پشتو میں تو یہ حرف یا آواز اتنی زیادہ ہے کہ کوئی ایسا جملہ مشکل سے ملے گا جس میں ایک دو مرتبہ (ڑ) نہ ہو کرتا بولنا آنا جاتا، اُٹھنا بیٹھنا، جتنے میں افعال ہیں ان میں (ڑ) کثرت سے ہے۔
کڑل(کرنا) اورڑل راوڑل(لانا لے جانا) جڑل(رونا) مڑ، وڑ، زڑ، گڑ، بڑ، سڑ، چڑ، خڑ، پڑ اور تو اور کسی بھی اور زبان یہاں تک کہ دراوڑی زبانوں میں بھی کوئی لفظ (ڑ) سے شروع نہیں ہوتا۔ لیکن پشتو میں بے شمار الفاظ (ڑ) سے شروع ہوتے، جسے ڑوند(اندھا)، ڑق(حرکت)، ڈچ (ہلنا)، ڑنگ (لگاڑنا)، ڑت (پتلا)، ڑتاوہ (بے رنگ، بے ذائقہ)، ڑومبے(پہلا) وغیرہ۔
اس کے بعد حرف "اڑ" کی طرف آتے ہیں جو پشتو میں زمین کے لیے ہے اب بھی اڑول کا مطلب ہے جو تنایا ہل چلانا) اڑوی، واڑوہ، آوڑیدلے سب کے سب اُلٹ پلٹ کرنے کو کہتے ہیں اڑتاؤ، اڑیتدلے، اڑتوی، اڑتوہ کا مطلب زمین پر گرانا یا پھینکنا ہے۔ کیونکہ اڑ معنی رکتا رکاوٹ، لڑنا گرنا، سب کا آخری اور بڑی جگہ زمین (اڑ) ہی ہے۔ اس لفظ کے بہت ساری شکلیں اردو میں بھی ہیں۔ اڑی، اڑتا، آڑ، آڑا، اڑک۔ سب کا مطلب ہے۔ رُکنا پھڑنا، لڑنا۔ خود لفظ پڑ اور پڑنا بھی پشتو (پہ اڑ) ہے یعنی زمین پر ہے۔ اس پہ اڑ سے پھر نہ صرف پڑنا پڑا ہواہے۔ بلکہ پشتو لفظ پروت، پرتہ سے پریتوی کا لفظ بھی بنتا ہے جو سنسکرت میں زمین کو کہتے ہیں پریتوی ماتیرس (زمین ماں)۔
دوسرے مرحلے میں جب انسانی مخرج صاف ہو جاتا ہے تو (اڑ) بھی (ر) میں بدل جاتی ہے اور اڑ سے ار ہو جاتا ہے۔ پنجابی میں کسانوں اور زراعت سے رکھنے والوں کو "ارائیں " کہاجاتا ہے اور بولنے کوڑانٹر جو ارانٹرا ہے۔ انگریزی میں نہ صرف (ار) سے ارتھ ہو جاتا ہے۔ بلکہ ایریا، ایرنیا، ارائیول، ایری گیشن، جسے الفاظ بھی بنتے ہیں۔ اس لفظ (ار) کے جلوے دوسری سامی اور اریائی زبانوں میں بھی بہت ہیں۔
زمین کے لیے (ار) کا تعلق (اڑ) سے ہونے کا ثبوت اردو لفظ اناڑی، بھی ہے جس کے معنی ہر کسی کو معلوم ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ اناڑی (ان آڑی) بمقام آڑی، ہے اور یہ آڑی یعنی زراعت کار، غیر زرعی، لوگوں کو خود تو آڑی اور دوسروں کو اناڑی۔
اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے ایران کے حکمرانوں کو آریا مر، کہا جاتا تھا یعنی آریوں کا مہر مشر(بڑا)۔
اڑ سے ار بننے کے بعد پشتو میں یہ ارت ہو گیا بمقابلہ تنگ، کھلا، فراخ وہی معنی جو عربی لفظ عرض بمقابلہ (طول) کے ہیں۔
اس سے ایک لفظ ارتینا بنا جس کے معنی بیوی کے ہیں یہ ان پرانے عقائد کے مطابق ہے جن میں زمین کو آسمان کی بیوی (ارتینہ) سمجھا جاتا تھا۔ دیاؤس (آسمان) تریس اور پریتوی ماتیرس۔
موجودہ ہندی دھرم میں دیوتاؤں کی بیویوں کو ان کی آبخلی اردھا بخلی (اردو، آبخلی) یا آدھی شکتی کہا جاتا ہے۔ برھما کی بیوی سرسوتی، وستو کی بیوی لکشمی، اور شیو کی بیوی پاریتی کو ان کی اردھا بخلیاں کہا جاتا۔
بہر حال (ار) سے ارت اور فارسی اور اردو سیسنسکرت بن گیا۔ جو انگریزی میں ارتھ سنسکرت میں ارد اور عربی میں ارض ہے۔ کل ملا کر خلاصہ یہ نیا کہ ار کا مطلب زمین ہے اور زراعت کار لوگ ہی اصل آریا ہیں جب کہ ہند میں جو صحرائی جانور پال، خانہ بدوش قبائل وارد ہوئے تھے ان کو آریا، ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ آریا یعنی زراعت کار، مدنی اور شہری لوگ تھے جو خانہ بدوشی کرتے ہی نہیں اور اپنی ماک (زمین) سے وابستہ رہتے تھے اور ان کی نسبت سے ایران اور ایرانی کے الفاظ بنے ہیں ہندوستان میں وارد ہونے والے خانہ بدوش۔ ان کے دشمن تورانی یا کشتری (کش توری) کا مطلب ہے۔ تلوار کھینچ۔ یا تلوار والے۔ لیکن ان کا دوسرا نام اساک، تھا۔ اس کا معنی گھوڑے والے اساک، سک، ساکا ایسی اسیاس یا سیتھین۔
