لفظ"ور"اب بھی سنسکرت اوربرھمیدین میں احترام کے لیے بولاجاتا ہے "گرور ور، رشی ور، منی ور، منتری ور"بعض جگہ "بر"بھی ہوتا ہے چنانچہ لڑکی کے شوہرکو بھی "بر" کہاجاتاہے، فارسی میں "بر" پھل میوہ، اولاد اور بارآوری کے لیے بولاجاتا ہے "بارش" کالفظ بھی "ورشا"سے ہوتا ہوا برس، برسات ہوا ہے۔ پشتومیں بارش کو ورئیت یا ورخت، وریدل کہتے ہیں۔
خود لفظ "بھارت"کی بنیاد بھی "وہارانہ ورشا" سے بھارت ورش بنا ہے، وہارا تو وہی وہاراہے، ورش ورشا سے "ورشو" بنا ہے جو پشتو میں اب بھی سرسبز پہاڑی بارانی چراگاہ کو کہتے ہیں۔
اس لفظ "ور"سے ہند یورپی زبانوں میں بے شمار الفاظ بنے ہیں سب میں احترام یااوپریاآسمان کی جانب سے انعام یا عطا کے معنی ہوتے ہیں، ہندی دھرم میں عبادتوں کے عوض دیوتاؤں کی طرف سے "ور" یا وردان دیاجاتا ہے اوویستائی میں اسے"فر" کہاگیاہے، شاہنامہ فردوسی میں کہاگیاہے کہ یامہ (جمشید)کے پاس "فر" تھا لیکن جب اس کا فرکمزورہوا تو ضحاک کو اس پر غالب کیاگیاہے۔
ور یا فر یاآسمان کی طرف سے عطا کردہ "حق سلطنت"ہی اصل میں سیتا، گل اندام، ہیلین اوردرویدی کے استعارے میں بیان کیاگیاہے جو اصل مالک اورحقدار سے غیرحق دار یاغاصب چھین لیتے ہیں، بلخ وباخترکے وارہ ورہا سے برھما برھمن برھمک بن جانے کے بعد یہ باقاعدہ ایک طبقہ بن گئے۔
ہند میں جب کشتری خانہ بدومیں آکر کامیاب ہوگئے تو ابتدامیں صرف تین "گوت"تھے، منوسمرتی اوردیگرپرانے نوشتوں میں صرف تین گوت بیان ہوئے ہیں، کشتری(حاکم) ویش(عام کمائی والے) اورشدھر(ناپاک)۔ یہ برھمنوں کاچوتھا طبقہ بہت بعدمیں پیداہوگیا۔
جب ویدک دور کا خاتمہ ہوا "ویدانت"ہوگیا اور"برھمانا" کے نام سے نئی کتابیں یانوشتے وجود میں آئے اورپھر پران۔ برھمن وہی مٹھی بھرپوتھی والے تھے جو تاریخ کے ہردورمیں پیداہوکر حکمران کے ساجھے دار بنتے ہیں، حکمران توصرف تلوار کے دھنی ہوتے ہیں، یہ حکمران بہادر، شجاع، دیوتا، دیوتا زادے، ظل الہی، ظل اللہ اور سایہ ذوالجلال کہہ کر بانس پر چڑھاتے ہیں اور حکمران ان کو مذہب کے نام پر ایک متوازی نظام چلانے کی اجازت دے دیتا ہے، قدیم زمانوں کے جتنے بھی آثارمصردجلہ فرات یاکہیں اور ملے ہیں ان میں صرف دوہی عمارتیں خاص ہوتی تھیں ایک شاہی محل اوردوسرا دیوتا کا مندر۔
ہندوستان میں بھی ایساہوا، کشتریوں کے پیچھے پیچھے جب بلخ وباخترکے برھمک یابرھمن آئے توکچھ عرصہ دونوں کے درمیان کش مکش ہوتی رہی پھردونوں میں سمجھوتہ طے پاگیا، ہندی نوشتوں میں پرسورام برھمن(کلہاڑے والے)اوروشواستررشی وشیٹھ وغیرہ کی کہانیوں میں اس کش مکش کابیان ہواہے، برھمنوں کانشان پرسو(کلہاڑا)تھا جس سے بعد میں پرسو، پرس، پارس اورفارس کے الفاظ بنے ہیں۔
پرش پور (پشاور)کانام بھی پرس پرسوسے نکلاہے جب کہ کشتریوں کی خصوصیت "تورہ"یعنی تلوارتھی جس کی وجہ سے وہ کش توری کشتری چھتری کستری موسوم ہوئے اورایران (پارس) کے مقابل تورانی بھی، کشتری تو لڑنے والے ان پڑھ خانہ بدوش تھے جب کہ برھمن پڑھے لکھے اورچالاک تھے چنانچہ انھوں نے اساک کشتریوں کو بھی آریایاایرانی بنایااوراس کے معنی بہادر، شجاع، سخی، نجیب، اصیل شریف وغیرہ کرکے پرچاریا، وہ ان پڑھ لوگ تھے، بن گئے۔