پہلے ایک لطیفہ سنئے، کہتے ہیں افغانستان میں ایک لوہار نے بادشاہ کے سامنے بڑہا نکی کہ وہ ایک ایسی توپ بناسکتاہے جویہاں کابل سے سیدھا دہلی پر گولہ داغ سکے گی۔
بادشاہ خوش ہوا لوہارکواجازت دے دی گئی، ساتھ ہی تمام لوازمات اورسہولیات بھی فراہم کی گئیں۔ لوہارتوپ خانے میں لگ گیا، سرکاری خزانے سے کھاتارہا، پیتارہا، کھینچتارہا آخر بادشاہ نے کافی عرصہ صبر کرنے کے بعد حکم دیا کہ ہمارے سامنے توپ کامظاہرہ کیاجائے۔
بندوبست ایک بڑے میدان میں ہوگیا، بادشاہ اورخاص لوگ بیٹھ گئے۔ لوہار نے توپ کوآگ دکھائی توایک بھیانک دھماکے کے ساتھ ہرطرف دھواں پھیل گیا کافی دیربعد دھواں چھٹا تو توپ کے سارے پرزے یہاں وہاں بکھرے ہوئے تھے۔ لوہار کو پہلے ہی پتہ تھا اورپہلے سے اس نے صورت حال کے لیے خود کو تیار بھی کیا تھا۔
بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوکر بولا حضور جب یہاں یہ حال ہے تو وہاں دہلی میں کیا تباہی مچی ہوگی، اب دہلی کا کس کو پتہ تھا کہیں مہینوں بعد پتہ لگناتھا اس عرصے میں لوہار اپنا اندوختہ لے کر لندن، دبئی یا امریکا پہنچ چکا ہوگا، سوئس اکاونٹ کے ساتھ۔
ایک پشتو کہاوت ہے جب تک سچ آئے گا جھوٹ گاؤں کو ویران کرچکا ہوگا۔
پہلے قوالی کا مکھڑا آیا کہ پاکستان میں مہنگائی کم ہے اس کے بعد پیچھے بیٹھے ہوئے ہمنواؤں نے آ۔۔۔ آ کرکے اورتالیاں بجا کر میدان گرم کرنا شروع کیا۔
اپنے واہ…مہنگائی ارے مہنگائی ہاں ہاں مہنگائی ساری دنیا سے اڑوس پڑوس سے کم ہے، ہاں کم ہے ارے ہاں کم ہے بہت ہی کم۔
شاید چند روزبعد پتہ چلے کہ پاکستان میں نہ تو مہنگائی کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی اوریہ صرف اپوزیشن یامنفی تنقید کرنے والوں کی افواہیں ہیں بلکہ شاید یہ بھی انکشاف ہوکہ یہود وہنود یامشہورعالم "بیرونی ہاتھ" کی کارستانی ہے ورنہ پاکستان میں اورمہنگائی؟ ریاست مدینہ میں صادقوں اورامینوں کے ہوتے ہوئے منہگائی؟ ؟ ناممکن ایمپاسیبل۔
بیانات تویک طرفہ ٹریفک ہوتے ہیں بول دیاتو بول دیا پھینک دیا تو پھینک دیا سامنے کون ہے جو جواب دے۔
ریڈیو جب تازہ تازہ آیاتو لوگ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ریڈیو سنتے تھے، ایک دن ریڈیوبج رہاتھا، سمندر خان سمندرکا مشہورپروگرام آرہاتھا کہ حسب معمول شاہ پسند خان نے خبریں سنانا شروع کیں جوخبروں سے زیادہ حکومت نامہ اورایوب نامہ ہوتاتھا، حکومت نے یہ کیا، ایوب خان نے وہ کیا۔ حجرے کے اراکین ہرخبر پرواہ واہ کرکے حکومت اورایوب خان کی تعریف بھی کر جاتے تھے۔ ایک شخص کوغصہ آیا وہ کندھے پربیلچہ رکھے کھیتوں سے تازہ تازہ آیاتھا، یہ نارواقسم کی مدح سرائیاں سن کربولا۔
افسوس کہ تم لوگ چھپ کربیٹھے ہوں اوریک طرف بکواس کررہے ہو ذرامیرے سامنے آکربکوتو اس بیلچے سے تمہیں چپلی بنادوں، اس کے بعد اس نے نہایت خلوص سے گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہو ئے کہا۔ یہ اچھا طریقہ ہے خود بولو اورکسی کی نہ سنو، ذراریڈیو کو دوطرفہ کردوکہ سننے والے بھی کچھ سنا سکیں تو لگ پتہ جائے گا یہاں آج کل بھی یہی ہورہاہے کوئی "چٹا بٹا" کہیں سے بھی بیان داغ دیتاہے کسی نے پتہ لگایاہے کہ میرے ملکوں میں کیاہے؟
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیاہے
"ہجر" میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
دوسرے ملکوں میں پاکستان سے زیادہ مہنگائی ہے، جناب "وژن" کے بعد اب قوالی میں شریک ہمنوا لگے ہوتے ہیں اخے واہ اخے وا کررہے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتارہاہے کہ جن ملکوں میں یہ مہنگائی بتارہے ہیں وہاں کے لوگوں کی فی کس ماہانہ کمائی کیا ہے؟ وہ وہاں کے "سکے" کماتے ہیں جو مہنگائی کے مطابق ہوتے ہیں۔
امرتسر میں تین چارسال ہوئے ہم نے ایک سائیکل رکشا والے سے پوچھا دن میں کتنا کمالیتے ہو۔ بولا چھ سات سو روپے بن جاتے ہیں اب اگر وہاں شکر، چائے، گھی، آٹا وغیرہ پاکستان سے دوچار روپے زیادہ ہے توان کے چھ سوروپے بھی ہمارے ہزار بن جاتے ہیں، آج کل نصفانصف کافرق ہے یعنی پاکستانی دوسو کے بدلے ایک سوروپے انڈین ملتے ہیں۔
اب افغانستان میں جاکردیکھئے ان کی کمائی یاتو ڈالروں میں ہوتی ہے یاافغانیوں میں اورایک افغانی چارپاکستانی روپے کے برابر ہے۔ ہم نے طورخم کے اس پار ایک قلی سے بات کی تواس نے تین سو روپے بتائے، ہم خوش ہوئے کیوں کہ ہمارے ذہن میں تین سو پاکستانی روپے تھے لیکن پارہونے کے بعدچکانے کاوقت آیا تو اس نے کہا کہ بات"اس" طرف ہوئی ہے اس لیے ادائیگی بھی "اس"طرف کے سکے میں ہوگی، بمشکل آٹھ سوپاکستانی میں جان چھڑائی۔ لیکن یہاں وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں علاقائی ملکوں سے مہنگائی کم ہے۔
کیابات ہے لوگ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ جھجکتے ہیں لیکن یہاں تو صادق وامین ہیں یا ہمنواؤں کویک طرف کرکے بولا جائے کہ مہنگائی کاحساب بیانوں میں نہیں لگایاجاتاہے بلکہ جب نرخ آمدنی سے بڑھ جاتے ہیں تواسے مہنگائی کہتے ہیں اور جب دونوں برابر چلتے ہیں تو چاہے ہندسے اور اعداد کچھ بھی ہوں مہنگائی نہیں ہوتی۔