یہ وضاحت پہلے سے ہوجائے کہ ہم بات سرکاری ایوارڈات، تمغہ جات، وظیفہ جات، اعزازیہ جات یاالغمہ واطعمہ کی نہیں کر رہے ہیں کہ وہ ایک الگ "مسورکی دال" ہے اورہر "منہ" اس کے لیے نہیں بنا ہوتا ہے بقول مولانائے روم۔
ہر سماع راست ہر کس چیز نیست
طعمہ ہر مرغکے، انجیرنیست
اورہماری اپنی تحقیق یہ ہے کہ اس سعادت کے لیے ایسی گردن چاہیے جس میں "سریا" نہ ہو، اسپرنگ ہو اور ایسی جھولی جس میں کوئی چھید نہ ہو، داغ دھبے ہوں تو کوئی بات نہیں، بلکہ ہم ان پرائیویٹ ایوارڈات کی بات کررہے ہیں جو پلاسٹک کے چند ٹکڑوں اور چند الفاظ کامجموعہ ہوتے ہیں جو صرف بچوں کے کھیلنے اورپھر کباڑی کو فروخت کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
ایسے ایوارڈات ہمارے پاس پہلے بھی بہت تھے لیکن گزشتہ دنوں ان میں ایک اورکا اضافہ ہوگیا حالانکہ ہم تہیہ کرچکے تھے کہ سوائے اس ایوارڈ کے اورکوئی ایوارڈ نہیں لیں گے جن پر گورنراسٹیٹ بینک سے منظورشدہ قائداعظم کی تصویرنہ ہو لیکن پھر بھی دوستی میں مارے گئے، درمیان میں کچھ ایسے دوست آگئے جن سے انکار ممکن نہیں تھا اور پھر لالچ بھی یہ کہ ہمیں "گوہر پشتونخواہ" ایوارڈ دیا جارہا ہے، "گوہرپشتونخواہ" اور ہم…؟ اتنی بڑی سعادت، اتنی بڑی قدردانی؟ اگرچہ بعد میں ہمیں ایک خدشہ ہوا کہ "گوہر پشتونخواہ"کو پشتومیں "گاؤخرپشتونخواہ" بولا جاسکتا ہے اس لیے ان کو تاکید کی کہ "گوہر" کو ذرا واضح واضح لکھاجائے کہ اس پر کسی بھی اینگل سے "گاؤخر" کا گمان نہ ہوسکے۔
شان نزول یہ بتائی گئی کہ ہم چوں کہ بہت زیادہ تیر مارچکے ہیں، ادب وصحافت میں ہم نے بڑے جھنڈے گاڑے ہیں اورہماری خدمات اورنہ جانے کیاکیا بہت بڑی بڑی ہیں اس لیے نوشہرہ کے کچھ گوہر شناس، بندہ شناس اورسب کچھ شناس ہمیں شناس کرکے روشناس کراناچاہتے ہیں۔
پہنچے، تو اول تو مقام واردات تلاش کرنے میں دانتوں پیسنے آگئے، ہم نوشہرہ شہرسمجھے اوروہ نکلاضلع نوشہرہ۔ نوشہرہ سے کوسوں دور ہمیں یہ سعادت حاصل کرناتھی، مقام کانام تھا "جنت الفردوس شہر" اور انتہائی چمکدار، بھڑکداراورمزین گیٹوں سے واضح ہواکہ
اگرفردوس برروئے زمین است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است
انتہائی بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کاایک اژدہام تھا اور گیٹ پر کھڑے مسلح"رضوان"اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ خداخداکرکے ہمیں بھی اذن داخلہ مل گیا، اندر گئے تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ زرق برق چمک دمک اورنظارے لشکارے تھے، دوردور تک گاڑیاں تھیں، نہایت ہی بنی ٹھنی خواتین تھیں، جلوے تھے، نظارے تھے اور وارے نیارے تھے۔
ایک بہت بڑے پنڈال میں دلہنوں کی طرح سجے ہوئے صوفے اورسامنے ایک بہت بڑے اسٹیج پر بقعہ نورکا سماں، رنگوں کے آبشارتھے، سیلاب تھے، برق وشرر تھے، اونچی آوازمیں کوئی صاحب کسی جنت یا سورگ کا نقشہ بیان کررہاتھا، لیکن ہم پر چمک دار لڑکیوں کی یلغار ہورہی تھی، ہرایک کے ہاتھ میں کچھ پمفلٹ، بروشر اور تصویریں تھیں جن میں اسلام آباد، پشاور اوردوسرے مقامات پر ارزاں فلیٹوں پر ڈسکاونٹ کی خوشخبریاں تھیں۔
اس آزمائش سے گزرگئے تو اسٹیج کے پیچھے بڑی بڑی اسکرینوں پر جنتوں اورسورگوں کی تصاویر اور نظارے، ہم تو ان میں ایسے کھوئے کہ کسی کے کھینچنے پر جاگے۔ پتہ چلاکہ یہ تقریب "بلڈروں " کا صدقہ ہے جو ہرہرمقام پرجنتیں تعمیرکررہے تھے اوریہ مقام واردات بھی ایک ایسی جنت کے درمیان تھا، بہت سارے زنانہ ومردانہ چہرے ادھر ادھرسرگرم تھے، عید یامیلے کاسماں تھا۔
آخر کار بہت ساری کنسٹرکشن کمپنیوں اورجنت گاہ کالونیوں اورٹاؤن شپ اسکیموں کی تعریفوں میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے کے بعد "ایوارڈز" تقسیم کرنے کامرحلہ شروع ہوا تو ہمیں پتہ چلاکہ ہمارے صوبے میں کتنے بے شمار"گوہر" (اسے گاؤخرنہ پڑھا جائے) پڑے ہوئے ہیں، تمام "گوہروں "کو ایوارڈدیے جانے لگے، ایوارڈ تووہی تھے، پلاسٹک کے چند ٹکڑے جوڑ کر ان پر دینے والوں کا "نام"۔
لیکن ہماری دلچسپی اس بڑے چمک دار اور خوبصورت شاپنگ بیگ پر تھی جو ایوارڈ کے بعد ایک خوبصورت سی لڑکی لاکر دیتی تھی، جسے گفٹ کانام دیاگیاتھا۔
ہماراخیال تھا کہ حاتم طائی چوں کہ کنسٹرکشن کمپنیاں اوربہت کچھ تعمیرکرنے والے ہیں تو ممکن ہے اس گفٹ میں ایک عدد پلاٹ وغیرہ ہو اگر یہ نہ ہوتو کم ازکم ایک سوٹ کاکپڑا تویقیناً ہوگا لیکن گاڑی میں پہنچ کر کھولاتو اس میں بیس روپے والی چائے کی پیالی تھی جس پر کنسٹرکشن کمپنی کانام موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا، ایوارڈ پر کمپنی کانام تھا اتنا بھی تکلف نہیں کیاگیا کہ ایوارڈ یافتہ"گوہر"کانام تک لکھا جائے "گوہرپختونخواہ"… جسے گؤخرپشتونخواہ بھی کہاجاسکتاہے۔