"ایٹم" کے لفظ یا نام سے کون واقف نہیں ہے، بچے بھی کہانیوں، فلموں اورکارٹونوں کے ذریعے اس نام سے واقف ہیں جو زیادہ تر "ایٹم بم" کی حد تک کی جانکاری ہوتی اوراس کے ساتھ تباہی کا تصور وابستہ ہے۔
ایٹم سے تعمیر کا کام لینے کامعاملہ الگ ہے اوریہ ایسا ہے جیسے کوئی ایک "جن" کو بوتل سے آزاد کرکے کام لیتاہے، کام لینے یاآقاکے لیے تو یہ "جن " فائدہ مند ہوتاہے لیکن باقی لوگوں کے لیے تباہی۔
لفظ ایٹم مشہوریونانی حکیم دیمیقراط جو سقراط، بقراط ہی کے لگ بھگ زمانے میں تھااس نیجمہوریت کا نظریہ بھی پیش کیاتھااسی وجہ سے جمہوریت کو "ڈیماکریسی"کہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ مذہبی کتابوں تک کواپنے مطلب کے مطابق بنانے والے انسان نے جمہوریت اور ڈیماکریسی کو بگاڑ کر آمریت سے زیادہ دل آزار اور انسان کے لیے ایک تباہ کن بنا دیا، دیمیقراط یا ڈیماکریٹس نے ایک اورنظریہ "ایٹم" کاپیش کیاتھا وہ آخری اورچھوٹا ذرہ جو تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
ایٹم کے معنی ہی ناقابل تقسیم (اے۔ ٹی او ایم)ہیں لیکن انسان نے اس کو بھی توڑکر تباہ کن بنا لیا، یہاں پر مجھے قرآن کی ایک سورۃ یاد آتی ہے، چھوٹی سی سورۃ ہے۔ اس میں رب جلیل نے ایک خاص آنے والے دورکے بارے میں اوربھی باتیں بتائی ہیں جو ہماری موجودہ سیاست پرفٹ ہوتی ہیں لیکن خصوصی طورپرکہا ہے۔
اب دیکھتے ہیں ایٹم۔۔ ایٹم نہیں بلکہ ایٹم بم یاایٹمی طاقت کیا ہے۔ یہاں مجھے قارئین کویاد دلانا پڑے گا کہ اس سے پہلے میں نے کئی مرتبہ اس کائنات اورنظام موجودات کی بنیاد"ازواج" پر بات کی ہے جس کے بارے میں خدانے دوٹوک اورصاف صاف کہاہے کہ "خلق الازواج کلہا"
"کلہا" کامطلب ہے وہ سب کچھ "کل" جو اس نے پیداکیاہے، چنانچہ کائنات میں ایسا کوئی مثبت نہیں جس کامنفی نہ ہو اورایسامنفی نہیں جس کامثبت نہ ہو، اوریہ سلسلہ کائنات کی پیدائش سے لے کر ذرے یعنی ایٹم بلکہ اس سے بھی نیچے تک میں کارفرما ہے اور اب طبیعات والوں نے بھی اس کی تصدیق کردی کہ اس کاسارا نظام "پیرلل" یا "مرر" ہے، ہرمنفی کے ساتھ مثبت کا زوج ہوتاہے اسے اصطلاحاًتنویت، ڈوئل ازم کہا جاتاہے، چینی فلاسفر نے اسے "ین"اور"ینگ" کہاہے یعنی حرکت اور سکون، ہندی دھرم میں اسے ست اور است کہتے ہیں۔
یہ جوڑے یا ازواج جب معروف طریقے پر ملتے ہیں تو اس سے ایک تیسری پیدائش ہوتی ہے اور یوں کائنات کانظام منفی ومثبت کے دوپیروں، دوپہیوں یادوپیڑیوں پر رواں دواں ہے، یہ دونوں ہی موجود ہوں توسلسلہ آگے بڑھے گا، ان کے ملن سے ہی تعمیر اور ارتقاکاسلسلہ چلتاہے جیسے بجلی توانائی ہے لیکن مادی تاروں کھمبوں کے ذریعے جاکرکسی مشین یابلب میں یکجا ہوگی تو تعمیر اوراگربراہ راست منفی مثبت غلط طریقے پر ملیں یاٹکرائیں تو تخریب اورتباہی ہوگی، اوریہی سلسلہ ایٹم کے ناقابل تقسیم ذرے کے ساتھ ہورہا ہے، اس کے اندربھی منفی اورمثبت کاجوڑاہوجاتا اور اسے توڑ دیاجاتاہے توتباہی ہی تباہی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نظام ازواج میں ایک طرح مداخلت ہے۔
لیکن میں نے یہ بات صرف ایٹم کے اندر کا زوج ٹوٹنے کی شروع نہیں کی ہے بلکہ کچھ اورازواج بھی ٹوٹے ہیں یاتوڑے جارہے ہیں اور ان سے تباہی بھی ہورہی ہے۔