ڈیوڈروز(David Rose) غیرمعمولی سطح کا پڑھا لکھاصحافی ہے۔ ویسے صرف صحافی کالفظ اس کے کام اور پہچان کے لیے حددرجہ ناکافی نظر آتا ہے۔ ساٹھ برس کایہ انسان کمال کاتحقیقی کام کرتاہے۔ ایسی نایاب تحقیقات، جس سے بڑے بڑے فرعون تو کیا، حکومتیں لرزتی ہیں۔
ڈیلی میل میں کام کرنے والایہ انسان، بہت عرصے تک بی بی سی سے منسلک رہا۔ چند ہفتے پہلے محترم شہبازشریف اوران کے خاندان کے متعلق ایک تحقیقی اسٹوری لکھی جوکہ ڈیلی میل میں شایع ہوئی۔ اس نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی۔ ڈیوڈ روزہرپاکستانی چینل پرخودآیااوراپنی اسٹوری کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کرتارہا۔ آج بھی اپنے تحقیقی کالم پرقائم ہے۔
میرے ذہن میں ملکی صحافت کے متعلق کوئی اعلیٰ خاکہ نہیں ہے۔ یہاں اکثردانشوراورجیدصحافی، دلیل اورتحقیق کی بجائے ذاتیات کے مطابق گفتگوکرتے ہیں یا کالم لکھتے ہیں۔ مقامی دانشوروں کی اس کھیپ کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں ہے۔ اکثریت، آج تک کسی بھی موضوع پرکوئی مستند کتاب نہیں لکھ سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگ اب مقامی صحافت کی عجیب وغریب روش سے تنگ پڑچکے ہیں۔ مگریہ انحطاط صرف صحافت تک محدودنہیں ہے۔ ہماراہر شعبہ، تنزلی کی داستان ہے۔ معدودے چندلوگ ہیں جوحقائق کی کھوج نکال کربات کرنے اورلکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ آٹے میں نمک کے برابرہیں۔ اُردواخبارات میں ان کی تعدادنہ ہونے کے برابرہے۔ یہی حال اُردوالیکٹرونک میڈیا کاہے۔ ہاں انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبارات میں کبھی کبھی کوئی آزادروش، تحقیقی اسٹوری نظرآجاتی ہے۔ پر یہاںانگریزی اخبارپڑھتاکون ہے۔
بات ڈیوڈروزکی ہورہی تھی۔ 9/11کے حملوں کے بعد، ڈیوڈپہلاجرنلسٹ تھاجس نے امریکی عقوبت خانے، گوانتانامہ بے کی بھرپورمذمت کی تھی۔ امریکی اوربرطانوی حکومتوں کوبرہنہ کرکے رکھ دیاتھاکہ یہ گوانٹامہ بے میں، مسلمانوں پرحددرجہ ظلم کرتے ہیں۔ اس نے اس عقوبت خانے سے باہرآنے والے لوگوں کوتلاش کیا۔ ان سے تفصیلی انٹرویوکیے اورپھراپنی شہرہ آفاق کتاب Guantanoma، America’s war on Human Rights لکھی۔ 2004ء میں چھپنے والی یہ کتاب اتنی مستحکم معلومات پرتھی کہ برطانوی اورامریکی حکومتوں کواس عقوبت خانے کے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑی۔ کوئی بھی حکومت، ڈیوڈکی طرف سے لگائے گئے الزامات کاجواب نہ دے پائی۔
اس کے علاوہ ڈیوڈنے برطانوی حکومت کے ایک فیصلے پرکڑی تنقیدکی۔ جس میں دہشت گردی میں گرفتار، لوگوں پر جدید طریقے سے تشددکی اجازت دی گئی تھی۔ بن یامین محمد، کا کیس دنیاکے سامنے لانے والاڈیوڈہی تھا۔ برطانیہ کی سینیٹ کمیٹی برائے انٹیلی جینس نے اس بات کوتسلیم کیاکہ واقعی تشددکی یہ پالیسی نہ صرف غلط ہے، بلکہ اس کے منفی نتائج نکل رہے ہیں۔ بعینہ یہی بات، اسکاٹ لینڈیارڈکے انچارج، پیٹرکلارک اورایف بی آئی کے ڈائریکٹرنے کہی کہ مسلمانوں پرجدیدطریقے سے تشدد کرنے کے کوئی نتائج نہیں نکل رہے۔
