اپوزیشن کا بنیادی کام حد درجہ مشکل ہوتا ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی اپوزیشن، حکومتی جماعت کی کوتاہیوں پر عقاب کی نظر رکھتی ہے۔ مگر معاملہ یہاں ہرگز ہرگز نہیں رکتا۔ حزب اختلاف کو حکومتی غلطیوں کی درستگی کے لیے ایک جامع منصوبہ بھی عوام کے سامنے رکھنا ہوتا ہے۔
اس کی بنیادی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ سرکار کی خامیاں لوگوں کے سامنے لانا ایک راست بات ہے۔ مگر ان تمام مسائل کا حل دینا اس سے بھی بڑا اور دقیق کام ہوتا ہے۔
مغربی جمہوری ممالک میں حزب اختلاف کے لوگ صرف طعنہ زنی اور دشنام درازی پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ مختلف تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر تمام مسائل کا جامع حل نکالتے ہیں۔ جسے پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی بہتر منصوبہ بندی، بڑی سے بڑی جمہوری حکومت کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یہ وصف بھی صرف مہذب ممالک کے پختہ جمہوری نظاموں میں نظر آتا ہے اور اس طرح تمام سیاسی قوتیں مل کر صرف ایک نکتہ پر کام کرتی ہیں اور وہ ہے عوام کی بھلائی اور ان کی دیکھ بھال۔ ان کو بنیادی ضرورتوں کو مہیا کرنے کا بہترین سسٹم ترتیب دینا۔ حد درجہ پیچیدہ بات کو سادہ سے نکتے میں عرض کر رہا ہوں۔ بغیر کسی لفاظی کے اگر کسی بھی جمہوریت کا جوہری مقصد بتانا ہو، تو وہ صرف ایک ہے کہ عام لوگوں کی زندگیوں کوکیسے آسان سے آسان تر بنایا جائے۔
تیسری دنیا میں اول تو جمہوریت کو صرف رنگ روغن کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ مہذب رنگ کا غازہ ملک کے ابتر نظام پر لگا کر اسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ افریقہ کے اکثر ممالک، وسطی امریکا کی ریاستیں اور ہمارے جیسے ممالک صرف اور صرف جمہوریت کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیڈران میں جمہوری اقدار کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور دوسرا یہ اس خوبصورت نام کے پیچھے صرف اور صرف ناجائز دولت کمانے کا ایک خوفناک دھندا چل رہا ہوتا ہے۔
خان صاحب نے نواز شریف کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی اور اپنے قرابت داروں کو بھی اخلاق سے گری ہوئی تقاریر کرنے کی عادت ڈال دی۔ وہ اس موجودہ سیاسی بحران کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ یہ نہیں کہ خان صاحب سے پہلے سیاست دان مخالفین کے متعلق غیر اخلاقی زبان استعمال نہیں کرتے تھے۔ بالکل کرتے تھے۔
مسلم لیگ ن کے اکابرین بینظیر بھٹو کے متعلق جتنے شرم آمیز جملے اچھالتے تھے، وہ آج بھی سنتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مگر اس گستاخانہ نکتہ چینی کو بڑھاوا گزشتہ پانچ چھ برس میں کچھ زیادہ ملا ہے۔ چلیے، اس نکتہ کو بھی گرد میں دبا دیجیے۔
موجودہ سیاسی حالات پر غور فرمائیے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے متعلق بات کیجیے۔ کہا جا رہا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک جمہوری عمل ہے۔ یہ آئین کے مطابق بالکل درست بات ہے۔ مگر جس ملک کے ایک کونے میں بھی قانون اور آئین کی عملداری نہ ہو۔ جہاں تمام معاملات ذاتی پسند اور ناپسند کے حساب سے چلتے ہوں، جہاں مفادات کا حصول، قانون کو نافذ کرنے سے زیادہ اہم ہو۔ وہاں یہ آئینی اصول حد درجہ دھندلا جاتا ہے۔ اور اس کے پیچھے چھپے، شخصی مقاصد سامنے آنے لگتے ہیں۔
اس وقت بھی بعینہ یہی کچھ ہو رہا ہے اور پھر یہ کہ ذاتی مفاد کی تکمیل کے دھوئیں کی آڑ میں ایک سادہ سا تاثر دیا جا رہاہے کہ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی حل ہے۔ چلیے۔ اس کو مان بھی لیا جائے تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں تو دستخط شدہ معاہدے موجود ہیں کہ کسی بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرایا نہیں جائے گا۔
مگر یہ سب کچھ لوگوں کی نظروں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ پرانے سیاسی حریف ایک دوسرے کو فنا کرنے کے لیے ہر غیر اخلاقی حربہ استعمال کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ بہر حال نواز شریف اور زرداری کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک تیسرا سیاسی فریق انھیں پچھاڑ کر حکومت حاصل کر لے گا۔ وہ تیسرا فریق انھیں کے آزمائے ہوئے گر استعمال کر کے ملک کا وزیراعظم بن جائے گا۔
دونوں پرانی سیاسی طاقتیں حکومت کرنے کو اپنا خاندانی اور ذاتی حق سمجھتی تھیں اور آج بھی یہی ذہنی سوچ ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ایک تیسرا طفل مکتب ان کو سیاسی میدان میں خاک کیسے چٹوا گیا۔ یہ وہ ذہنی ساخت ہے جس میں ہر چیز گندھی ہوئی ہے۔ اور اب اس خاندانی سوچ کا بھرپور مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
