28 جون، 1914 کو اتوار تھا۔ سارا جیوو (Sarajevo) میں ہر طرف زندگی بڑے آرام بلکہ سکون سے گامزن تھی۔ یہ شہر، آسٹرو ہنگری سلطنت کے مرکزی شہروں میں سے ایک تھا۔ خوبصورت عمارتیں، اس زمانے کے حساب سے بہترین سڑکیں، رنگ برنگے پھولوں سے مزین باغ اور ایک ترقی یافتہ خطہ۔ کوئی اس شہرکو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھاکہ اس کے اندر بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ شاہی خاندان کی بھرپور گرفت تھی۔
شاہی خاندان پوری دنیا میں اپنے تعلقات کی بدولت حددرجہ مضبوط تھا۔ طاقتور تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق شاہی سلطنت کا ولی عہد فرانز فرڈیننڈ (Franz Ferdinand) اپنی اہلیہ صوفیا کے ساتھ ایک سماجی تقریب کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں نے بیش قیمت شاہی لباس پہن رکھا تھا۔ ان کے ساتھ محافظین کی گاڑیاں تھیں۔ یک دم، ایک شخص جس کا نام Cabrinovic معلوم ہوا، انتہائی تیزی سے آیا۔ ولی عہد کی گاڑی کی طرف گرنیڈ پھینکا اور وہاں سے بھاگ گیا۔
گرنیڈ، ولی عہد کی پچھلی گاڑی میں پھٹا اور اس کے کئی محافظ شدید زخمی ہوئے۔ ولی عہد فوری طور پر نزدیک ترین گورنر کی رہائش میں چلا گیا۔ محافظین کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ فرانز حددرجہ طیش میں تھا۔ گورنر ہاؤس جا کر فیصلہ کیا کہ اپنے محافظین کی عیادت کے لیے اسپتال جائے گا۔
جب اسپتال کے نزدیک پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ زخمی دوسرے اسپتال میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔ شاہی قافلے کی گاڑیاں موڑی گئی۔ مگر رش کی وجہ سے وہ رُک رُک کر چل رہی تھیں۔ یک دم، ایک نوجوان نمودار ہوا۔ اس نے ولی عہد کی گاڑی کے نزدیک آکر پستول نکالا اور ولی عہد اور اس کی بیوی پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ یہ تقریباً گیارہ بجے دن کا وقت تھا۔ ولی عہد کی گردن میں گولی لگی اور اہلیہ کے پیٹ کو چھلنی کر دیا گیا۔ فرڈیننڈ نے اس طرح ردِعمل ظاہر کیا جیسے اسے کچھ نہیں ہوا اور وہ زخمی نہیں ہے۔ اس کی گردن سے خون رس رس کر کپڑوں پر گر رہا تھا۔ محافظین تیزی سے گاڑی کی طرف لپکے۔ انھوں نے ولی عہد کی شرٹ اور کوٹ اُتارنے کی کوشش کی تاکہ زخم پر پٹی باندھی جاسکے۔
مگر شاہی لباس اس طرزسے سلا ہوا تھا کہ کوشش کے باوجود وہ کوٹ نہیں اُتار سکے۔ ولی عہد اسپتال تک تو چلا گیا۔ مگر وہاں مقامی اسپتال میں دونوں میاں بیوی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ ان پر گولیاں برسانے والا، انیس برس کا ایک نوجوان گیوریلوپرنسپ (Garrilo Princip) تھا۔ اس کا تعلق بلیک ہیڈ تنظیم سے تھا۔ یہ تنظیم سلاوی (Slavie) کو متحد کر کے ایک آزاد خطہ بنانے کا عزم رکھتی تھی۔ نوجوان، اس تنظیم کا مجاہد تھا۔
اگر مجاہد کا لفظ معتدل نہیں تو ان کا ممبر تھا۔ وہ آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کر رہا تھا۔ مگر سلطنت کی نظروں میں دہشت گرد تھا بلکہ ایک انتہائی خطرناک مجرم۔ بہرحال یہ تو ہر آزادی کی تحریک کی کہانی ہے، کہ کوئی بھی فرد، ایک طبقہ کے لیے دہشت گرد ہے اور دوسرے طبقے کے لیے آزادی کی جنگ لڑنے والا عظیم مجاہد۔ جس وقت ولی عہد کو قتل کیا گیا، کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعہ سے پوری دنیا برباد ہو جائے گی اور اس کا ردِعمل ایسا ہو گا کہ عام آدمی آنکھوں میں انگلیاں ڈال ڈال کر زارو قطار روئے گا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کو شروع کرنے کا خوفناک شعلہ تھا۔ یہ اس دور کا 9/11 ثابت ہوا۔
