تو صرف تین سوالات کیے ہیں اورتحقیقی بنیادوں پرایک سو چالیس ملکوں کومختلف نمبردیے ہیں۔
عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ ہم اس فائونڈیشن پریہ الزام نہیں لگاسکتے کہ انھوں نے کسی دشمن ملک کے کہنے پرہمیں کم نمبردیے ہیں۔ دراصل ہماراسماج جس منفی رویے کاشکارہے، اسے کسی بھی سطح پر نظر اندازکرناناممکن ہے۔ لوٹ کھسوٹ، جھوٹ، ریاکاری، فریب اوردھوکا دہی میں ہماراموجودہ دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ شائد کچھ بدقسمت معاشرے ہم سے نچلے درجہ پرہوں۔ اپنے اردگردلوگوں کے سماجی رجحانات کا جائزہ لیں توآپکومثبت عناصرکم نظرآئیں گے۔
کسی تحقیقاتی رپورٹ کی ضرورت نہیں۔ ہمارے رویے خود اپنا آئینہ ہیں۔ بلاخوف تردیدعرض کر رہا ہوں، کہ جتنی کرختگی، ظلم اورناانصافی ہمارے خطے میں موجود ہے، ترقی یافتہ ممالک میں اس کا تصوربھی ناممکن ہے۔ ہمیشہ سے لکھتاآرہاہوں کہ ہمیں انسانی درجہ سے کمتردرجے پرصرف سانس لینے کی اجازت ہے۔
چلیے، یہ رپورٹ یہود وہنودکی سازش ہی سہی۔ اپنے آپ سے یہی تین سوالات کیجیے۔ کسی سے بات نہ کریں۔ جواب خودایمانداری سے درج کرلیں اورمعاشرے کی نہیں انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی درجہ بندی خودہی کرلیجیے۔ ہو سکتاہے کہ ایمانداری سے جواب دینے پرہم اپنے آپکوسچ کے آئینے کے سامنے دیکھ پائیں۔ آپ کتنے اجنبی انسانوں کی مددکرتے ہیں۔ چوک میں کھڑے ہوئے فقیروں کی بات نہیں کررہا۔ اس معاشرے میں ترقی کی دوڑمیں پیچھے رہ جانے والے لوگوں کی بات عرض کررہاہوں، جنھیں آپ بالکل نہیں جانتے۔ اکثریت کاجواب صفرہوگا، منفی یا تھوڑا سا بہتر۔
دوسراسوال بھی اپنے آپ سے کیجیے۔ اپنے وسائل میں سے کتنے فیصدمفلوک الحال لوگوں پرصَرف کرتے ہیں۔ ایک فیصد، دوفیصدیاشائدپانچ فیصد۔ کیایہاں کوئی وارن بوفٹ یابل گیٹس دیکھاہے جواپنی جائیدادکااَسی یانوے فیصدعام لوگوں کی بھلائی کے لیے مختص کردے۔ تیسراسوال ابھی موجودہے۔ لوگوں کی عملی مددکے لیے کتناوقت صَرف کیاہے۔ کم ازکم میراجواب تواپنے متعلق صفرہے۔ میں کبھی کسی غریب بستی میں جاکراسے صاف نہیں کرتا۔ کسی سرکاری اسکول میں جاکربچوں کومفت نہیں پڑھاتا۔ معذورلوگوں کی خدمت کے لیے وقت نہیں نکالتا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سارے کام بہت زیادہ کرتے ہوں۔ مگرعملی ثبوت تو سامنے نہیں آر ہے۔ ہمیں توٹرین مارچ، سونامی مارچ، ملین مارچ، "آزادی مارچ" اور ہرطرح کی مارچ کے نام پراصل مسائل سے گریزاں کرنے کافن سکھا دیا گیا ہے۔ ہر چیز صرف اورصرف سیاست ہے۔ سب اعتراضات چھوڑ دیجیے۔ اپنے آپ سے یہی تین سوالات کیجیے۔ شائد آپ کا جواب حددرجہ بہترین ہو۔ مگر میرے پاس توکوئی مثبت جواب نہیں ہے!