حدتویہ ہے کہ ڈیوڈ نے ثابت کیاکہ حماس نے غزہ پرقبضہ امریکی معاونت سے کیا تھا۔ یہ ایک انتہائی ٹاپ سیکرٹ منصوبہ تھا۔ 2017میں چھپنے والایہ مضمون "The Gaza Bombshell"نے مغربی حکومتوں کے لیے قیامت برپاکردی۔ آٹھ کتابوں کایہ مصنف، اس وقت آل شریف کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔ وہ ان کی مالیاتی بے ضابطگیوں پرتحقیقی مقالے لکھ کر پاکستان اوربرطانیہ کی حکومتوں میں تہلکہ مچا چکا ہے۔ غیرجذباتیت سے دیکھیے توکسی نے بھی، اس کے حقائق کی تردیدنہیںکی۔ ہاں تنقیدضرورکی ہے۔ جوبہر حال ہر سیاسی جماعت اورانسان کابنیادی حق ہے۔
ڈیلی میل سواسوسال پرانا اخبارہے۔ یہ1896میں شروع کیاگیااورحالیہ دور میں "سن"اور"میٹرو"کے بعد برطانیہ کاتیسرابڑااخبارہے۔ اس کی روزانہ کی اشاعت دس لاکھ سے اوپرہے۔ اورہاں، ایک انتہائی اہم بات۔ تحقیق کے مطابق اسکوپڑھنے والوں کی تعدادچالیس لاکھ کے قریب ہے۔ اسے 52اور55کی عمرکے درمیان والے سب سے زیادہ پڑھتے ہیں۔ یعنی یہ سنجیدہ عمرکے لوگوں کا اخبار ہے۔ اس کی ویب سائٹ پرہر مہینہ دس کروڑسے زیادہ افراد مطالعے کے لیے آتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ ڈیوڈروزکی طرح، ڈیلی اخباربھی مستند حیثیت کامالک ہے۔
ہمیںیہ سمجھناچاہیے کہ برطانوی اخبار میں کوئی بھی تحقیقی اسٹوری چھاپنے اورچھپوانے کاکام انتہائی پیچیدہ اور غیرجانبدارہے۔ جب بھی کوئی صحافی ایسی اسٹوری لکھتاہے جوکہ کسی شخص یاحکومت کے لیے مسائل پیداکر سکتی ہے۔ توایڈیٹر، صحافت کی اعلیٰ روایات کومدِنظررکھتے ہوئے، اسٹوری کسی دوسرے ممتازصحافی کے حوالے کرتا ہے۔ دوسرا صحافی، ایک امپائرکی حیثیت رکھتاہے۔ مکمل طورپر آزاد ذرایع سے اس کہانی پرتحقیق کرتاہے۔ اگرحقائق جزوی طور پربھی غلط نکلے، تو ایڈیٹرکولکھ کردیتاہے کہ یہ تحقیق درست نہیں ہے اور اس کو نہیں چھاپنا چاہیے۔
ہاں، اگرکہانی سوفیصد درست نکلے توپھرایڈیٹرکو لکھ کردیتاہے کہ اس میں کوئی سقم نظرنہیں آیا۔ اس کے بعد، ایڈیٹر، اس کہانی کواخبارکے لیگل شعبہ میں بھجواتاہے۔ جہاں وکلاء کی ٹیم اس کہانی کوہرزاویہ سے پرکھتی ہے اوراس پراپنی رائے دیتی ہے۔ اگروکیل یہ کہہ دے، کہ قانونی سقم کی وجہ سے اسٹوری نہیں چھپنی چاہیے تواسٹوری ہرگزہرگزنہیں چھپ سکتی۔ اس احتیاط کی صرف ایک وجہ ہے کہ برطانیہ میں مکمل طورپرقانون کی عملداری ہے۔
اگرکوئی اخبارغلطی سے کسی بھی شخص یاادارے کے متعلق غلط خبرشایع کردے، تواسے عدالت میں پیش ہونا پڑتاہے۔ اس پراس قدرجرمانہ کیاجائیگاکہ اخبار تقریباً دیوالیہ ہوجائیگا۔ ہراسٹوری کی طرح، محترم شہبازشریف کے خاندان کے متعلق لکھنے سے پہلے، تمام جزئیات معمول کے مطابق طے کی گئی تھیں۔ ڈیوڈروزنے توذاتی طورپرتمام لوگوں کوای میلز پربھی اپنا بیانیہ دینے کی دعوت دی تھی۔ مگر کسی بھی شخص، جواس اسٹوری میں ملوث تھا، جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔
ڈیلی میل کی اس اسٹوری کے بعدمحترم شہبازشریف برطانیہ تشریف لے گئے تھے۔ ان کی وکلاء کی ایک ٹیم ان سے پہلے لندن میں قانونی چارہ جوئی کے لیے موجودتھی۔ لگتاتھاکہ ڈیلی میل کی شامت آچکی ہے۔ ڈیوڈ روزفوری طورپران کے پیرپکڑ لیگا۔ اخبارکاایڈیٹر، ان لوگوں کے گھرجاکردروازے پرکھڑاہوکرہاتھ جوڑدیگا۔ مگرایساکچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلی تلخ بات تویہ، کہ محترم شہبازشریف کی ملکی ٹیم میں، برطانوی اخبار کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کاکوئی ماہرتھاہی نہیں۔ چنانچہ اس کام کے لیے برطانیہ کی مشہوراورمہنگی ترین قانونی فرم، کارٹررکCarter Ruckکاسہارالیاگیا۔ یہ کمپنی برطانیہ میں اخبارات میں چھپنے والی خبروں پرقانونی چارہ جوئی کرنے کی ماہرہے۔ اس کی صلاحیت کالوہا، پورابرطانیہ مانتا ہے۔ بلکہ اس کے کلائنٹ دنیا کے طاقتوراورمشہورترین لوگ ہیں۔
