1980 کی دہائی میں پاکستانی ادیبوں اور سیاسی ورکرز خصوصا لیفٹ میں جس ناول نے انقلاب کے نام پر رومانس پیدا کیا اور آج تک اس کا رومانس ختم نہیں ہوتا وہ روسی ادیب میکسم گورکی کا "ماں" تھا۔
جنرل ضیاء دور میں جبر کی وجہ سے سیاسی ورکرز کو جن مشکلات، سختیوں اور جبر کا سامنا کرنا پڑا، اس وجہ سے گورکی کا ناول ماں اور اس کا غیر معمولی کردار ان کے لیے ہمت پیدا کرنے کا سبب بنے۔
ایک غریب گھرانے کی فیکٹری ورکر ماں جو اپنے بیٹے کی انقلابی سرگرمیوں سے نالاں تھی اور اسے منع کرتی تھی وہی ایک دن اپنے بیٹے پاویل اور اس کی کامریڈ دوست نتاشا کی گرفتاری بعد خود پمفلٹ بانٹتی تھی کہ بیٹے کا انقلاب جاری رہے۔
اس دور میں ہی روس کے پیپلز پبلشنگ ادارے سے روسی ادب کے تراجم بہت مقبول ہونا شروع ہوئے۔ لاہور میں "کلاسک" دکان مشہور تھی جو جمیل صاحب چلاتے تھے جو خود بھی ضیاء دور میں زیرعتاب رہے تھے۔
خیر مائیں بھی کیا چیز ہوتی ہیں۔ آج میں نے اپنے پسندیدہ بھارتی اداکار نانا پاٹیکر کا انیل کپور ساتھ انٹرویو دیکھا۔ انہوں نے بھی اپنی ماں کا ذکر کیا تو مجھے کچھ عرصہ پہلے راج ببر کا کپل شرما شو یاد آیا۔
راج ببر نے کہا جب انہوں نے فلموں میں اداکاری شروع کی تو وہ ایک دن اپنی ماں کو اپنی نئی فلم دکھانے لے گئے۔ اس فلم میں ان کا کردار ولن کا تھا اور سین ریپ کا تھا۔ ماں نے وہ سین دیکھا تو وہ بہت ڈسٹرب ہوئیں اور کہا بیٹا تو ایسے برے کام کیوں کرتا ہے۔ تو چھوڑے دے یہ سب کام۔ ہم تھوڑی کھا لیں گے، تھوڑے میں گزرا کر لیں گے۔ لیکن تو یہ کام چھوڑ دے۔
نانا پاٹیکرنے کہا اس کی ماں کی ساری زندگی کا محور اس کا باپ تھا۔ اس کا باپ وہیں چھوٹے موٹے ناٹک کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا جو کام کرنا اسے اعلی طریقے سے کرنا چاہے وہ لوگوں کو کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ لگتا ہو۔
نانا نے کہا میری فلم پرندہ پر مجھے جب نیشنل فلم ایوارڈ ملا تو میں نے ماں کو بتایا۔
اس نے کہا تمیں اس فلم پر ایوارڈ ملا ہے جس میں تو نے اتنے برے برے کام کیے ہیں اور انہوں نے تمیں اس پر انعام دے دیا؟