ان کے بعدکے واقعات حددرجہ خطرناک تھے۔ آسڑیا کی سلطنت نے سربیا کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کی دیر تھی کہ جرمنی نے آسڑیا کی حکومت کو کہا کہ وہ ہر طریقے سے ان کے ساتھ ہے۔ تاریخ میں اسے "بلینک چیک" کا نام دیا گیا ہے۔ فرانس اور روس نے سربیا کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ اس وقت کی سُپرپاور تھا۔ اس نے جرمنی کے خلاف کھڑے ہونے کا اعلان کر ڈالا۔ سلطنت عثمانیہ جو کہ اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی اور طاقتور سلطنت تھی، جرمنی اور آسٹریا کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ ولی عہد کے قتل سے ٹھیک چند ہفتے بعد، پورا یورپ ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہو چکا تھا۔ 1914 میں پہلی جنگِ عظیم کی ابتداء ہوئی۔ اس جنگ میں چارکروڑ لوگ مارے گئے۔ دو کروڑ تیس لاکھ افراد بری طرح زخمی ہوئے۔
فوجیوں کے مارے جانے کا صرف اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک کروڑ دس لاکھ فوجی اہلکار جنگ کی نذر ہو گئے۔ یورپ کے ممالک مکمل طور پر برباد ہو گئے۔ روس اور جرمنی جنگ ہار کر اس قدر بدحال ہوئے کہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ کی نظر میں واقعات، قوموں کو گرفت میں لے لیتے ہیں اور اس کے بعد مستقبل کے متعلق کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اسی تناظر میں پاکستان اور ہندوستان کے حالیہ باہمی معاملات کو پرکھیں تو یہ ایک غیریقینی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بلکہ دوڑ رہے ہیں۔
ہندوستان کی پارلیمنٹ نے کشمیر کے خصوصی مقام کو جس طرح ختم کیا ہے۔ وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ ہندوستان نے میری نظر میں تاریخی غلطی کی ہے۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ سب کچھ ایک دن میں ہو گیا۔ کیا معاملات اس قدر سادہ ہیں کہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا، ووٹنگ ہوئی اور کشمیر کو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کا جو آئینی مقام 1947 سے لے کر آج تک موجود تھا، یک جنبش قلم، ختم کر دیا گیا۔ ایسا سادہ کام ہرگز نہیں ہوا۔ یہ نکتہ دلیل کے خلاف ہے۔
اس سانحہ سے پہلے، بھارت نے بھرپور خاموش سفارت کاری کی ہے۔ اس نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک سے رازونیاز کیے ہیں۔ انھیں مکمل اعتماد میں لیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ کئی ماہ پر محیط ہو سکتا ہے۔ انڈیا کی اس خاموش سفارت کاری کا ہمیں معلوم نہیں ہوا۔ یہ ایک قیامت خیز معاملہ ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے تمام ادارے، ہندوستان کے معاملات پر کڑی نظر رکھنے میں ناکام رہے۔ جتنے ممالک میں جانے کا موقعہ ملا ہے، وہاں ہر پاکستانی سفیر نے بتایا کہ اس ملک میں ہندوستان کے سفارت خانے حددرجہ فعال ہیں۔ اکثر پاکستانی سفیر شکوہ کرتے نظر آئے کہ ہمارے پاس وہ مالی وسائل نہیں ہیں جن سے ہم مثبت نتائج حاصل کر سکیں۔