رچرڈ برگن، مائیکل مارٹن، اداکارہ شلپاسیٹھی، روئے ریم اور متعدد امیر لوگ اس کمپنی کے خوشہ چیں ہیں۔ قطرکے شاہی خاندان سے لے کرکئی شاہی خاندان، اس کمپنی سے استفادہ کرچکے ہیں۔ دیکھاجائے تو کارٹررک ایک انتہائی زیرک اور باصلاحیت کمپنی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ برطانیہ کی بہترین کمپنی نے بھی ڈیلی میل اورڈیوڈروزکے خلاف کسی بھی عدالت میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔ کسی بھی برطانوی عدالت کادروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ محترم شہبازشریف کے خلاف بالکل غلط اسٹوری شایع کی گئی ہے۔
آج کی تاریخ تک کسی برطانوی عدالت میں، ڈیلی میل اورڈیوڈروزکے خلاف کوئی کارروائی کی درخواست تک دائر نہیں ہوئی۔ ہاں، اخباراورصحافی کوایک قانونی نوٹس دیاگیاہے کہ آپ نے یہ سب کچھ کیونکر اورکیسے کیا۔ قانونی نوٹس کے جواب کے لیے، اخبار نے چودہ دن کاوقت مانگا ہے۔
نوٹس کے بعدبھی ڈیوڈروزنے کہاہے کہ وہ اپنی تحقیقاتی اسٹوری کے ایک ایک لفظ پرقائم ہے۔ برطانیہ میں ان تمام معاملات کوپاکستان کی طرح برتا نہیں جاتا۔ جہاں سول کورٹ کے بلانے پربھی ہرجانے کے کیس میں ملوث فریقین عدالت میں نہیں جاتے۔ سول کورٹ مکمل خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ کیونکہ اسے اندازہ ہوتاہے کہ فریقین اتنے تگڑے ہیں کہ ان کے معاملات کونہ چھیڑنا، زیادہ بہتررویہ ہے۔ مگر برطانیہ میں یہ دستورنہیں ہے۔
اخبارات کے مالکان، صحافی اورعدالتیں اتنی مضبوط روایتوں کے امین ہیں کہ کم ازکم ہمارے جیسے ملکوں میں اس سچ کاتصورتک نہیں کیا جا سکتا۔ محترم شہبازشریف نے کارٹررک کمپنی کواپناوکیل بناکرایک بہترین ترکیب استعمال کی ہے مگر اس کمپنی اورشہبازصاحب نے بھی عدالت میں جانے سے گریزکیاہے۔
افسوس تواس اَمرکاہے کہ ہمارے ملک میں کوئی لیڈر، کوئی سیاسی طورپربڑاآدمی، سچ نہیں بولتا۔ یہ لوگ ہرسطح اور ہر مقام پرکمال مہارت سے غلط دلائل پیش کرتے ہیں، کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں شائدسچ بولنے پرمکمل ممانعت ہے۔ قیامت تویہ بھی ہے کہ قوم کی اکثریت اب سیاستدانوں کوسنجیدگی سے نہیں لیتی۔ مگر ہر جماعت کے جذباتی سیاسی کارکن موجودہیں۔ یہ اپنے اپنے قائدین کوفرشتہ گردانتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی بات سننے کی تاب نہیں لاتے۔ انھوں نے سیاسی بت تراش رکھے ہیں اور شائدیہ ان بتوں کوہی سب کچھ مان چکے ہیں۔
ہرسیاسی پارٹی میں ایسے لوگ موجودہیں جودلیل سے کی گئی غیرجانبدارتنقیدکوبھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انھیں اوران کے سیاسی اکابرین کوہرطرف سازش ہی سازش نظرآتی ہے۔ سازش توصاحب ہوئی ہے اوروہ ہے کہ عوام کو معاشی، سماجی اوراقتصادی غلام بنانے کی۔ اس بھیانک کھیل میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ ان اکابرین کے لیے لوگ کیڑے مکوڑے ہیں۔ اورعام آدمی، اس کواپنامقدرتسلیم کر چکاہے۔ دیکھیے، برطانیہ میں ڈیوڈروز، ڈیلی میل اور کارٹررک اورہمارے اکابرین تھیلے میں سے کون سی بلی نکال کر ہمیں حیران کرینگے۔ یاشائد تھیلے میں سے کچھ بھی نہ نکل پائے، کیونکہ تھیلا توپھٹاہواہے!