جیسے آپ کو پتہ ہے شفیق لغاری ہر جمعرات کی رات میرا ٹی وی شو رات گیارہ بجے کے بعد ختم ہونے سے پہلے میرے دفتر میں موجود ہوتا ہے۔ ہم گپ شپ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کھانا کھاتے ہیں۔ وہ اکثر دیسی انڈے لیہ سے منگواتا ہے۔ آج بھی مجھے تین درجن انڈے دیے تو ساتھ میں یہ کہنا نہیں بھولا کہ یہ انڈے کسی کو نہیں دینا۔
میں اس کی وجہ پوچھوں تو جواب دے گا یہ لیہ کے دیسی علاقے کی دیسی اصلی نسلی مرغیوں کے انڈے ہیں۔ پھر وہ ان مرغیوں کے محلے کے رنگ برنگے آوارہ گرد کمینے مرغوں کے ساتھ آفئیرز اور کردار پر روشنی ڈالتا ہے جس وجہ سے اس کا ماننا ہے وہ دیسی انڈے بہت ہی خاص ہیں اور ان میں بہت طاقت ہے۔
اب وہ ساری گفتگو یہاں لکھی نہیں جاسکتی۔ اگر لکھ بھی دوں تو پرندوں کے حقوق کی کوئی تنظیم مجھ پر ہتک عزت کا مقدمہ درج کر دے۔
خیر آج کھانا کھایا۔ میں نے پالک پینر اور دال منگوائی۔ لغاری نے پھر دال کی فرمائش کی تھی لیکن ڈھکن پالک پینر کا اٹھا کر وہی پلیٹ میں ڈال کر کھانے لگا۔ وہ پالک جو میں نے اپنے لیے منگوائی تھی۔ اب میں دال کھا رہا ہوں وہ پالک پینر کھا رہا ہے۔ خیر اب رات گئے لغاری کو پنڈی چھوڑنے جارہا تھا تو میں نے کہا لغاری ایک بات کا اعتراف کروں؟ جب کبھی میں تمہیں رات گئے گاڑی پر پنڈی ڈراپ نہیں دے پاتا اور تمہیں بائیکا پر جانا پڑتا ہے تو یقین کرو واقعی مشکل یا ضروری کام ہوتا ہے یا کسی سے ملنے کا وقت دے چکا ہوتا ہوں۔ ورنہ اکثر تمہیں چھوڑ بھی پنڈی جاتا ہوں اور جب ڈراپ نہیں کرتا تو مجھے guilty feelings آتی ہے۔
لغاری سنجیدہ ہو کر بولا تم ایسا نہ سوچا کرو۔ میں ملنے آ جاتا ہوں۔ میں تمہیں پابند نہیں کرنا چاہتا کہ سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ چلو۔ تم مجھے دیکھ کر خود کو پابند محسوس کرو یا بوجھ سمجھو۔ میں تمہاری آزادی میں روکاوٹ نہ سمجھا جائوں۔ میں چاہتا ہوں جب تم خوشی اور آزادی سے وقت دے پائو تو اس کا مزہ بھی آئے گا۔ پابندی سے میرے ساتھ بیٹھے رہنے سے خاک مزہ آئے گا۔
میں نے کہا نہیں لغاری یہ وجہ نہیں ہے۔ میری عمر بھر کوشش رہی ہے کہ دوستوں ساتھ وہی رویہ رکھوں جو میں ان سے توقع رکھتا ہوں۔ اگر تم میری جگہ ہوتے اور مجھے یہاں بائیکا کے پاس ڈراپ کر جاتے تو شاید مجھے بہت برا لگتا۔ میں توقع رکھتا کہ تم مجھے رات گئے میرے دور واقع گھر تک چھوڑ آئو۔ لیکن بعض دفعہ پھنس جاتا ہوں تو برا محسوس ہوتا ہے، گھر جا کر گلٹ بھی ہوتی ہے کہ کیا فرق پڑ جاتا تمہیں پنڈی ڈراپ کر آتا تو جلدی گھر پہنچ جاتے۔ پھر سوچتا ہوں تم اگر ایسا کرتے اور مجھے بائیکا پاس ڈراپ کر جاتے تو مجھے برا لگتا۔
لغاری کو اب رات گئے پنڈی چھوڑنے آیا ہوں اور اب یہاں ایک پٹھان بھائی کے ڈھابے پر بیٹھ کر گرم چائے پی رہے ہیں۔ لغاری کی باتیں سن رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ لغاری کتنا سمجھدار ہوگیا ہے۔ کبھی ملتان یونیورسٹی کی کنٹین پر دوستوں کی محفل میں یہ نخریلا بندہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔
لغاری نے ٹھیک کہا تھا دوستوں کو اس وقت ملو جب وہ ذہنی طور پر فری ہو اور آپ کی موجودگی بوجھ نہ لگے۔ پنڈی کی یہ سرد رات اور پٹھان بھائی کے ڈھابے کی ملائی والی گرم چائے چھوڑ کر بندہ اب اسلام آباد واپس کیسے جائے؟