اب تھوڑا سا اس، کا ذکر ہو جائے جس طرح آریا، کا تعلق زمین سے تھا اسی طرح اساک کا انحصار، آسمان پر تھا۔ بارش، سورج اور تمازت خانہ بدوشوں کے لیے ضروری تھے اور ایسے آسمان سے پھرا اس (گھوڑے) اسوریا، ہور(سورج) اور عشتا، استر، ایسٹر اور اسٹار کا بھی تھا۔
اس کاہند، یورپی زبانوں میں تو بہت زیادہ عمل دخل لفظ آسیا (ایشیاء(آسٹرا، آسٹری کے پیچھے جاتے جاتے ہم آسٹریلیا، اسکاٹ لینڈ اور اسپین تک جا پہنچتے ہیں۔ استان(اس۔ تاں) کا لفظ تو ہم بہت سارے ممالک کے ناموں میں دیکھتے ہیں۔ عربستان، ہندوستان، پاکستان، افغانستان بے شمار الفاظ ہیں جو آستان، آستانہ استھان سے بنے ہیں۔ اس تھان یا تان۔ یعنی اس (گھوڑوں کے بھیڑے کی جگہ اسی اس، کا لاحقہ انگریزی الفاظ اسٹیبل، اسٹنڈ، ا سٹیشن، اسٹیج، اسٹال میں بھی ہے۔ یہی اس، جب عربی میں جاتا ہے تو اص، ہو جاتا اصطبل (اس تبیلہ) اصل، اصیل، اصطرلاب، اصطخر، اصفہان وغیرہ۔
مولانا سلمان ندوی نے اپنی پیش بہا کتاب تاریخ ارض الطرق میں لکھا ہے کہ لفظ سیاست، سیاس کی بنیاد سائیس سٹیس کا لفظ ہے۔ گھوڑوں کا نگران سائیس اور انسانوں کا حکمران سٹیس، سیاس، سیاست دنیا میں طاقت کا پیمانہ بھی ہارس پاور ہے۔ مسلمانوں میں گھوڑا کھانے کے لیے حلال نہیں لیکن جب مر رہا ہو تو اُسے ذبح کیا جاتا ہے انگریز بھی جانکنی کی تکلیف سے بچانے کے لیے اسے گولی مار دیتے ہیں۔ اس کا لفظ پشتو میں اب بھی ویسے کا ویسا ہے۔ جو دوسری زبانوں میں اسپ (فارسی)، اسو(سنکسرت)، ہپ(یونانی) اور ہارس (انگریزی) ہو گیا ہے۔
یوں ار (زراعت کارآریا، میں اور اس خازیرئی) اساک ہیں)
گھوڑے کے مقابل زراعت کاروں کا جانور گائے یا بیل ہے جو زرعی جانور ہے جب کہ گھوڑا خالص جنگی جانور ہے۔ مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ جو آریا کہلائے گئے ہیں وہ دوسرے سے آریا تھے ہی نہیں بلکہ اساک تھے ورنہ اگر لفظی اور پیشہ ورانہ نام کے مطابق ہو تو اصل آریا وہ تھے جو ان اساک کی آمد سے پہلے ہند میں آباد تھے اور خالص زرعی لوگ تھے جنھیں آج آسٹرک یا دراوڑ۔ یا پروٹو انڈویورپس یا قبل آریا کہا جاتا ہے۔
اس غلط العام کی وجہ یہ ہے کہ اساک یا کشتری تو خالص خانہ بدوش، جنگ جو اور ان پڑھ لوگ تھے جب ہندوستان کے لوگ خوشحال ہو گئے تو ان کے پیچھے بلخ و باختر پر آریا برہمن بھی آگئے جو کشتریوں کے ساجھے دار ہو گئے۔ ان کو تو بہادر تلوار کے دھنی شریف نجیب کے ناموں سے بہلایا گیا اور آریا کانام برہمنوں نے ان پر چپکادیا ان کو لکھت پڑت یا ناموں سے کیا غرض۔ سو برہمنوں نے جو چاہا بنا دیا۔
برہمنوں کے بارے میں کبھی الگ سے تفصیل بتائیں گے فی الحال ایک مشہور ہندی محقق نیتی کارحیرجی کا یہ حوالہ کافی ہوگا کہ ہندوستان کے براہمن اصل میں شاکھادیپ۔ یا ساکوستانہ کے مہر تھے (آریاکی) ساکوستانہ کو آج کل سیستان کہا جاتا ہے جو ایران میں ہے اس کا پرانا نام در ج یا درنجیانہ، درنگیانہ تھا۔ با کاروان حُلّہ برختم زسیتان۔
(ختم شد، دوسرا اور آخری حصہ)