Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

آج قبلہ جنید اور میں نے ایک گھنٹے میں تین تین دفعہ جوتے پالش کرائے۔ جب ٹین ایجر بچے آپ کے پائوں میں پہنے جوتے دیکھ کر پوچھیں کہ پالش کرانے ہیں تو جہاں آپ کا دل دکھتا ہے، وہیں آپ کے اپنے بچے آپ کی آنکھوں سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ کم از کم میں انکار کی ہمت نہیں کرسکتا۔ مفت پیسے دینے کی بجائے ان سے کام لے لیا کریں تاکہ ان کی عزت نفس برقرار رہے اور وہ مانگنے کے عادی نہ ہو جائیں۔ آپ سے کام مانگیں پیسے نہیں۔

مجھے نعیم بھائی کی بات یاد آتی ہے۔ بہاولپور میں آئی سپیشلسٹ سرجن تھے۔ انسانی نفسیات ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ کہنے لگے جو بھی بندہ مجھے ملتا ہے تو میری پہلی نظر فطری طور اس کی آنکھوں پر پڑتی ہے کہ اس کی آنکھیں تو ٹھیک ہیں۔ ان میں کوئی الرجی یا بیماری تو نہیں؟

اس طرح جو نوجوان جوتے پالش کرتے ہیں وہ بھی آپ کو نہیں دیکھتے ان کی نگاہ سیدھی جوتوں پر پڑتی ہے کہ صاف ہیں یا گندے۔ صاف ہوں گے تو وہ مایوس نظروں سے آپ کو کچھ کہے بغیر آگے بڑھ جائے گا۔ ورنہ آپ سے پوچھے گا۔

خیر ایک نوجوان لڑکا آیا۔ حالانکہ گھر سے جوتے پالش کرکے گیا تھا کیونکہ بیگم صاحبہ کا فرمان ہے لوگوں کی پہلی نظر آپ کے جوتوں پر پڑتی ہے لہذا جوتے صاف ہونے چاہیں (میری ہمت تو نہیں کہ میں تردید کروں)۔

خیر پہلے نوجوان نے پالش کر دیے۔

اس کے بعد ایک نوجوان بچہ آیا اس نے بھی پوچھا تو اس کو کہا قبلہ جنید کے پالش کر دو۔ پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا آیا۔ سب سے بار بار جوتے پالش کرائے۔

قبلہ جنید کا پارہ چڑھ رہا تھا کہ یہ کیا ڈرامہ چل رہا ہے۔

میں نے کہا قبلہ یہ ٹین ایجر بچے ہیں۔ ان کا اس بات پر یقین نہیں ٹوٹنا چاہئے کہ کام نہیں ملتا، لوگ تین ہزار روپے کا پزہ کھا لیتے ہیں ہم سے سو روپے کا جوتا پالش نہیں کراتے۔ ان کے اندر بڑھتا غصہ کسی دن انہیں جرائم کی طرف لے جائے گا۔ بہتر ہے ہم انہیں کام دیتے رہیں تاکہ ان کا مزدوری پر یقین رہے۔ ورنہ کسی دن یہی نوجوان پستول لے کر آپ سے پرس، فون یا گاڑی بھی چھین سکتا ہے۔ میں تو دن میں تین چار دفعہ صاف گاڑی پر بھی کپڑا مروا لیتا ہوں تاکہ اس نوجوان یا بندے کو لگے کہ اگر میں کام کروں تو کام ملتا ہے۔ مجھے بھیک مانگنے یا کسی سے گن پوائنٹ پر چھیننے کی ضرورت نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے اتوار بازار جانا ہوتا تھا تو واپسی پر ایک کی بجائے دو دو مزدور ہائر کر لیتے تاکہ ان کی مزدوری بن جائے۔ خود بھی اور بچوں کو بھی کہا ہوا ہے کہ اسلام آباد ائرپورٹ پر ٹرالی والے ضرور لے لیا کریں۔ احمد بولا بابا میں خود کر لیا کروں گا۔ میں نے کہا نہیں آپ نے اسے مزدوری دینی ہے۔ وہ وہاں ائرپورٹ پر اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لیے کام کررہا ہے۔

خیر جب اٹھنے لگے تو ساتواں نوجوان بچہ بھاگتا ہوا آیا۔۔ جوتے پالش کرا لیں۔ ان سب کو لگا آج کوئی نواب ہمارے علاقے آیا ہوا ہے۔ خیر اسے بھی مایوس نہیں کیا۔

اس ملک میں بیروزگاری اور غربت بڑھتی جارہی ہے۔ امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب تر ہورہا ہے۔ ان نوجوان بچوں کو سکول کالج میں ہونا چاہئے تھا۔ بڑھتی آبادی کا جن اب سب کو کھا رہا ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں ایک ایک گھر میں آٹھ آٹھ دس دس بچے ہیں اور وہ سب والدین کی ذمہ داری نہیں بلکہ وہ ان کا اثاثہ ہیں جن سے وہ مزدوری کرا رہے ہیں۔ ان سب نوجوان بچوں سے پوچھا تو یہی پتہ چلا گھر میں آٹھ دس سے کم افراد نہیں ہیں۔

قبلہ جنید نے فرمایا یہ اس پہلے نوجوان کی کرامات ہیں جسے آپ نے اچھی ٹپ دی تھی۔ اس نے جا کر سب کو بتایا ہے۔

میں نے کہا سر جی اس نوجوان کی محبت دیکھیں۔ یہ ایک ہی پروفیشن میں ہم عمر نوجوان ٹین ایجرز ہیں۔ عموماََ ایک پروفیشن میں لوگ آپ کے دوست نہیں رقیب ہوتے ہیں۔ اسے لگا ہوگا یہ جو صاحب بیٹھے ہیں انہیں شاید فرق نہ پڑے۔ اگر میں نے کچھ پیسے کما لیے ہیں تو یہ میرے باقی ساتھی جوتے پالش کرنے والے بھی جا کر کما لیں۔ ایسا جذبہ اب کہاں ملتا ہے کہ آپ کا دل کرے آپ نے کچھ کمایا ہے تو دوسرے بھی کمائیں ورنہ ہمارے ہاں تو یہ چلتا ہے میرے گھر کی دیوار گر جائے کسی دوسرے کے صحن میں گرے تاکہ کچھ دن تو ملبہ صاف کرتا رہے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.