خیر، خارجی سطح پر اس غلطی کا ازالہ کرنا اب ناممکن ہے۔ پاکستانی قوم کے جذبات حددرجہ مشتعل ہیں۔ ہندوستان کے زیرِتسلط کشمیر بھی قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں اتنی فوج موجود نہیں جتنی تعداد میںکشمیر میں تعینات ہے۔ ظلم وستم کی داستانیں ہر ایک کے علم میں ہیں۔ مگر انتہائی ٹھنڈے دل سے سوچنے کی بات ہے کہ مغربی دنیا کو تو رہنے دیجیے۔ کیا مسلم ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ یو۔ اے۔ ای کا حالیہ بیان ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ نے تاریخی فیصلہ کیا ہے اور اس کے حددرجہ مثبت معاشی نتائج نکلیں گے۔ چین اپنے مفادات کے تحت، ہمارے ساتھ ہے۔ مگر کیا ترکی اور ملیشیاء اس پوزیشن میں ہیں کہ اس حددرجہ نازک معاملے پر اثرانداز ہو سکیں۔ اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ ہے جو صرف طاقتور کی زبان سمجھتا اور بولتا ہے۔
دلیل پر بات کریں تو ان کا کوئی اہم رول نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک حددرجہ نازک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے معاملات کا سنجیدہ طالبعلم ہوں۔ آر ایس ایس کے امیت شاہ اور نریندر مودی کا اصل ہدف کشمیر نہیں ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ ان سے بزورِ شمشیر، کشمیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا اصل ہدف، پاکستان ہے۔ امیت شاہ، جو کہ طاقت کا اصل محور ہے، متعدد جگہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کو نہیں رہنے دیگا۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن کو تبدیل کرے گا اور اسے محکوم بنائے گا۔
بی جے پی نے مسلمان دشمنی پر الیکشن جیتا ہے اور اب وہ بین الاقوامی سطح پرمہم جوئی کے لیے تیار ہے۔ اس میں اسرائیل کی پوری طاقت، ہندوستان کے ساتھ ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے، جو موجودہ صورتحال میں زیرِبحث ہے ہی نہیں۔ کسی دانشور یا حکومتی اہلکار نے یہ نہیں کہا کہ کشمیر کی آہنی حیثیت تبدیل کرنے کا اصل مقصد پاکستان کو اشتعال دلوانا ہے۔ ایسا ماحول بنانا ہے جسکے بعد ایک کھلی جنگ ہو اور نریندر مودی، اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب ہوجائے۔ ہم لوگ "اسموک اسکرین" کے سامنے کھڑے ہیں۔ ہمیں کشمیر کی تبدیلی دکھائی جا رہی ہے جو ہر صورت میں ناقابل قبول ہے۔ مگر اس کے پیچھے امیت شاہ کی وہ چال دکھائی نہیں دے رہی، جس کا مقصد، پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔
کیا اس صورتحال میں، ہماری قومی قیادت ٹھنڈے دل سے معاملات کو سمجھتی ہے اور سلجھاتی ہے، اس کے متعلق کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ کیا ہم بھارت کی موجودہ چال کو سمجھ کر جنگ سے دور رہتے ہیں۔ مجھے اس بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا دنیا کے طاقتور ترین ممالک یہ تو نہیں چاہتے کہ پاکستان جنگ کی طرف مائل ہو جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ شروع تو کی جا سکتی ہے مگر اسے اپنی شرائط پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں بربادی ہی بربادی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تمام صورتحال، ہنری کسنجر کے بقول تیسری عالمی جنگ کا ابتدائیہ ہو؟ خدارا، سوچئے اورسمجھئے!