لالوپرشاد یادو پڑوسی ملک کاایک عجیب وغریب لیڈرتھا یا ہے بلکہ اب توتقریباً "تھا" ہوگیا ہے، اس کے بارے میں مشہورتھا کہ جب تک سموسمے میں آلو رہے گا، سیاست میں لالو رہے گا اوروہ تھا بھی ایسا ہی۔
بظاہر" اْلو" لگتاتھا لیکن حقیقت میں آلوتھا، ہرپکوان میں پڑنے والا آلو۔ جو دایاں دکھا کر بایاں مارتاہے، خود کو اْلوظاہر کرکے دوسروں کو اْلوبنانے کاماہر۔ ایک مرتبہ اسے گرفتارکرلیاگیا تو اس نے اپنی جگہ اپنی بیوی "رابڑی دیوی"کوبہارکی وزیراعلیٰ بنادیا، رابڑی دیوی بھی بظاہر رابڑی تھی لیکن اندر سے پوری کریلانکلی، وہ بھی نیم چڑھی ہوئی۔
ایک مرتبہ لالوپرشاد یادوکو بھاری ریلوے کا وزیر بنادیاگیا۔ یہ شاید واجپائی کادورتھا، ریلوے اس وقت بھاری خسارے کاشکار تھالیکن کچھ ہی عرصے میں بھارتی ریلوے خسارے سے نکل کر بیس ہزارکروڑمنافع دینے لگا۔
ایک انٹرویومیں لالوپرشاد سے اس "چمتکار" کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے حسب معمول بند "ہونٹوں " سے بتایاکہ میں نے کہاکہ کرایہ کم کردو، کرائے کم ہوئے، لوگ ریلوے میں زیادہ آنے لگے اورآمدنی بڑھ گئی۔ لالو کایہی نسخہ ہمارے پاس بھی ہے، بجلی وغیرہ کے لیے۔ حکومت ذرا نرخ کم کرکے قابل برداشت سطح پرلائے اورپھر دیکھئے چمتکار۔
زیادہ ترلوگ جو نہ چاہتے ہوئے بجلی چوری پر مجبورہیں، ان ناقابل برداشت اورروزانہ بڑھنے والے نرخوں سے، وہ بجلی چوری چھوڑدیں گے جوبجلی کاسب سے بڑا مسلہ ہے۔ جتنے جتنے نرخ بڑھتے جاتے ہیں، اتنی ہی چوری بڑھ رہی ہے جسے روکنے کے لیی حکومت کی کوئی بھی کارروائی کارگرنہیں ہورہی ہے کیوں کہ اس گھر کو آگ گھرہی کے چراغ سے لگی ہوئی ہے۔
جلتے سناچراغ سے دامن ہزاربار
دامن سے تو چراغ جلاکم بہت ہی کم
اس روزبروزبڑھتے ہوئے نرخوں کی پالیسی نے صرف بجلی کی حد تک لوگوں کو چوراوربددیانت نہیں بنایا بلکہ "عوام" کو باقاعدہ حکومت کادشمن بھی بنایا ہے۔ ان کو ہرروزیہ یقین دلایاجاتاہے کہ حکومت فاتح ہے اورمفتوح کو لوٹنااس کاحق ہے اوروہ دشمن بن کر عوام کو مال غنیمت بنائے ہوئے ہے، سترسال سے "فاتح"، مفتوح عوام کو لوٹ رہاہے، مال غنیمت کھینچ رہاہے اوراس کی رگ رگ سے خون نچوڑ رہاہے۔
پہلے رگ رگ سے میری خون نچوڑااس نے
اب وہ کہتاہے کہ رنگت تری کیوں پیلی ہے
چوری نہ کریں تو لاچارکیاکریں کہ حکومت ان کو لوٹ لوٹ کر اپنے "لشکریوں "میں مختلف خیراتوں کے ذریعے بانٹ رہی ہے، اگرآج ان انکم سپورٹ کارڈوں اورمنافقانہ خیراتوں کوبند کرکے وہ پیسہ بجلی کی سبسڈی میں ڈال دیاجائے توحکومت اور حکومت کی املاک کو لوگ "اپنا" سمجھ لیں گے۔