اس ملک میں کوئی ایک سیاسی لیڈر، مکمل قانونی طریقے سے الیکشن جیت کر نہیں آیا۔ نواز شریف نے آج تک کسی بھی الیکشن کی مہم اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور حمایت کے بغیر نہیں سر کی۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے۔ اندرون خانہ حالات دیکھیے تو تمام سیاسی عناصر صرف میرٹ یا شفافیت کی بدولت قوم کی رہنمائی کا حق حاصل نہیں کر پائے۔ ہر ایک نے ریاستی حلقوں کی آشیر باد سے اقتدار کی ہما پنجرے میں قید کر کے ملک کو مسخر کیا۔ اور پھر جمہوریت جمہوریت کا کھیل شروع کیا گیا۔
ناقابل تردید حقائق موجود ہیں، جو ملک میں موجود تمام سیاسی رہنماؤں کی اصل طاقت یعنی ریاستی اداروں کی قوت کو اجاگر کرتے ہیں۔ عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے کے لیے یہی راستہ چنا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 2018میں حسب روایت، تمام طاقتور فریق، خان کی پشت پر کھڑے تھے۔ معاملہ صرف الیکشن جیتنے تک رہتا تو ٹھیک تھا۔ مگر عمران خان کی متلون مزاجی اور غیر سنجیدگی سے ان کے تمام دوست ناراض ہونے لگے۔ خان صاحب کو اقتدار کے اصل محافظ تخت پر بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔
مگر اختیار کے اصل مالک یعنی بیوروکریٹس نے انھیں بالکل قبول نہیں کیا۔ اس لیے نہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اس لیے کہ ایک خوفناک حکمت عملی کے ذریعے پرانے گھاگھ بابو، خان صاحب کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ دراصل وہی ان کے اصل خیر خواہ ہیں۔ اور ہاں، باقی سارے افسر نالائق اور کرپٹ ہیں۔ اس گروہ نے خان صاحب کو اس طرح گھیرا کہ ان کا سیاسی مستقبل برباد ہو گیا۔ ان کے چند اچھے کام بھی برے لگنے لگے۔
اور آج یہ صورت حال ہے کہ خان صاحب کی مشکلات اس درجہ بڑھ چکی ہیں کہ ان کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے وہ تقریباً گر پڑے ہیں۔ آپ کو وہ گزارشات کر رہا ہوں جو سسٹم میں کام کرنے کے بعد سمجھ میں آتی ہیں۔ ریاستی حلقے بہت دیر تک صبر کرتے رہے۔ خان صاحب کو سمجھاتے رہے۔ مثلاً پنجاب کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرنے کے لیے انھیں متعدد بار مشورہ دیا گیا۔ مگر خان صاحب نے سب سے بڑے صوبے میں اپنی سیاست کو برباد کر ڈالا مگر ضروری تصحیح نہیں کی۔ خیر اب تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔ لہٰذا اب صائب مشورے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
خان صاحب کی سیاسی غلطیوں پر اپوزیشن نے شروع میں اس لیے توجہ نہیں دی کہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومت ان کے مالی مفادات کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ یہ معاملہ بس تقاریر تک ہی محدود رہے گا۔ مگر جب یہ سلسلہ بڑھ گیا تو پھر روایتی سازشی کام شروع ہوا۔ چھوٹے میاں صاحب نے ریاستی حلقوں کو یقین دلانا شروع کیا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے مختلف ہیں اور بھرپور تابعداری کرتے رہیں گے۔
یہ وہ فکری بنیاد ہے جس سے معاملہ آگے بڑھ رہا ہے کیو نکہ اقتدار میں آنے کے بعد ہی وہ اتنے موثر ہوں گے کہ اپنے اوپر دائر شدہ کرپشن کیسوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ لہٰذا یہ سنہری موقعہ ہے کہ پرانی رسم کے تحت اقتدار میں آ کر اپنے مفادات کو محفوظ کیا جائے۔
جہاں تک فضل الرحمن صاحب کا تعلق ہے۔ تو وہ ایک مذہبی فرقے کے رہنما ہیں جس کے ہاتھ میں مدارس کی طاقت ہے اور اس قوت سے ریاستی ادارے بھی خائف ہیں۔ ابھی تک پاکستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو مذہبی طبقہ کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔ مولانا صاحب سیاست کے میدان سے باہر تھے۔ مگر انھوں نے اپنے آپ کو سیاسی نظام کا اہم پرزہ ثابت کر ڈالا۔ کوئی سیاسی رہنما ان پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی ان کی معاونت کا محتاج ہے۔
چلیے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے اور اپوزیشن کا کوئی بندہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ ذرا بتایئے تو سہی، وہ پٹرول کیسے سستا کرے گا۔ وہ بین الاقوامی مہنگائی کے رجحان کو پاکستان میں آنے سے کیسے روک پائے گا۔ وہ آئی ایم ایف کے در پر جانے سے کیونکر انکار کرے گا۔
وہ مزید قرضے لینے سے کیسے مفر حاصل کرے گا۔ درستگی کے لیے اس کا کیا منصوبہ ہو گا۔ اس طرح کی کوئی جامع منصوبہ بندی کم از کم مسلم لیگ ن یاپیپلزپارٹی نے آج تک آشکار نہیں کی۔ ان تمام کی غیر موجودگی میں اگر حکومت تبدیل بھی ہو گئی تو عوام کی بدقسمتی جوں کی توں رہے گی۔ یہ سیاست نہیں، چند لوگوں کی ذاتی لڑائی ہے اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ تو قومی سیاست ہے؟