لارنس آف عربیہ کی بچپن سے ہی خواہش تھی کسی دن برطانیہ کا بادشاہ 900 سال قدیم روایت کے مطابق تلوار اس کے دونوں جھکے کندھوں پر ٹچ کرکے اسے نائٹ کا خطاب عطا کرے۔ آخر وہ دن آن پہنچا جب 30 اکتوبر 1918 کی ایک صبح تیس سالہ نوجوان کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس کو شاہی محل بکنگم سے بلاوا آیا کہ بادشاہ سلامت آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
اس دن لندن میں ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ آخرکار چار سال اور تین ماہ بعد باقی دنیا کی طرح برطانیہ نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔ تاریخ کی اس خونی جنگ عظیم اول جس میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ انسان مارے گئے تھے وہ اب ختم ہونے والی تھی۔
یہ جنگ تین براعظموں میں لڑی گئی تھی۔ اس دن ہی برطانیہ کے بڑے دشمن سلطنت عثمانیہ ان کی شرائط پر معاہدہ کررہی تھی۔ ان کے بعد جرمنی اور آسٹریا ہنگری سلطنت بھی امن معاہدے کے لیے تیار تھی۔ جنگ عظیم اول کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کرنل لارنس کا بڑا کردار تھا خصوصا مڈل ایسٹ میں۔ سلطنت عثمانیہ جتنی جلدی معاہدے پر مان گئی تھی اس پر خود لارنس کو بھی حیرانی تھی۔ اس نے کچھ عرصہ قبل ہی اس مہم میں حصہ لیا جب دمشق پر قبضہ کیا گیا جس سے سلطنت عثمانیہ کا بٹھا بیٹھ گیا تھا۔
اب لارنس لندن واپس پہنچ چکا تھا اور تیس سال کی عمر میں بڑے بڑے جرنیلوں اور سیاستدانوں ساتھ بیٹھ کر مڈل ایسٹ کا نیا نقشہ بنا رہا تھا۔ لارنس کا خیال تھا شاید بادشاہ نے بھی مڈل ایسٹ پر بات چیت کے لیے اسے بلایا تھا۔
لیکن وہ غلط تھا۔
اسے سیدھا ایک بال روم لے جایا گیا جہاں بادشاہ اور ملکہ اپنے دیگر اہم شخصیتوں ساتھ موجود تھے۔ بادشاہ کے سامنے ایک اسٹول رکھا ہوا تھا اور ساتھ میں میڈل رکھے تھے۔ جب تعارف ہوچکا تو بادشاہ جارج پنجم نے لارنس کو مسکراہٹ دی اور بولا میرے پاس تمہارے لیے ایک تحفہ ہے۔
کرنل لارنس اب تک ماحول دیکھ کر سمجھ چکا تھا وہ تحفہ کیا تھا۔ اسے بادشاہ کے آگے جھک کر وہ میڈل وصول کرنا تھا اور بادشاہ نے تلوار سے اس کے دونوں کندھے باری باری ٹچ کرنے تھے۔ اسے نائٹ ہوڈ Knighthood کا لقب دیا جارہا تھا۔ یہ وہ لحمہ تھا جس کا برسوں تک لارنس نے بچپن سے اب تک انتظار کیا تھا۔ اس کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا تھا۔
بادشاہ جارج نے ان چار برسوں میں بے شمار میڈلز برطانوی فوجیوں کو دیے تھے اور تو اور اب نائٹ القابات بھی دھڑا دھڑ دیے گئے تھے جو سب کو اکھٹے ایک تقریب میں دیے جاتے تھے۔ لیکن لارنس کو اکیلے بلا کر یہ لقب دیا جا رہا تھا جو پہلے نہ ہوا تھا جس کا مطلب تھا کہ کرنل لارنس بہت اہم تھا جسے بادشاہ اکیلے بلا کر یہ میڈل دے رہا تھا۔ سب سے بڑھ کر ملکہ کی موجودگی بھی حیران کن تھی۔ ملکہ نے لارنس کے کارناموں بارے سن رکھا تھا۔ وہ خود پر کنٹرول نہ رکھ سکی اور وہاں چلی آئی تھی۔
تاہم ایک انہونی ہوئی۔ تیس سالہ نوجوان کرنل لارنس نے بادشاہ سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا وہ نائٹ ہوڈ کا میڈل لینے سے انکاری ہے۔
پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ برطانوی بادشاہت کی 900 سالہ تاریخ میں یہی پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی نے یہ بڑا لقب بادشاہ سے لینے سے انکار کیا تھا۔ کسی کو علم نہ تھا کہ اگر کوئی بادشاہ کو انکار کرے تو پھر کیا کرنا ہوتا ہے۔
بادشاہ ہاتھ میں میڈل پکڑے کھڑا تھا۔ ملکہ میری کا غصے سے برا حال تھا۔
کرنل لارنس برطانوی بادشاہ جارج اور اس کی ملکہ اس حالت میں چھوڑ کر مڑا اور ہال سے باہر نکل گیا۔