اکثر دانا دانشورکہتے ہیں کہ فلاں فلاں ملک بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہواہے لیکن وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اورہم کہاں سے کہاں آکر پڑے ہوئے ہیں لیکن ان دانادانشوروں نے اس کی وجہ کھوجنے کی اگر کوشش کی بھی ہے توغلط سمت میں کھوجنے کی۔ وہاں اوراپنے یہاں کے عوام تو بالکل ایک جیسے ہیں، وہی تھوڑے میں خوش ہوکرصبرشکر کرنے والے، توپھرکیا ہواکہ ہمارے عوام سرکاری املاک، سرکاری چیزوں اورسرکاری قوانین کوبے تحاشہ توڑتے ہیں اوران کاذرا بھی احترام نہیں کرتے بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کوتوڑتے ہیں اورنقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟ اوروہ وجہ ہمارے سامنے ہے لیکن ہم دیکھی کو ان دیکھی کئے ہوتے ہیں۔
وہ وجہ صرف اورصرف ایک ہے کہ وہاں کی حکومتیں عوام میں اپنائیت کااحساس پیداکرچکی ہیں اورہماری حکومتیں عوام میں اپنائیت کااحساس پیدانہیں کرسکی ہیں بلکہ حکومت اورعوام کے درمیان دوری اوردشمنی پیداکرتی رہی ہیں۔
میں پڑوسی ملک میں کئی کئی بار آتاجاتا رہا ہوں، ذاتی طورپر بھی اورکسی کانفرنس وغیرہ کے سلسلے میں بھی اورتقریباً ہرقوم ونسل مذہب اورکمیونٹی سے ملاہوں، جانکاری حاصل کرتارہاہوں، وہاں میں نے جو خاص چیزدیکھی، وہ یہ ہے کہ "سرکار"سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ملک کی املاک، قوانین اورچیزوں سے بے پناہ محبت اوراپنائیت پائی جاتی ہے۔
کسی لق ودق صحرامیں کسی سنسان سڑک پربھی کوئی قانون کو توڑتاہوانہیں ملا ہے اورنہ ہی کسی ملکی چیزکو نقصان پہنچاتے دیکھا، جگہ جگہ باغوں میں، پارکوں میں، سڑکوں کے کنارے لوہے پیتل تانبے وغیرہ کی ایسی چیزیں جو آسانی سے لے جاکر بیجی جاسکتی ہیں لیکن مجال ہے جوکوئی ان کو ذرابھی نقصان پہنچائے، کوئی پھول توڑے، کسی پیڑکو نقصان پہنچائے، ڈرائیورلمبی لمبی سڑکوں پرانتہائی سنسان مقامات پربھی ٹریفک کے قوانین پرعمل پیرا ہوتاہے، اس لیے کہ ٹریفک پولیس بھی انہیں کبھی بے جا تنگ نہیں کرتی، عام پولیس والے بھی کسی سے کوئی تعرض نہیں کرتے، سوائے سہولت اورمدد کرنے کے۔ چنانچہ ہرفرد ملک کی املاک وقوانین کو "اپنا"سمجھ کر نقصان نہیں پہنچاتے۔
توقع تونہیں کیوں کہ اس کھیت کوچگنے والی چڑیاں اب بہری ہوچکی ہیں لیکن پھربھی کہناہمارا فرض ہے اورکہنا یہ کہ حکومت ذرااپنے عوام کو دشمن کے بجائے "اپنا"سمجھ کرتو دیکھے۔
ہم کو دشمن کی نگاہوں سے نہ دیکھاکیجیے
پیارہی پیار میں ہم پہ بھروساکیجیے